کام پر جاتے بچے، قانون اور تعلیم

ڈاکٹرمظفرحسین غزالی

بچپن انسانی زندگی کا سب سے حسین پل ہوتاہے، جس کی یاد ہمیشہ ستاتی ہے۔ نہ کسی بات کی فکرنہ ہی کوئی ذمہ داری۔ بس ہر وقت اپنی مستی میں کھوئے رہنا کھیلنا کودنااورپڑھنا، لیکن سبھی کا بچپن ایساہویہ ضروری تونہیں۔ دنیابھرمیں 21.5کروڑ بچے ایسے ہیں جن کی عمر14سال سے کم ہے۔ ان کا وقت کاپی کتابوں اور دوستوں کے بیچ نہیں بلکہ ہوٹلوں، گھروں، کارخانوں، صنعتوں، کھیت کھلیانوں برتنوں اور اوزاروں کے بیچ گزرتاہے۔ بچوں کے ذریعہ سب سے زیادہ سامان بھارت، بنگلہ دیش اور فلپائن میں بنائے جاتے ہیں۔ دنیا کے کچھ ممالک میں مزدوری کیلئے عمر مقرر نہیں ہے تو کچھ نے خطرناک کاموں کی فہرست نہیں بتائی ہے۔ بچہ مزدوری دنیا بھر میں ایک اہم مسئلہ ہے۔ اس کے نام پر بچوں کے ساتھ کیا کیا نہیں ہوتا اور ان سے کیا کیا نہیں کرایا جاتا۔

1991 کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں بچہ مزدوری کا آنکڑا 11.3ملین تھا۔ 2001میں یہ تعداد 12.67ملین تک پہنچ گئی۔ بچوں کیلئے کام کرنے والی این جی او کے مطابق 50.2 فیصد ایسے بچے ہیں جو ہفتہ میں ساتوں دن کام کرتے ہیں۔ 53.22فیصد معصوم جنسی استحصال کاشکار ہورہے ہیں۔ 50فیصد خطرناک حالات میں کام کرتے ہیں۔ ان کی زندگی غلاموں سے بھی بدتر ہے۔ ان سے دن رات کام لیا جاتا ہے اور مزدوری بھی نہیں دی جاتی۔ الٹے کام نہ کرنے پرانہیں جسمانی تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ مانا جارہا ہے کہ آج 12ملین بچے مزدوری میں لگے ہوئے ہیں۔ ان میں قریب ایک تہائی لڑکیاں ہیں۔ ویسے بچہ مزدوری کے ایک الگ اعدادو شمار ملتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ تمام طرح کے قوانین موجود ہونے کے باوجود دنیا بھر میں 17کروڑ بچے کام پر جارہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق ایشیائی ممالک سے ہے۔ خاص طورپر بھارت کے سامنے یہ مسئلہ پہلے سے زیادہ بھیانک شکل میں کھڑا ہے۔

جب بھی بچوں کے حقوں سے متعلق بات ہوتی ہے، بہانے سے یاد آنے لگتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو تعلیم کا حق دینے کیلئے گوپال کرشن گوکھلے نے 1911میں ایمپیریل ودھان پریشد میں بل پیش کیا تھا۔ یہ بل جبکہ چھوٹے لڑکوں تک محدود تھا لیکن پھر بھی پاس نہیں ہوسکا تھا۔ مہاراجہ دربھنگا جیسے ہندوستانی ممبران نے سخت اعتراض جتاتے ہوئے پوچھا تھاکہ اگر گائوں کے سارے لڑکے اسکول میں پڑھنے لگیں گے تو ہمارے کھیتوں میں مزدوری کون کرے گا؟ یہ ذہنیت آج بھی موجود ہے۔ 1986 میں جب پارلیمنٹ نے قانون بنایا کہ18سال سے کم عمر کے بچوں سے مزدوری نہیں کرائی جاسکتی ہے، تب بھی یہ سوال اٹھا تھا کہ غریب خاندانوں کیلئے مشکل ہوجائے گی۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ جو غریب ہیں، وہ روزی روٹی میں الجھے رہیں۔ اس سے باہر نکل کر انہیں کچھ سوچنے کا موقع نہ ملے اور نہ ہی ان کا دیش کے کسی معاملے سے کوئی سروکار ہو۔ سوائے ووٹ دینے کے۔ پہلے تو ان کے ووٹ بھی دوسرے ہی ڈال دیتے تھے۔ کیا سرکار کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ بچوں کو پڑھنے، کھانے کی سہولت فراہم کرے تاکہ انہیں مزدوری کرنے کی نوبت نہ آئے۔

لازمی تعلیم کا قانون بننے کے پیچھے سپریم کورٹ میں چلے کئی مقدمے، مختلف تحقیقی رپورٹیں اور سیکڑوں سماجی وفلاحی تنظیموں کی محنت وکوششوں سے بنی سیاسی ہم خیالی کا زور تھا۔ 6سے 14 برس کے ہر بچے کو تعلیم کا بنیادی حق دلانے والے اس قانون کی بڑی خاصیت یہ تھی کہ اس کے دائرے میں چھوٹی لڑکیاں شامل تھیں۔ اسی کے سہارے وزیراعظم نریندر مودی کو بیٹی بچائو بیٹی پڑھائی اسکیم لانچ کرنے کا موقع ملا۔ جبکہ پسماندہ و حاشیہ پر رہنے والے طبقات کو یہ سبق پڑھایا جاتا رہا ہے کہ لڑکی کو پیدائش کے بعد سے ہی گھر کے ماحول میں ہاتھ بٹانے کی تربیت دی جائے۔ یہ تہذیب کا تقاضہ ہے۔ سات آٹھ سال کی بچی گھر کی صاف صفائی، کھانابنانے جیسے روز مرہ کے کاموں کے علاوہ اس کام میں بھی داخل ہوچکی ہوتی ہے جو ذات کے لحاظ سے اس کے خاندان میں ہوتا آیا ہے۔ اس لڑکی کو اسکول بھیجنے والا اور اسکول میں اس کی پڑھائی کے معیار کو ماپنے کی کوشش کرنے والا قانون ایک خواب جیسا تھا۔ اس خواب کے حقیقت ہونے میں تہذیبی کانٹے اور سرکاری چٹانیں پہلے ہی حائل تھیں تب نئے بچہ مزدوری قانون نے اس کے خواب کو کئی دہائی آگے کھسکا دیا ہے۔ ترقی کی اصطلاح میں جسے آگے بڑھنا کہتے ہیں۔ اس نئے قانون سے اس کا ٹھیک الٹا ہوا ہے۔ بچوں کے حقوق دلانے کی قومی مہم دو قدم آگے بڑھی تھی، وہ چار قدم پیچھے ہٹ گئی ہے ایسا کیوں ہوا؟ اس کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ غریب ریاستوں سے بچوں و لڑکیوں کو اسمگلراسی تہذیبی روایت کی بنیاد پر کام دلانے کے بہانے شہروں میں لاکر فروخت کردیتے ہیں۔ غریب خاندان اپنی معاشی حالت کے بہتر ہونے کے لالچ میں اپنے بچوں کو ان دھوکے بازوں کے حوالے کردیتے ہیں لیکن یہ لڑکیاں یا بچے پھر زندگی میں کبھی واپس اپنے گھر نہیں جاپاتے۔

bachche

بچہ مزدوری قانون میں 2012میں بھی کچھ نرمی کی گئی تھی۔ 2016میں کہا جارہا ہے کہ اس قانون کو اور نرم بنادیا گیا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہوا ہے؟ لیبر اور روزگار کے وزیربنڈارو دتا تریہ نے بچہ مزدوری ترمیمی بل 2016 کو تاریخی و میل کاپتھر بتایا ہے۔ ان کے مطابق اس کا مقصد بچہ مزدوری کو پوری طرح ختم کرنا ہے۔ اس بل میں 14سال سے کم عمر کے بچوں کیلئے خاندان سے جڑے کاموں کو چھوڑکر مختلف زمروں میں کام کرنے پر مکمل روک لگانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب کوئی قانون زمین سے جڑا ہوتا ہے تبھی ٹکتا ہے اور لوگوں کو انصاف دیتا ہے۔ اسے تعلیم کا حق قانون 2009 سے بھی جوڑا گیا ہے۔ نیا بل کہتا ہے کہ کوئی بھی بچہ کسی کام میں نہیں لگایا جائے گا۔ لیکن جب بچہ اپنے اہل خانہ یا اہل خانہ کے روزگارمیں مدد کررہا ہو، اسکول کے بعد کے وقت میں یا چھٹیوں میں اور روزگار خطرناک نہیں ہے تو یہ قانون لاگو نہیں ہوگا۔ بنڈارو دتا تریہ کی دلیل ہے کہ خاندانی کاروبار میں مالک۔ مزدور کا تعلق نہیں ہوتا۔ یہ بڑی عام بات لگتی ہے کہ بچے گھرکے کاموں میں مدد کریں۔ سوال یہ ہے کہ بچے اسکول کے بعد یا چھٹیوں میں کام کریں گے تو سیرو تفریح کب کریں گے؟ پڑھیں گے کب؟ کھیلیں گے کب؟ کیا ان کی ذہنی ترقی کیلئے یہ ٹھیک رہے گا؟ کیا ان کے نازک جسم پر کسی بھی طرح کی مزدوری کا بوجھ لادنا صحیح ہوگا؟ اور یہ کون طے کرے گا یانگرانی کرے گا کہ بچہ خاندان کے کام میں مدد کررہا ہے؟ یا وہ اپنے والدین کا قرض چکانے کیلئے بندھوا مزدور بن گیا ہے۔

بچہ مزدور بل 2016میں خطرناک صنعتوں کی تعداد 83سے کم کرکے 3کردی گئی ہے۔ اب صرف کان کنی، آگ پکڑنے والی اشیاء اور دھماکہ خیز مواد کو ہی خطرناک مانا گیا ہے تو کیا زری، پلاسٹک، چوڑی بنانے کا کام، کپڑے، قالین بنانے کے کام، دکان، فیکٹری، کھیت کھلیان میں کیڑے مارنے والے دوائوں اور کیمیکل کے بیچ کام کرنا بچوں کیلئے محفوظ ہے۔ کیا بیٹری بنانا، رنگائی پتائی، اینٹ بھٹے میں کام کیا ان کیلئے ٹھیک ہے؟کیا کوڑا چننا یا ڈھونا ان کی صحت کیلئے صحیح ہے؟ فلم ٹی وی سیریل اور اشتہارات میں آرٹسٹ کے طورپر کام کرنے سے بچوں میں کیا ذہنی تنائو پیدا نہیں ہوتا؟ کیا یہ ان کی ذہنی نشو ونما کیلئے ٹھیک ہے؟ کچھ لوگوں کی زندگی ٹریفک سگنل پر کتاب، اخبار، پھول، کھلونے، موبائل چارجر بیچ کر چلتی ہے تو کیا ان کے بچوں کو ٹریفک سگنلس پر سامان بیچنے کی اجازت ہوگی؟ خاندانی کام میں بچوں کے تعاون کے پیچھے دلیل ہے کہ اس سے بچوں کو آبائی کام اورہنر سکھائے جاسکتے ہیں۔ لیکن یہ طبقہ واری نظام (جاتی واد) کو مضبوط کرنے کی سازش ہے۔ ماہرین اس کے خلاف ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ کچھ آنکھوں سے اوجھل بچہ مزدوری کے کاموں میں لگ جائیں گے اور اسکول چھوڑنے والوں کی تعداد میں اس سے اضافہ ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کوئی بچہ آبائی پیشہ کو ہی کیوں اپنائے؟ کیوں نہیں اسے اچھے سے پڑھنے لکھنے دیا جائے پھر وہ طے کرے کہ اسے کسان، کمہار، بڑھئی، انجینئر، ڈاکٹر، سپاہی، ٹیچر، یا سماجی خدمت گار بننا ہے۔ دراصل آبائی کاروبار سے بچوں کو منسلک کرنے کا مطلب ہے صنعتوں کیلئے سستے مزدوروں کا انتظام کرنا۔ جس کا مودی جی نے دنیا میں گھوم گھوم کر وعدہ کیا ہے کہ آپ ہمارے دیش میں صنعت کاری کرو، سستامزدور ہم فراہم کریں گے۔ اس طرح بچہ مزدوری اس ملک سے آسانی سے ختم نہیں ہوگی۔

 پارلیمانی کمیٹی نے اس بل کیلئے جو تجاویز دی تھی، ان میں سے کئی اہم تجاویز کو بل میں شامل نہیں کیاگیا۔ 13دسمبر2013کو لیبر اور روزگار سے متعلق پارلیمانی کمیٹی نے اپنی چالیسویں رپورٹ میں کہاتھاکہ بچوں کی طرف سے اسکول کے اوقات کے بعد اپنے خاندانی کاموں میں مدد کرنے کی شق کو بل سے نکال دینا چاہئے (کیوں کہ یہی وہ راستہ ہے جہاں سے بچہ مزدوری کی شروعات ہوتی ہے) خطرے والے کاموں میں ان کو بھی شامل کیا جائے جو کم عمر کے تحفظ صحت اور اخلاقیات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ کم عمر وں کو کسی بھی روزگار میں ملازم ہونے سے پہلے اپنی بنیادی تعلیم کو مکمل کرنی چاہئے۔ کئی کام خطرے والے نہیں ہوتے لیکن کام کی نوعیت خطرناک ہوسکتی ہے۔ بل میں اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے۔ تعمیراتی مقامات سے بھی بچوں کو دوررکھنے کی تجویز تھی، اس پر کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔ یونیسیف سمیت کئی دیگرادارے اور شخصیات اس بل سے مایوس ہوئے ہیں۔ کئی ممبران پارلیمنٹ نے بھی اس بل کو بچوں کو مایوس کرنے والا بتایا ہے۔ کیلاش ستیارتھی کا کہنا ہے کہ بھارت نے بچوں کے بچپن بچانے کا ایک موقع کھودیا ہے۔ غریبی اور تعلیم کی کمی بچہ مزدوری کی بڑی وجہ ہے۔ اقتصادی ترقی کی دوڑ میں آگے نکلتے ملک میں کیوں بڑی تعداد میں لوگ پیچھے چھٹ ر ہے ہیں ؟ کیوں بچے مزدوری کی چکی میں پس رہے ہیں، کام پر جارہے ہیں، کیوں تعلیم میں پچھڑرہے ہیں ؟ اس سوال پر سرکار اور سماج دونوں کو سوچنے کی ضرورت ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔