تصوف، مذہب اور دین اسلام (دوسری قسط)

ندرت کار

حقیقت یہ ہے کہ تصوف پرستوں نے ذہنی کشمکش اور تضادات کا حل "تارک الدنیا” ہونا قرار دیا ہے،انکے مطابق، مادی نظریہ زندگی نے چاروں طرف ایسے مصائب اور مشکلات کے دروازے کھول دیئے ہیں کہ انسان انکے اندر بُری طرح گھر کر رہ گیا ہے،اور ان سے نکنے کوئی چونکہ کوئی راہ نہیں ہے، اس لیئے جب انہوں ننے اپنے آپکو تاریکی میں محیط دیکھا تو انہوں نے سمجھ لیا کہ اس جہنم سے نکلنے کیلیئے  مادی تصور حیات کچھ مدد نہیں دے سکتا، لہٰذا وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ  مادی تصورِ حیات کے پیدا کردہ مصائب سے نجات کا راستہ، مادہ سے گریز و فرار کے سوا کچھ نہیں۔

اس گریز وفرار کا نام، انکی اصطلاح میں "مذہب” تھا، اسلیئے کہ مذہب کا سب سے پہلے تصور عیسائیت سے لیا گیا تھا، اور عیسایت، مجموعی طور پر، مادی کشمکش سے فرار کا نام ہے۔

اسی کا دوسرا نام، Mysticism یا باطنیت ہے، جسے رھبانیت، یوگ، ویدانت یا تصوف کہتے ہیں۔

اگر آپ بغور دیکھیں گے تو یہ حقیقت نکھر کر سامنے آۓ گی کہ، جن مفکرین نے مادی مشکلات کا حل مذہب قرار دیا ہے  ان میں سے اکثر، اپنی عمر کے آخری حصہ میں باطنیت(تصوف) کے دلدادہ ہوگۓ، اور مادی تضادات اور کشمکشِ زندگی کا حل۔ ۔۔ تصوف، کی منفیانہ زندگی کے پُر فریب سکون، اور مرگ آمیز سکوت میں، جا تلاش کیا۔

رھبانیت

زرا تاریخ کی اس گردشِ دولابی پر غور کیجئے”۔

افلاطون کی اشراقیت نے عیسائی رھبانیت پیدا کی،اس رہبانیت نے ، زندگی کی قوت اور حسن  کے تمام تر سرچشموں کویخ بستہ کرکے رکھ دیا۔ اسکے ردِ عمل کے طور پر مغرب میں،  میکانیکی نظریہ حیات کی صورت میں نمودار ہوا۔

اس نظریہ نے زندگی کہ تمام سرچشموں کو خشک کرکے رکھ دیا۔

اسکے بعد اس نظریہ کے خلاف،ردِ عمل شروع ہوا تو انسان، پھر اسی رہبانیت میں پناہ لینے کی کوشش کررہا ہے، جہاں سے تنگ آکر اس نے میکانکی نظریہ اختیار کیا تھا۔

یعنی انسانی ساری فکری تاریخ، اسی افراط و تفریط کے جھولے کی آماجگاہ رہی ہے،اعتدال کی روش، آج تک اسکے سامنے نہیں آسکی۔

کیا یہ صحیح علاج ہے؟

باطنیت(تصوف) کا مدار، اس دعوے پر ہے کہ خدا،خود انسانی نفس کے اندر موجود ہے،جب نفسِ انسانی(انسان کی میں )  اس حقیقت کو محسوس کر لے تو  وہی خدا کا علم ہے۔ یعنی انکے مطابق اس کے سوا خدا کے متعلق اور کوئی ذریعہء علم نہیں۔
انکے اس تجربہ کی رو سے انسان، خود اپنی زات(یعنی میں ) کا احساس کرتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ
میں نے خدا کو محسوس کرلیا ہے۔

صرف اسلیئے کہ انسان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں، جس میں وہ یہ معلوم کرسکے کہ جو کچھ اس نے محسوس کیا ہے وہ خدا ہی ہے۔

(لیجئے انہوں نے قران الحکیم، کے ساتھ ساتھ، جو کہ "نور علیٰ نور” ہے اسکو بھی رد کرکے رکھدیا)

   لہٰذا جب ایسی صورتِ حال یا اس قسم کی روش ہوتو یقینی طور پر کہا ہی نہیں جاسکتا کہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان نے کیا محسوس کیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ مذہب کے معاملے میں کشف وجدان یا الہام  کو کسی طرح بھی معیارِ صداقت، قرار نہیں دیا جاسکتا، اسلیئے کہ،
صاحبِ کشف، اپنے تجربہ کی صداقت پر کیسا ہی یقین کیوں نہ رکھے،اس سے یہ لازم نہیں آجاتا کہ اس کے تجربہ کا سو فیصد نتیجہ،فی الواقعہ، صداقت ہے۔ ۔۔۔۔ میں، اپنے فکر،جذبہ یا تصور کو، جس کی صداقت کیلیئے میرے پاس کوئی دلیل نہیں، کبھی بھی صداقتِ مطلق کا معیار قرار نہیں دیے سکتا۔ ۔۔۔۔۔۔ وجدانِ علم، ایک انفرادی تجربہ ہے، جو اپنی دلیل، خود آپ ہوتا ہے، لہٰذا

یہ کسی دوسسرے شخص کیلیئے، دلیل و حجت کیسے بن سکتا ہے؟

باطنیت(تصوف) کا تجربہ، ایک منفی خصوصیت کا حامل ہوتا ہے،جسے یہ تجربہ حاصل ہو جاۓ وہ اس بات کا اعتراف کرلیتا ہے کہ۔ ۔۔۔ میں بیان ہی نہیں کرسکتا کہ میں نے کیا، محسوس کیا ہے؟

وہ ہر پوچھنے والے سے بس، یہی کہتا ہے کہ

؎ ذوق این بادہ ندانی نجد اتا نچشی

مطلب!
میں نے جو مزہ محسوس کیا ہے اسے الفاط کی صورت میں بیان کر ہی نہیں سکتا۔۔۔۔

سو، جس کیفیت کو بیان نہیں کیا جاسکتا،تو دوسرے فرد تک، اسے منتقل بھی نہیں کیا جاسکتا۔

لہٰذا باطنی تجربہ اگر کوئی صداقت رکھتا ہے تو یہ صداقت، صرف صاحبِ تجربہ کے کام آسکتی ہے۔۔۔۔۔ کسی اور کیلیئے اسے صداقت،قرار دیا ہی نہیں دیا جاسکتا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلیئے، دوسرے لوگوں پر اسکی کوئی پابندی نہیں کہ وہ، اس صداقت کو تسلیم کرلیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ خالص جذباتی احساسات کا نام ہے اور جذبات۔ ۔۔۔۔۔۔ یکسر، ذاتی اور گونگے ہوتے ہیں۔

جو کچھ ایک شخص محسوس کرتا ہے، وہ اسکا احساس، کسی دوسرے میں پیدا کر ہی نہی سکتا،تا وقتیکہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ، دوسرا شخص خود ہی محسوس نہ کرے۔
(جاری ہے)

تبصرے بند ہیں۔