تصوف، مذہب اور دین اسلام (ساتویں قسط)

ندرک کار

اس سے پہلے کہا گیا!

ایک صحیح مذہب میں ایمان کی پختگی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ ۔۔۔۔۔ ایمانیات، ہی تو وہ مستقل اصول Absolute and Permanent Values ہیں ،جن کی بنیادوں پر زندگی کی ساری عمارت،استوار ہوتی ہے، چنانچہ، ایمانیات کی پختگی نہ رہے تووہ قوم،

"دو نسلوں کے بعد، "دہـــــــــــــــــریہ” بن جاتی ہے”

لہٰذا، صحیح مذہب میں ، پختگیء ایمان، اور عملِ پیہم، دونوں ، ساتھ ساتھ، رہنے چاہیئں۔

عقلِ انسانی کسی معاملہ کے متعلق بھی آخری دلیل،مکمل شہادت،اور منطقی یقینِ محکم،۔۔۔۔۔۔ بہم نہیں پہنچاسکتی، انسانی علم، قطعی یقین تک پہنچانے کے ناقابل ہے۔

"جس طرح انسانی آنکھ،خارجی روشنی کی محتاج ہے،اس کے بغیر کچھ بھی نہیں دیکھ سکتی، اسی طرح،انسانی عقل وحی کی روشنی کے بغیر ، یقین کے درجہ تک نہیں پہنچ سکتی”

لہٰذا، جو شخص تصوف کی جگہ بنانے کی خاطر، عقل و بصیرت کو باہر نکال دیتا ہے وہ، وحی اور عقل، دونوں کے چراغ گُل کردیتا ہے۔
ایک تصوف پرست، اپنے مسلمات کو بھی وحی کا پرتو، سمجھ لیتا ہے۔ آیئے اس کے اس حسنِ تصور، کو ایک بڑے مسلمان صوفی بزرگ، حضرت عبد القدوس گنگوہی ؒ،کے قول سے سمجھتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ،

"محمد عربیﷺ فلک الافلاک کی بلندیوں پر پہنچ کر، واپس تشریف لے آۓ(اسکے بعد فرماتے ہیں ) خدا شاہد ہے میں اگر، اس مقام تک پہنچ جاتا، تو واپس کبھی نہ لوٹتا”

یہ الفاظ تصوف کے پروردہ، صوفی بزرگ،کے ہیں ،تصوف کے لٹریچر میں آج تک، ان جیسے الفاظ کا ملنا، غالباً نا ممکن ہے،جوکہ ایک فقرہ میں ۔۔۔۔  شعورِ نبوت اور تصوف کے،اسقدر لطیف،نفسیاتی فرق کو، اس طرح واضح کردیں ۔

یعنی، ایک صوفی  اگر فلک الافلاک تک پہنچ جاۓ تو،وہ اپنے انفرادی تجربہ کی تجرد گاہ سے،واپس ہی نہیں آنا چاہتا، اور جب واپس آتا ہے( اسلیئے کہ اس کو واپس آنا پڑتا ہے) تو اسکی یہ واپسی بنی نوع انسان کیلیئے، کچھ معنی نہیں رکھتی، لیکن اسکے برعکس، ایک نبی کی مراجعت،تخلیقی ہوتی ہے، وہ (نبی)آتا ہے کہ زمانے کے طوفان ہر تسلط پاکر تاریح کی تمام قوتوں کو، اپنے قابو میں لے آۓ،اور اس طرح ،مقاصد ومطامح کی ایک نئی دنیا تعمیر کردے،جبکہ اسکے برعکس ۔۔۔۔۔۔ ایک صوفی کیلئے اسکے انفرادی  تجربہ گاہ کی تجرد گاہ،آخری مقام ہوتی ہے۔

لیکن ایک رسول کے دل میں ،اس سے زلزلہ انگیز ،نفسی قوتیں ، پیدا ہوجاتی ہیں ، جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ،تمام دنیاۓ انسانیت میں، ایک انقلاب پیدا کردیں ،اس آرزو کے ساتھ، کہ اسکی آنکھ نے جو کچھ دیکھا ہے، وہ ایک جیتی جاگتی دنیا کے پیکر میں متشکل ہوجاۓ، ہر نبی کے دل میں ، پیش پیش ہوتی ہے۔

تصوف کی اصل بنید یونانی افلاطونی حکمت ہے،اس رو سے، یہ مادی کائنات اپنا وجود نہیں رکھتی،یعنی،کائنات،فریبِ نگاہ ہے۔ سراب ہے چھلاوہ ہے،دیاہندی کی فکر کی اصطلاح میں یہ "مایا” ہے مادہ کے اس قسم کے تصور نے مادہ کی جانب سے بے اعتنائی کا رحجان ہیدا کر دیا ہے،اور یہ بے اعتنائی، رفتہ رفتہ مادی دنیا سے نفرت کی صورت اختیار کر گئی ہے، اور نفرت نے ترکِ مادہ(یا ترکِ دنیا) کا جذبہ پیدا کردیا۔

اس کے بعد جب اس جذبہ کو جب تقدس کا رنگ دیا گیا تو اسکا نام باطنیت Mysticism یا تصوف ،قرار دیا گیا،اسکے بعد یہی تصوف، مختف لباسوں میں ،یونانی اشراقئین سے لیکر ، آج تک، انسانی فکروعمل کی دنیا کو ، قبرستان بنانے کا مؤجب بنے چلا آرہا ہے۔
ہمارے مسلمان صوفیاۓ کرام نے اسکی سند قران کی اس آیت،

” قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ”
سے ،اخذ کی ہے۔۔۔۔

کیا یہ واقعی درست ہے؟ اگلی پوسٹ میں ہم، اسے قران ہی کی آیات سے ڈسکس کریں گے۔ (جاری ہے)

تبصرے بند ہیں۔