فکشن کی رد تشکیلی قرأت

  پروفیسر صغیر افراہیم

       معتبر نقاد پروفیسر ناصر عباس نیر نے شافع قدوائی کی کتاب ’’فکشن مطالعات، پسِ ساختیاتی تناظر‘‘ ترمیم شدہ ایڈیشن’’ فکشن مطالعات پسِ ساختیاتی قرأت‘‘ کے عنوان سے لاہور پاکستان سے اپنے ایک گرانقدر مقدمہ کے ساتھ شائع کی ہے۔ ایک اہم کارنامہ کے طور پر ادبی حلقہ میں اس کتاب کی پذیرائی خوب کی جا رہی ہے۔ شافع قدوائی کی علمی صلاحیت اور تنقیدی معیارات کے متعلق ڈاکٹر عباس نیر کا مختصر ’’ابتدائیہ‘‘ نہایت فکر انگیز اور وقیع ہے۔ مذکورہ مقالہ اپنی جامعیت اور محکم استدلال کی بنیاد پر ہندوستان میں موضوعِ گفتگو بن گیا ہے۔ شافع قدوائی عالمی ادبی رجحانات پر گہری نظر رکھنے والے اور وسعت مطالعہ کی بنا پر ما بعد جدید ناقدین کی صف میں دستخطی شناخت اس لیے رکھتے ہیں کہ انھوں نے فکشن کا مطالعہ بیانیات (Narratalogy)کی روشنی میں کیاہے نیز بیانیات کی کسی اہم تھیوری سے آگاہی کراتے ہوئے اس نظری بصیرت کی مدد سے ناول و افسانہ میں معنی کی نئی جہت، نئی کرن تلاش کرکے سامنے لاتے ہیں اور ذہنی طور پر چونکا دیتے ہیں۔ ادب اور تخلیق کے تعلق سے ان کے کتنے ہی مضامین اسی نوعیت کے ہیں۔ اپنی مخصوص لسانی فکر اور نظریہ تنقید کی بنیاد پر ہند اور بیرونِ ہندمیں اسناد کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ گوکہ وہ مکتبی تنقیدی تصور کے حامی نہیں ہیں لیکن اُن کی زبان و لسان اور تھیوری پر اصرار و لب کشائی بھی ہوتی ہے۔ وہ مخصوص انداز میں تھیوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فن پارے پر مدلل گفتگو کرتے ہیں یا پھرتھیوری کے حوالے سے فن پارے کو زیر بحث لاتے ہیں۔ اسی لیے وہ کسی ایک تھیوری کے پابند نظر نہیں آتے ہیں۔ ناصر عباس نیر نے اپنے ابتدائیہ میں اس کا اعتراف کیا ہے:

’’شافع قدوائی نے اردو فکشن کا مطالعہ کرتے ہوئے اُن نظری بحثوں کے حوالے دیے ہیں مگر اپنے ہر مقالے میں اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ ہر نظری بصیرت کی مدد سے اردو افسانے یا ناول کی ایک نئی جہت کو سامنے لایا جائے۔ ان مقالات میں ان کا طریق کار یہ ہے کہ وہ پہلے بیانات کی تھیوری کے کسی اہم رُخ کا تعارف کرواتے ہیں اور اس کے بعد اس کی رو سے اردو افسانے یا ناول کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ‘‘

اس لائحہ عمل میں شافع قدوائی کے یہاں اصطلاحات خود بخود در آتی ہیں۔ وہ رَدّ و قبول کے توسط سے فن پارے کو اکثر تہہ و بالا کرتے ہوئے نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ خوبی یہ ہے کہ وہ نئی نئی اصطلاحات کا اردو میں ترجمہ بھی کرتے رہتے ہیں، وہ بھی اس طرح کہ قرأت میں رخنہ پیدا نہیں ہونے پاتا ہے۔

       پروفیسر ناصر عباس نیر نے اپنے ابتدائیہ کی شروعات سر سید کے حوالے سے یہ کہتے ہوئے کی ہے کہ’’ ڈاکٹر شافع قدوائی نے سر سید کی جدیدیت کی نئی تعبیر کرنے کی ضرورت کا احساس دلایاہے‘‘۔   ما بعد جدید تنقید نگاروں میں شافع قدوائی ایک اہم نام ہے، وہ سر سید شناس کی حیثیت سے بھی ہندو پاک میں معروف ہیں۔ سر سید کے تعلق سے ان کی قابلِ قدر تصنیف

"Cementing Ethics with Modernism:

 An appraisal of Sir Syed Ahmad Khan’s writings”

 ایک معتبر کارنامہ ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے محض سر سید کی صحافت سے اپنا سروکار نہیں رکھا ہے بلکہ سر سید کی سوانح، ان کی ملازمت اور ان کے علمی، ادبی، ثقافتی، تعلیمی اور مذہبی سروکاروں کو ایک وسیع تر سیاق میں واضح کیا ہے اور حالی سمیت سر سید کے دیگر سوانح نگاروں کے تسامحات اور سر سید سے متعلق ان مفروضوں کی بھی قرار واقعی تردید کی ہے جنھوں نے مسلمات کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔

       مجھے ناصر عباس نیر کی رائے سے حرف بہ حرف اتفاق ہے کہ شافع قدوائی جیسی کثیر الجہت شخصیت کی تنقیدی صلاحیتوں کا لوہا اس جدید دور میں ہر مکتبِ فکر کے موئیدین مانتے ہیں۔ بلا شبہ وہ اردو فکشن سے متعلق ترقی پسندوں اور جدیدیت پسندوں کے فکری و تنقیدی میلانات کو تہ و بالا کرتے ہیں لیکن ادب کی تاریخی روایت کے تدریجی عمل میں یہ سلسلہ دراز ہے جس طرح ’’ادبِ لطیف‘‘ یا  ’’ادب برائے ادب‘‘ کے متخالف رویہ ترقی پسند رُجحان نے اختیار کرتے ہوئے ’’ادب برائے زندگی‘‘ کا نظریہ دیا اسی طرح ترقی پسند تحریک کی حقیقت نگاری کو ما بعد جدید نقاودں نے Subvertکرکے تخلیقی آزادی کا تصور دیا۔ ادب زندگی، وقت اور انسان کی طرح متحرک و فعال ہے۔ یہ تدریجی عمل تاریخیت و سماجیت کے تبدل میں کار فرما ہوتا ہے اور ادب میں رجحانات اور میلانات کی صورت میں در آتا ہے۔ یہی ادب کی فعالیت کا ضامن ہے اور پھر اسی فکر و نظر کی روشنی میں مزید نئے معیارات مرتب ہونے لگتے ہیں۔ اس دعوے کے ساتھ کہ تخلیق آزادیٔ اظہار کا استعارہ ہے جبکہ جو کچھ پیش کیا جاتا ہے یا پیش ہو جاتا ہے اس کا وسیلہ زبان ہی ہے۔ اسے بیانیہ کہہ لیجئے، اظہاریہ، اسلوب، اسلوبیات، سب ہی اصطلاحیں معنی مطالعہ کے اعتبار سے مترادف ہی ہیں اور ان پر مدلل گفتگو بھی ہورہی ہے۔

       پروفیسر شافع قدوائی اپنے تنقیدی لائحہ عمل میں لسانیات اور تہذیب کو حوالہ بناتے ہیں کیونکہ مخصوص علاقوں کی ارضیت کی نشاندہی میں زبان کے استعمال کو خاصا دخل ہوتا ہے جیسے فکشن رائٹر غضنفر اور ان کے اکثر کردار ایک خاص علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے اُن کے فکشن میں فضا، ماحول اور زبان کا جو استعمال ہوتا ہے وہ ارضیت کے نقوش کو واضح کرنے میں بے حد معاون ہوتا ہے۔ شافع قدوائی نے بھی اپنے مضمون میں اس کی واضح نشاندہی کی ہے۔ راجندر سنگھ بیدی کے تعلق سے بھی یہی کہا جاسکتا ہے۔ حالانکہ کچھ عرصہ پہلے تک بیدی کو تلاش کرنے میں اس کمی کا احساس ہوتا تھا کہ اُن سے متعلق بعض مفروضات قائم ہو چکے تھے جن کا مصنف نے بڑی حد تک ازالہ کیا ہے۔ روایتی طرز کی مثال افسانہ ’’ اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ سے دی جائے تو زیادہ مناسب رہے گا۔ اس میں اندو کو مرکزنگاہ بنایا جاتا ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اندو کو مکمل چاند کہتے ہوئے اس کے چودہ مراحل کا ذکر کیا ہے اور اس کی مناسبت سے اندو کی شخصیت کے چودہ پہلو بھی بیان کیے ہیں۔ مدن جو اُس کا شوہر ہے اور ہندو میتھالوجی کے مطابق عشق کا دیوتا کہلاتا ہے، بیدی نے اس صفت کو مدن کے اندر بخوبی دکھایا ہے۔ مدن اندو سے بے پناہ پیار کرتا ہے البتہ اندو اُس کے ساتھ ساتھ اُس کے عزیزوں کو بھی عزیز رکھتی ہے۔ چاہت کی اس تقسیم میں مدن کے ساتھ قاری کو بھی احساس ہوتا ہے کہ مدن نظر انداز ہو رہا ہے لیکن تجزیاتی مطالعوں میں فوقیت اندو کو حاصل رہتی ہے جبکہ مدن کا بھی اسی طرح حوالہ آنا چاہیے۔ زیریں لہروں کے ذریعے سامنے اور پس پردہ حوالوں کو پرودینا بیدی کا فنّی کمال ہے۔ اُن کی تخلیقات میں جتنے بھی کردار ہوتے ہیں ان سب کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ ’’بھولا‘‘، ’’صرف ایک سگریٹ‘‘، ’’گرہن‘‘، ’’لاجونتی‘‘، ’’ایک چادر میلی سی‘‘ وغیرہ میں نفسیاتی اور ذہنی کیفیت کا مرکزو محور عموماً سامنے کا کردار ہوتا ہے۔ بظاہر ثانوی نظر آنے والے کردار بھی مرکزی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جواکثر تجزیاتی مرحلے میں نظر انداز ہو جاتے ہیں لیکن شافع قدوائی نے پسِ ساختیاتی قرأت میں اس نظر انداز ہونے والے نکتہ پر اپنی فنکارانہ توجہ مرکوز کی ہے جس کی اہمیت کو ناصر عباس نیر نے موضوع بحث بنایا ہے۔

       چونکہ تخلیقی تجربے کے اظہار میں افسانہ کو ایک شعوری عمل کا نام دیاجاتا ہے۔ ظاہر ہے زبان و بیان، اسلوبیاتی ترتیب اور ساختیاتی نظام کو شعوری کوشش سے قائم کیا جا تا ہے بھلے ہی اس کے پس پشت تہذیبی اور ثقافتی ارتقاء پذیری کار فرما ہو۔ اس سے انکار نہیں کہ آج کے اکثر افسانہ نگاروں کے یہاں ایک مصنوعی دانشمندی دکھائی دیتی ہے۔ اس سے بھی انکار نہیں کہ وہ قابلِ قدر روایات سے چشم پوشی اختیار کرتے ہیں شاید الیکٹرانک میڈیا سے متاثر ہوکر یا کسی ضرورت کے پیشِ نظر۔ وہ صرف کہانی بنانے میں مصروفِ عمل نظر آتے ہیں جس کی بنیاد پر کہانی کی بُنت کی تو داد دی جا سکتی ہے لیکن کہانی کی معنویت اور اس کے آزادانہ تخلیقی اظہار میں شبہ کی گنجائش رہتی ہے پھر بھی دونوں ملکوں میں نئی نسل کے کئی کہانی کار ایسے ہیں جو فنّی باریکیوں کے ساتھ ساتھ دیر پا اثر آفرینی کا بھی خیال رکھتے ہیں اور آج بھی اسی رفتار سے اپنے تخلیقی بیان پر تازہ دم ہیں۔ ایسے میں ناصر عباس نیر کے ابتدائیہ کا یہ بیان ’’دوسری طرف پاکستانی قارئین ہندوستانی افسانہ نگاروں میں سریندر پرکاش، نیر مسعود اور ایک حد تک سید محمد اشرف اور خالد جاوید سے تو واقف ہیں، باقیوں سے نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘محلِ نظر ہے جب کہ ہندو پاک کے رسائل اور کتابوں کی آمد و رفت کا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں ہنوز جاری ہے۔ دونوں ممالک کے تخلیق نگار اور ناقدین ایک دوسرے کی تخلیقات و مقالات سے واقف بھی ہیں۔ ادیبوں کے آنے جانے کا سلسلہ بھی قائم ہے۔ ایسے میں یہ سمجھنا زیادہ سود مند نہیں ہے کہ ہندوستان کے بہت سے افسانہ نگار پاکستانی رسائل میں نہیں چھپتے ہیں تو وہ پاکستانی قارئین یا ناقدین کی نظروں میں نہیں ہیں۔ دیکھا جائے تو ہندوستان کے معروف افسانہ نگار مثلاً اقبال مجید، سلام بن رزاق، مظہر الزماں خاں، بیگ احساس، طارق چھتاری، انیس رفیع، عبدالصمد، شوکت حیات، احمد رشید وغیرہ پاکستان میں بہت کم چھپے ہیں تو کیا ان کے تئیں قدر میں کوئی فرق پڑتا ہے؟ اسی طرح پاکستان کے افسانہ نگاروں میں انور سجاد، خالدہ حسین، فاطمہ حسن، مبین مرزا وغیرہ ہندوستانی رسائل میں کم نظر آتے ہیں لیکن دونوں ممالک کے مذکورہ فنکار قارئین میں یکساں طور پر مقبول ہیں۔

       اس جملۂ معترضہ سے قطع نظرناصر عباس نیر کے اِ س معرکۃ آرا مضمون کے توسط سے ان تفصیلات کاضمنی ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ زمینی سرحدیں ضرور بر قرار ہیں لیکن ہندو پاک کے فنکاروں کے درمیان ابھی فاصلے اتنے دراز نہیں ہوئے ہیں کہ ایک دوسرے سے یکسر بے خبر ہوں۔ دراصل ان کی تخلیقات و فن پاروں نے ایسا پل تعمیر کیا ہے کہ جس نے فاصلوں کو تہ و بالا (Subvert)کر دیا ہے۔

       میں ناصر عباس نیر کی تحریروں کا قائل ہوں۔ ان کی ادبی صلاحیتوں، وسعتِ علمی اور کشادہ قلبی کا اعتراف کرتا ہوں کہ انھوں نے پروفیسر شافع قدوائی کے تنقیدی زاویۂ نگاہ اور فکر و نظر کا بھر پور جائزہ لیا ہے۔ ان کے مضمون کی نہ صرف ادبی حلقہ میں پذیرائی ہورہی ہے بلکہ اس سے خود ناصر عباس نیر کی تنقیدی وسعتِ نگاہ کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔