شریف النفس کو اس کی شرافت مارڈالے گی

احمد علی برقی اعظمی

تجھے اے دل تری موجودہ حالت مارڈالے گی

ضرورت سے زیادہ ہے جو چاہت مارڈالے

بسر ہوگی یونہی گُھٹ گُھٹ کے کیسے زندگی اپنی

مجھے خاموش رہنے کی یہ عادت مارڈالے گی

کروں گا میں وہی جو ہے تقاضا عصرِ حاضر کا

مجھے میری روایت سے بغاوت مارڈالے گی

مجھے خدشہ ہے اس کا میری حق گوئی و بیباکی

جو ہے اُس کے لئے بارِ سماعت مار ڈالے گی

کبھی کرتے نہیں سودا جو خوئے بے نیازی کا

انھیں اب عہدِ حاضر کی سیاست مار ڈالے گی

ضرورت ہے ہمیشہ اب تجھے محتاط رہنے کی

ہے مارِ آستیں سے جو عداوت مارڈالے گی

سبھی ہیں مصلحت اندیش اے احمد علی برقیؔ

شریف النفس کو اُس کے شرافت مار ڈالے گی

تبصرے بند ہیں۔