تصوف، مذہب اور دین اسلام (پہلی قسط)

ندرت کار

خدا کیا ہے؟

سب سے پہلےہمیں یہ دیکھنا ہے کہ خدا کے متعلق مفکرین کے کیا نظریات ہیں؟

کانٹ (مفکر) کے نزدیک خدا وہ ہے جو انسانوں کو اخلاقی ضابطہ دیتا ہے،”ہعقوبی” کے نزدیک خدا سب سے بلند ہستی ہے،سر جیمس کے نزدیک ۔ خدا سب سے بڑا ریاضی دان ہےاور پروفیسر انڈنگٹن کہتا ہے کہ۔خدا اور کائنات، ایک ہی شے ہیں۔

آپ نے دیکھا کہ  انکے تصورات کس قدر غیر مبہم ہیں؟

جب ہم خدا کی بات کرتے ہیں تو یہ بات اس خدا کے متعلق نہیں ہوتی جسے قران نے

"لیس کمثلہ شیء”

کہا ہے، بلکہ اس تصور کی بات ہوتی ہے جو خدا کے متعلق ہم اپنے ذہن میں (مادی تصور) رکھتے ہیں،جس میں یہ لوگ،”فی طغیانھم یعمھون” کا زندہ پیکر دکھائی دیتے ہیں۔

وحدت الوجود

یہ تصور کہ خدا اور کائنات ایک ہی ہیں، در اصل یہ وہی تصور ہے جس پر وحدت الوجود Pantheism کے پرانے نظریہ کا مدار ہے۔

اس نظریہ کی رو سے یہ سمجھ  لیا گیا کہ مادہ کی نفی کرکے ،مادہ کو خدا بنا دیا جاۓ،یعنی
بات وہی ہے خدا مادہ ہے اور مادہ خدا ۔۔۔ خدا اور کائنات ایک ہی ہیں،یہیں سے وحدت الوجود کا یہ قدیم نظریہ،آج کی جدید اصطلاحات میں جلوہ افروز ہوا۔

"جب مادیت کو جذبات کی آمیزش دے دی جاۓ تو وہ،وحدت الوجود، میں تبدیل ہوجاتی ہےاس میں آپ خدا کے متعلق جسقدر زیادہ غور کرتے چلے جائیں گے، یہ حقیقت اُبھر کر سامنے آتی جاۓ گی کہ "کائنات اور خدا، ایک ہی ہے”

حقیقت یہ ہے کہ خدا کے متعلق یہ تصورات ، اس بات کا ردِ عمل ہیں جو انکے مذہب نے ان کے سامنے پیش کیا تھا ،،،، جس کی رو سے خدا کو ایک شخس Person تصور کرکے آسمانوں کے اوپر ،الگ تھلگ بٹھا رکھا تھا،
اس نظریہ کو Deism کہتے ہیں،چونکہ تصوف کے نزدیک،یہ نظریہ قابلِ قبول نہ تھا اسلیئے انہوں نے اسکے خلاف "وحدت الوجود” کا تصور اختیار کرلیا۔

خدا کے متعلق بیرونِ کائنات Transcendence  اور درونِ کائنات Immanence کی نزاع بہت پرانی ہے۔

افلاطون کا مکتبِ فکر "بیرونِ کائنات کا تصور” کا قائل تھا، اسلیئے یہی نظریہ ہندوؤں کے اپنشدوں میں، "ویدانت” (تصوف) کے نام سے معروف ہوا جس کا سب سے بڑا ،پرچارک، "شنکر آچاریہ” تھا (788 – 820)،

وحدت الوجود کے نظریہ نے خدا و کائنات کو ایک کردیا ۔

مادیت (دہریت)نے جن مادہ ہی کو اصل قرار دیا،اسکے بعد، تصوف نے مادیت کے خلاف  پھرسے خدا اور کائنات ،بنا دیا۔

انسانیت ہی خدا ہے۔

Auguste Comte )1798 – 1857 ،اگستے کامٹ،نے کہا، انسانیت ہی خدا ہے

اس نظریہ کو Humanism کہتے ہیں۔،

اس نظریہ کے مطابق، یہ ایک ایسے مذہب کا نام ہے جو، ان حقائق سے ہم آہنگی سکھاتا ہے جو ۔۔ اس وقت تک معلوم ہوچکے ہیں، فطرت کو  یہ غیر شخص اور معصوم سمجھتے ہیں اور انسانوں کو  یہ کہہ کر باہمی تعاون کی تلقین کرتے ہیں  کہ، انسانوں کو اپنے آپ پر اور دوسرے انسانوں پر ہی بھروسہ کرنا چاہیۓ،

کچھ مفکرین نے اس دلیل سے انکار کردیا اور کہا، کہ خدا صرف انسان کے دل میں ہوتا ہے ،اسکے باہر اسکا کوئی وجود نہیں،لہٰذا ، خدا، انسان کے تراشیدہ  ذہن کا تراشیدہ ہے،یعنی وحدت الوجود کے نظریہ نے وجودِ خداوندی کے اثبات کی کوشش میں انسانی ذات (میں ، انا، ایگو) سے انکار کردیا

ایک اور پرنسپل،”کیر ڈان” ،،،،، تمام متضاد سے گھبراکر کہتا ہے کہ،

حقیقت یہ ہے کہ خدا اور انسان، محدودو اور لا محسود، ایک ہی "کُل” کے جزو ہیں ،جس ، کُل،میں بیک وقت، سب موجود ہوتے ہیں، الگ الگ بھی اور اکٹھے بھی۔

اس تصورکو Theism کہتے ہیں اور مفکرین کا وہ طبقہ، جو خدا کا قائل ہے اور کائنات کی ارتقائی قوتوں کابھی ۔۔۔ اس نظریہ کو خدا کا صحیح تصور قرار دیتا ہے، اور وحدت الوجود کو یہ کہہ کر انکار کرتا ہے کہ، خدا اپنا،مستقل وجود رکھتا ہے،اور کائنات ،خدا نہیں۔
لیکن دوسری جانب وہ یہ کہہ کر Deism کا انکار کرتے ہیں کہ خدا، کائنات سے ، بے تعلق ہوکر، کہیں الگ نہیں بیٹھا،کائنات اسی کی توانائی سے چل رہی ہے۔

تصوف کو ڈسکس سے پہلے مفکرین کے نظریات کو ڈسکس کرنے کی ٖضرورت اسلیئے پڑی کہ، ان کہ ان کے مطابقِ ، کائنات اور انسانی زندگی کے تضادات کا حل ،صرف مذہب میں ہے اور تصوف اسکیلیئے مشعلِ راہ ہے۔ لہٰذ،ا یہ دیکھنا ضروری تھا کہ ان مفکرین کے نزدیک، مذہب سے کیا مفہوم ہے اور اور متصوفین، مذہب کو کس رنگ میں پیش کرتے ہیںاور انکے عقائد، کس طرح ان تضادات کا حل اور انسانی مشکلات کا کیا علاج، تجویز کرتے ہیں؟

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    _______ اہل تصوف کے نظریات ______

    نبوت خدا سے وحی پاکر لوگوں کو حق بتانا ہے, ختم نبوت کا مقصد یہی ہے کہ خدا سے مکاشفہ و مخاطبہ کا سلسلہ اب ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکا ہے, لیکن اہل تصوف کے نزدیک وحی اب بھی آتی ہے ، فرشتے اب بھی اترتے ہیں ، عالم غیب کا مشاہدہ اب بھی ہوتا ہے اور اُن کے اکابر اللہ کی ہدایت اب بھی وہیں سے پاتے ہیں جہاں سے جبریل امین اُسے پاتے اور جہاں سے یہ کبھی اللہ کے نبیوں نے پائی تھی ۔ غزالی کہتے ہیں :
    من اول الطریقۃ تبتدئ المشاھدات والمکاشفات حتٰی انھم فی یقظتھم یشاھدون الملٰئکۃ وارواح الانبیاء ویسمعون منھم اصواتاً ویقتبسون منہم فوائد.
    (المنقذ من الضلال۵۰)
    ’’اِس راہ کے مسافروں کو مکاشفات و مشاہدات کی نعمت ابتدا ہی میں حاصل ہو جاتی ہے ، یہاں تک کہ وہ بیداری کی حالت میں نبیوں کی ارواح اور فرشتوں کا مشاہدہ کرتے ، اُن کی آوازیں سنتے اور اُن سے فائدے حاصل کرتے ہیں ۔ ‘‘
    خواص کے یہ نظریات عوام میں مختلف و محتاط الفاظ میں بیان کیے جاتے رہے ہیں, جس طرح وحی کو الہام کے لفظ سے بدل دیا گیا اور اِن اکابر کا الہام اِن کی عصمت کی وجہ سے قرآن مجید ہی کی طرح شائبہ باطل سے پاک اور ہر شبہ سے بالا قرار دیا گیا ۔ صاحب ’’عبقات‘‘ نے ان اکابرین کے متعلق بھی "معصوم” کا لفظ استعمال کیا ہے,
    (فھو وجیہ معصوم صاحب ذوق حکیم)

    یہ ہستی بھی اسی طرح معصوم ہوتی ہے جس طرح کہ انبیاء معصوم ہوتے ہیں, مزید لکھتے ہیں کے :
    : و ان الحق یدور معہ حیث دار وذلک لعصمتہ والتحاقہ بالملأ الاعلیٰ، فلیس الحق الا ما سطع من صدرہ، فالحق تابع لہ لا متبوع.
    (اشارہ۴، عبقہ ۱۱)
    ’’اور حق جہاں یہ ہستی گھومتی ہے ، اِس کے ساتھ ہی گھومتا رہتا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہستی ملأ اعلیٰ کے ساتھ شامل اور معصوم ہوتی ہے ۔ چنانچہ حق وہی قرار پاتا ہے جو اِس کے سینے سے نمایاں ہوتا ہے۔ پس حق اِس ہستی کے تابع ہوتا ہے ، وہ حق کے تابع نہیں ہوتی ۔ ‘‘
    یہ مختصر نظریات ہیں کہ اہل تصوف اکابرین بھی *معصوم ہوتے ہیں * ان پر بھی وحی ہوتی ہے * وہ اس دنیا میں حق کی عدالت ہوتے ہیں, * ان کے علم کی وسعت یہ ہے کہ وہ بھی وہیں سے علم حاصل کرتے ہیں جہاں سے انبیاء پاتے ہیں……!! ( مختصر)
    ان تمام نظریات کے بعد اہل تصوف یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ پھر ختم نبوت کیا ہے…!! ؟؟ اس الجھن کو سلجھانے کے لیے انہوں نے یہ تاویل پیش کی ہے :

    فان النبوۃ التی انقطعت بوجود رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم انما ھی نبوۃ التشریع لا مقامھا، فلا شرع یکون ناسخاً لشرعہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا یزید فی حکمہ شرعًا اٰخر. وھٰذا معنی قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدیولا نبی: ای لا نبی بعدی یکون علی شرع مخالفاً لشرعی، بل اذا کان یکون تحت حکم شریعتی.
    ’’چنانچہ جو نبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوئی، وہ محض تشریعی نبوت ہے۔ نبوت کا مقام ابھی باقی ہے، اِس وجہ سے بات صرف یہ ہے کہ اب کوئی نئی شریعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو نہ منسوخ کرے گی اور نہ آپ کے قانون میں کسی نئے قانون کا اضافہ کرے گی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ نبوت و رسالت ختم ہو گئی ، اِس لیے میرے بعد اب کوئی رسول اور نبی نہ ہو گا، درحقیقت اِسی مدعا کا بیان ہے ۔ آپ کے اِس ارشاد کا مطلب یہی ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں ہو گا جس کی شریعت میری شریعت کے خلاف ہو ، بلکہ وہ جب ہو گا تو میری شریعت ہی کا پیرو ہو گا ۔
    ” فتوحات شیخ ابن عربی”
    اہل تصوف نے بالآخر اپنے نظریات کو واضح کر دیا کہ ہمارے نزدیک یہ سلسلہ کسی حد تک جاری ہے, مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی اپنی پہلی کتاب ” براہین احمدیہ”کے مطابق صوفیہ کی طرح صرف "محدثیت” کے مدعی تھے یہ بھی صوفیہ کی اصطلاح ہے, لیکن بالآخر وہ غیر تشریعی نبوت تک پہنچ گئے جو کہ صوفیہ کی ہی تعلیمات کا عملی و منطقی نتیجہ تھا, مرزا صاحب کا اصلًا استدلال ہی تصوف سے تھا "حقیقت محمدی” "امتی نبی”ضل” "بروز” یہ تمام اہل تصوف کی اصطلاحات ہیں جن کو انہوں نے اکثر اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور اپنے دعوے کا اظہار بھی انہیں اصطلاحوں کے ساتھ پیش کیا ہے, لہذا یہ واضح بات ہے کہ وہ بنیادی طور پے تصوف کی پیداوار ہیں, اور تصوف کا خدا کے دین سے کوئی تعلق نہیں_

تبصرے بند ہیں۔