دہشت گردی

حسان عارف

قرآن کریم میں ارشاد باری ہے:

وَ لَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَo (القصص: ۲۸/ ۷۷)

’’اور زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش نہ کر، کیونکہ اللہ ان لوگوں سے محبت نہیں کرتا جو فساد پھیلانے والے ہوں۔‘‘

’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ اکیسویں صدی کا نعرہ بن چکی ہے، اخبارات و جرائد اور ٹی وی دہشت گردی کی خبروں، لوگوں کے خیالات، تبصروں، تجزیوں اور اس خطرے کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملیوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ یوں لگتا ہے ہر کوئی جانتا ہے کہ دہشت گردی کیا ہے۔ لیکن اس کی تعریف کے لیے لٹریچر کھنگالا جائے تو مایوسی ہوتی ہے۔ اہل علم کہتے ہیں کہ اس کی تعریف کرنا ناممکن ہے حتیٰ کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی خاصی بحث و تمحیص کے بعد بھی اس کثیر الاستعمال اصطلاح کی تعریف پیش نہیں کر سکی۔

یوں ہر قوم، گروہ یا شخص اپنے مفادات کی پاسداری کے لیے اس کی تعریف کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا انحصار اس شخص کے زاویۂ نظر پر ہے جو اس کی تعریف کر رہا ہو۔ گویا دہشت گردی ایک ایسی اصطلاح نہیں جس کی سائنسی طریقے سے تعریف کی جا سکے۔ یہ ایک جذباتی اور غیر حتمی لفظ ہے۔ اسے خاص طور پر سیاسی مقاصد پر مبنی تشدد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کو ہم سب ناپسند کرتے ہیں۔ جب صورتحال یہ ہے تو پھر ہم کیسے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دہشت گردی کیا ہے۔ ہم بے لگام دہشت گردی اور جدوجہد آزادی میں کیسے امتیاز کر سکتے ہیں جس میں مظلوم لوگ ریاستی دہشت گردی کے خلاف برسر پیکار ہوتے ہیں؟ بدقسمتی سے فلسطین، چیچنیا اور کشمیر کے مسلمان اسرائیل، روس اور بھارت کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کی مبنی بر انصاف جدوجہد کو بھی قابض ممالک آسانی سے دہشت گردی کہہ دیتے ہیں، اور اس حوالے سے ہونے والی بحث میں اسلام کا تعلق دہشت گردی سے جوڑا جا رہا ہے۔ اسلام کے بارے میں پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ یہ دہشت گردوں کو جائے پناہ فراہم کر رہا ہے۔

یہ کوئی نیا الزام نہیں۔ صدیوں سے مغربی سکارلز اور متشرقین پے بہ پے اسلام کے متشدد ہونے کا پروپیگنڈہ کرتے آ رہے ہیں۔ ’’نارمن ڈینیل‘‘ نے بڑی جانکاہ تحقیق کے بعد لکھا ہے:

’’محمدﷺ کی زندگی کے حوالے سے ان کے متشدد اور نفسانی تعیش کے عادی ہونے کے افسانے تراشنا مسیحی مصنّفین کے متنازع مباحث کا اہم حصہ تھا۔‘‘   (اسلام اینڈ دی ویسٹ: میکنگ آف این امیج)

اسی طرح ’’آر ڈبلیو ساؤدرن‘‘ جو ایک مشہور مؤرخ ہیں اس مسیحی روش پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’یہ (اسلام کے حوالے سے) حیران کن ضد کا (مغربی) امیج نسلوں سے بہت کم تبدیل ہوا ہے۔‘‘

(ویوز آف اسلام ان دی مڈل ایجز)

یہ امیج تمام تر روشن خیالی اور سیکولرزم اور ہیومنزم (انسانیت پروری) کے ارتقاء کے باوجود آج مغربی ثقافت کی ذہنی تشکیل کا حصہ بن چکا ہے۔ بالیقین ایسی وجوہات موجود ہیں جنہوں نے اس امیج سے جدید زمانے میں نئے کارنامے انجام دلوائے ہیں۔ لیکن آئیے ہم انسانی زندگی کو نقصان نہ پہنچانے اور تمام بنی نوع انسان کے امن و سکون سے رہنے کے حقوق کا احترام کرنے کے بارے میں اسلامی تعلیمات پر ایک نگاہ ڈالیں۔

اسلام میں انسانی زندگی کے تقدس کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ انسانی زندگی کا تحفظ اور احترام اسلام کی بنیادی تعلیمات ہیں۔ یہ تحفظ اور احترام تمام انسانوں کو یکساں طور پر حاصل ہے۔ مسلم اور غیر مسلم کے مابین کوئی امتیاز نہیں۔ کسی انسان کا غیر منصفانہ قتل اللہ کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔ قرآن مجید میں کئی آیات ہیں جن میں یہ واضح طور پر کہا گیا ہے:

مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَمَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا  (المائدۃ: ۵/ ۳۲)

’’اگر کسی نے کسی شخص کو قتل کر دیا سوائے اس کے کہ وہ شخص قتل انسانی یا زمین میں فساد پھیلانے کا مجرم ہو تو گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل دیا، اور اگر کسی نے کسی جان کو بچا لیا تو گویا اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا۔‘‘

وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ(بنی اسرائیل: ۱۷/ ۳۳)

’’کسی جان کو قتل نہ کرو، جس کا قتل اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے سوائے حق کے۔‘‘

خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ جب اپنی فوج کو کسی مہم پر بھیجتے تو انہیں تاکید کرتے: ’’کسی عورت کو نہ چھوئیں کسی بچے بوڑھے یا بیمار کو نہ چھوئیں، کسی باغ یا فصل کو آگ نہ لگائیں، جلانے کی روش اختیار نہ کریں۔‘‘ اس طرح کم سے کم خونریزی کے ساتھ فتوحات عمل میں لائی گئیں، اور شہروں کو تباہ کیا گیا نہ راکھ کے ڈھیر بنایا گیا۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطابb نے بغیر خونریزی کے عیسائیوں کی رضا مندی سے بیت المقدس کے شہر پر قبضہ کیا۔ لیکن ۱۰۹۹ء میں جب صلیبیوں نے اس پر قبضہ جمایا تو یہاں ۷۰ ہزار مسلمان شہری شہید کر دیے، جبکہ ۱۱۸۷ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس صلیبیوں سے واپس لیا تو مسلم سپاہ کے ہاتھوں کسی عیسائی شہری کو جانی یا مالی نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ عیسائیوں کر پر امن طور پر مال و اسباب کے ساتھ شہر چھوڑنے کی اجازت دی گئی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ماضی میں مسلمانوں کا دامن اور آج بھی داغ دھبوں سے یکسر پاک ہے!

لیکن آئیے مسلمانوں کے مقابلے میں ہم ان لوگوں کے ریکارڈ پر نگاہ ڈالیں جو اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی کے مرتکب ٹھہراتے ہیں۔ یورپ صلیبیوں اور مسیحی مذہبی عدالتوں کی سفاکی سے قطع نظر، جبکہ لوگوں کو بالخصوص ہسپانوی مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا اور ایسا درندگی کا مظاہرہ کیا گیا جو جنگل کے درندوں سے کبھی سرزد نہیں ہوئی۔ صرف گزشتہ صدی میں امریکہ کے جنگی کارناموں پر نگاہ ڈالیں۔ ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرا کر انہیں تباہ و برباد کر دیا گیا اور ڈیڑھ دو لاکھ انسان ہلاک کر دیے گئے، ایٹم بموں کی تباہ کاریوں سے وہاں سبزہ اور ہر چیز جل کر خاک ہو گئی اور برسوں تک انسانی آبادی کے قابل نہ رہی۔ یہ تاریخ انسانی میں بدترین دہشت گردی کی کاروائیاں تھیں۔ اس کے بعد امریکیوں کے ہاتھوں نسل کشی کے دوسرے اقدامات عمل میں آئے اور پے بہ پے کیوبا، ویتنام، کمبوڈیا، کوریا، چلی، ایران، نکارا گوا، لیبیا، عراق، سوڈان، صومالیہ اور افغانستان میں ہزاروں، لاکھوں افراد ہلاک کر دیے گئے۔ خونریزی کی یہ فہرست بہت طویل ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ دہشت گردی کی سرگرمیاں دنیا بھر میں بروئے کار لائی جا رہی ہیں۔ اس کے باوجود صرف مسلمانوں کو ہدف بنا کر مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، اور دہشت گردی کے ہر نئے واقعے پر صرف مسلمانوں کی طرف نگاہیں اٹھتی ہیں۔ شمالی آئرلنڈ میں کئی دہائیوں سے دہشت گردی کے واقعات پیش آ رہے تھے۔ تامل ٹائیگر خودکش بمباری میں مصروف رہے اور دنیا بھر میں خود کش حملوں کا آغاز کرنے کا سہرا بھی انہی کے سر بندھتا ہے۔ جاپان میں اعصابی گیس کے حملے ابھی ان ہی کی واردات ہیں۔ پھر بھی ایسے تمام واقعات کو معمول کے افسوسناک واقعات قرار دے کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا ان کی سرسری مذمت کی جاتی ہے جبکہ ایسی ہی صورت حال میں مسلمانوں کو خصوصی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان سے نفرت اور بدزبانی کا برتاؤ کیا جاتا ہے۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے سانحے کے بعد امریکہ اور یورپ میں بے گناہ مسلمان شہریوں کو ہراساں کیا گیا۔ انہیں برا بھلا کہا گیا اور مقدمہ چلائے بغیر حراست میں رکھا گیا۔ اس سے مغربی دنیا میں انسانی حقوق کے چیمپینوں کے راستبازی اور انصاف کے دعوؤں کا پول کھل گیا ہے۔

اب اس دہشت گردی کے خطرے کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ کسی بھی اور جسمانی یا سماجی بیماری کا علاج کرنے کی طرح ہمیں اس کے اسباب کو دیکھنا ہوگا۔ جب تک ہم سبب کو دور کرنے کی کوشش نہیں کرتے، سطحی قسم کے سخت اقدام سے مرض کا علاج نہیں ہوگا۔ غربت اور جرائم کے خلاف جنگ کی طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جن سے دہشت گردی کے اسباب کا سراغ لگانے میں مدد ملے اور ان اسباب کو دور کرنے کے لیے مناسب قدم اٹھایا جائے۔ مثلاً جرائم روکنے کے لیے ہمیں سماجی حالات، بے روزگاری، وسائل سے محرومی، نامناسب رہائش، ٹوٹے ہوئے خاندانوں اور کئی دیگر معاشرتی عوامل کو دیکھنا ہوگا جو لوگوں کو معاشرے سے الگ تھلگ رہنے اور جرائم میں ملوث ہونے کی راہ دکھاتے ہیں۔ پولیس کی داروگیر یا سخت سزاؤں سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اسی طرح ہمیں اسباب کو دیکھنا ہوگا جو کسی کو اس بات پر اکساتے ہیں کہ وہ خود دھماکے سے اڑا دے اور دوسروں کی بھی جان لے۔ اگر لوگ مایوس ہوں گے، قید میں ڈالے جائیں گے، انہیں اذیت دی جائے گی اور انسانی شرف سے محروم کیا جائے گا، ان پر سختی کی جائے گی، اور حکومت اس صورتحال کو جاری رکھنے کے لیے پوری قوت استعمال کرے گی تو بلاشبہ لوگ اپنے مصائب کو منظر عام پر لانے کے لیے جو کچھ کر سکیں کر گزریں گے، یہاں تک کہ نام نہاد سپر طاقتیں بھی مظلوم اقوام سے ہمدردی کے بجائے ظالموں کو اسلحی اور اخلاقی امداد فراہم کر رہی ہیں۔ ان حالات میں مظلوموں کے لیے کیا چارہ کار رہ جاتا ہے؟

سرور کونین حضرت محمدﷺ نے ایک بار فرمایا:

’’اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔‘‘ آپa کے صحابہ نے پوچھا: ’’یا رسول اللہ! ہم یہ تو سمجھتے ہیں کہ مظلوم کی مدد کیسے کرنی ہے لیکن ہم ظالم کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‘‘ نبیa نے فرمایا: ’’ظالم کو اس کے ظلم سے روک کر اس کی مدد کرو۔‘‘ (بخاری و مسلم)

نبیﷺ نے لوگوں کے اس فرض کو ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ ظالموں کو ان کے برے افعال سے کیسے روک سکتے ہیں، ایک مثال بھی دی آپa نے فرمایا:

’’اس کی مثال ایک کشتی میں سوار لوگوں کی ہے۔ کشتی کے بالائی عرشے پر مسافر ہیں، جبکہ نچلے عرشے پر بھی لوگ سوار ہیں، اوپر والے یا نچلے عرشے والوں کو سمندر کا پانی حاصل کرنے سے روک دیتے ہیں، کیونکہ انہیں دقت پیش آتی ہے۔ پھر نیچے کشتی کے پیندے میں سوراخ کر دیتے ہیں تاکہ اپنی پانی کی ضرورت پوری کر سکیں۔‘‘

یہ واقعہ بیان کر کے نبیa نے فرمایا:

’’اگر بالائی عرشے کے مسافر نچلے عرشے والوں کے ہاتھوں کوا (اس فعل سے) روک دیں تو وہ انہیں بھی بچا لیں گے اور خود بھی بچ جائیں گے، لیکن اگر وہ انہیں نہ روکیں تو انہیں بھی ہلاک کروا بیٹھیں گے اور خود بھی ہلاک ہو جائیں گے۔‘‘                                                                 (بخاری)

پوری انسانیت اس وقت سمندر کی لہروں پر ہے۔ اگر ہم ان لوگوں کو نہیں روکتے جو کشتی کے پیندے میں سوراخ کر رہے ہیں تو ہم سب ڈوب جائیں گے۔

دنیا میں ایسی قومیں ہیں جن کا دنیا کے ۹۰ فیصد وسائل پر قبضہ ہے، پھر بھی وہ دوسری اقوام کے قدرتی وسائل ہتھیانے کے لیے ان پر غلبہ پانا چاہتی ہیں۔ یوں غریب اور مایوس لوگوں کے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہ جاتا کہ وہ دہشت گردی پر اتر آئیں۔ خطرہ ہے کہیں وہ کشتی میں سوراخ نہ کر دیں۔ انہیں اس سے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کا استحصال کرنے اور ان پر مزید ظلم کرنے کے بجائے انہیں مدد فراہم کی جائے۔ ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے وہ ایک نیا ورلڈ آرڈر نہیں بلکہ ایک منصفانہ ورلڈ آرڈر ہے، جہاں دنیا کے لوگ امن اور خوشحال سے زندگی بسر کر سکیں۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ظالموں کو ظلم کا ارتکاب کرنے سے روک کر ان کی مدد کریں۔ تبھی ہم دہشت گردی کے خطرے سے نجات پا سکتے ہیں۔

آئیے ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں عالمی امن کے لیے کام کرنے کی توفیق بخشے اور ہماری مدد فرمائیے کہ ہم سچائی اور انصاف کے علمبردار بن جائیں۔ آمین!

تبصرے بند ہیں۔