سادگی کا نکاح!

محمد جمیل اختر جلیلی

 سن دس نبوی میں آپ ا کی وہ محبوب زوجہ اس دارِفانی سے کوچ کرگئیں، جنھیں آپ ا  کی پہلی بیوی ہونے کی سعادت اورآپ ا  کی تمام اولاد(سوائے حضرت ابراہیم کے)کی ماں ہونے کاشرف حاصل ہے، جنھوں نے آپ ا کے شانۂ مبارک پرآنے والے بارِگراں کے تحمل میں آپ  ا کی ڈھارس بندھائی، جنھوں نے اس وقت آپ ا کوسچامانا، جس وقت تمام لوگوں نے آپ ا  کوجھٹلایااورجنھوں نے آپ ا کے معرکۂ حیات سے نبردآزمامصائب کودورکرنے میں نہ صرف شرافت ووجاہت کااستعمال کیا؛ بل کہ ان کے دفاع میں دولت وثروت بھی نچھاورکردی۔

 ایسی پیکرِوفازوجہ کے دنیاسے چلے جانے کے بعد فطرۃً آپ  ا ملول اورکبیدہ خاطررہنے لگے۔ آپ ا  کی اس غم گینی کودیکھ کر صحابہ کوتشویش لاحق ہوئی؛ چنانچہ ایک دن حضرت عثمان بن مظعون ص کی اہلیہ حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا آپ ا  کی خدمت میں حاضرہوکرعرض گزارہوئیں : ائے اللہ کے رسول  ا ! آپ نکاح کیوں نہیں فرمالیتے؟ آپ  ا نے پوچھا: کس سے کروں ؟ انھوں نے کہا: ناکتخدابھی موجودہے اورشوہردیدہ بھی۔ آپ  ا نے سوال کیا: ناکتخداکون؟ انھوں نے جواب دیا: آپ کے محبوب دوست کی بیٹی عائشہ۔ آپ  ا نے پھرپوچھا: اورشوہردیدہ کون؟ جواب دیا: سودہ بنت زمعہ۔

 اس دریافت حال کے بعد آپ  ا نے پیغام رسانی کی ذمہ داری انہی کے سپردکی۔ وہ سب سے پہلے حضرت ابوبکرص کے گھرگئیں اورحضرت ابوبکرص کی اہلیہ ام رومان سے کہا: ماأدخل اللہ علیکم من الخیروالبرکۃ۔(کیاہی خیروبرکت اللہ نے تم پراتاری ہے)۔ ام رومان نے پوچھا: وہ کیا؟ جواب دیا: مجھے اللہ کے رسول ا نے عائشہ کی نسبت پیغام دینے کے لئے بھیجاہے! حضرت ابوبکرص اس وقت گھرپرنہیں تھے؛ اس لئے ام رومان نے کہا: ابوبکرکاانتظارکرنابہتر ہے۔ جب حضرت ابوبکرص گھرآئے توان کی اہلیہ نے آپ ا کے پیغام کاتذکرہ کیا۔(چوں کہ عرب میں منھ بولوں کواپنے سگے کا درجہ دیاتھا؛ اس لئے) انھوں نے کہا: عائشہ توآپ ا کی منھ بولی بھتیجی ہے(ان سے نکاح کیسے درست ہوسکتاہے؟)۔حضرت خولہ فوراً آپ  ا  کی خدمت میں حاضرہوئیں اورحضرت ابوبکرص کے اس سوال کاجواب چاہا۔ آپ  ا نے فرمایا: ان سے کہو! تم میرے دینی بھائی ہواورتمہاری بیٹی میرے لئے حلال ہے۔(دیکھئے: الإصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، باب العین المہملۃ: ۴/۲۷، تاریخ الطبری: ۲/۴۱۲، اسد الغابۃ، عائشۃ بنت ابی بکرالصدیق:۱/۱۳۸۳)

 حضرت ابوبکرص نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کی نسبت مطعم بن عدی کے بیٹے سے طے کررکھی تھی؛ اس لئے آپ  ا کے اس جواب کے بعد حضرت ابوبکرص مطعم بن عدی کے گھرگئے اوران سے اس نسبت کی بابت دریافت کیا۔ مطعم بن عدی کی بیوی نے یہ سن کرکہا: اگرتمہاری بیٹی سے میرے بیٹے کا نکاح ہوگیاتومیرابیٹابھی صابی(بددین)ہوجائے گا(اس لئے یہ نکاح نہیں ہوسکتا)۔ حضرت ابوبکرص یہ جواب سن کرواپس گھرآئے اورآپ  ا کے پیغام کوقبول فرمالیا۔(السیرۃ النبویۃ لإبن کثیر: ۲/۱۴۳، السیرۃ الحلبیۃ لعلی بن برہان: ۲/۲۵۳)پیغام قبول کرلینے کے بعد ہجرت سے تین سال پہلے حضرت ابوبکرص نے شوال دس نبوی میں آپ  ا سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کانکاح کردیا۔ اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمرچھ سال تھی۔( سبل السلام: ۱/۸۶، طبقات ابن سعد: ۸/۶۰، تاریخ الرسل والملوک للطبری: ۲/۱۰۰)

 نکاح کے تین سال بعد ہجرت کا واقعہ پیش آیا۔آپ  ا نے حضرت ابوبکرص کے ساتھ ہجرت فرمایا اورانصارکے یہاں قیام پذیرہوئے۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت ابوبکرص کے گھرانے نے بھی ہجرت کی اوریہ لوگ بنوحارث بن خزرج میں خیمہ زن ہوئے۔ ہجرت کے بعد بہت سارے لوگوں کومدینہ کی آب وہواراس نہ آئی اوربیمارہوگئے، حضرت ابوبکر بھی بیمارہوئے اوران کی بیٹی عائشہ بھی اس کی لپیٹ میں آئی۔ اس بیماری کی وجہ سے حضرت عائشہ کے سرکے بال جھڑگئے۔ابھی بال اُگنے بھی نہ پائے تھے کہ رخصتی کی گھڑی آگئی؛ چنانچہ ایک دن یہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھیں کہ ان کی والدہ ام رومان نے آوازدی، وہ دوڑتی ہوئی ان کے پاس آئیں، ام رومان انھیں اپنے ساتھ لے کرگھرکی جانب بڑھیں، دروازے پرٹھہراکران کی سانس کودرست کرایا،منھ پرپانی کے چھینٹے ڈالے اوربالوں کی اصلاح کرائی، پھراندرونِ خانہ لے گئیں، وہاں انصارکی چند خواتین بیٹھی ہوئی تھیں، انھوں نے ان کودیکھ کر’’علی الخیروالبرکۃ وعلی خیرطائر‘‘(خیروبرکت اوراچھائی پر)کی دعادی۔(بخاری، باب تزویج النبی ا عائشۃ وقدومہاالمدینۃ وبنائہابھا، حدیث نمبر: ۳۶۸۱، سنن البیہقی، باب ماتقول النسوۃ للعروس، حدیث نمبر: ۱۴۲۱۶)

اس موقع پرنہ ہی اونٹ ذبح کئے گئے اورناہی بکریاں حلال کی گئیں ؛ بل کہ آپ ا  کی خدمت میں صرف ایک پیالہ دودھ پیش کیاگیا، جسے آپ نے نوش جان کرنے کے بعدحضرت عائشہ کے پاس بھیجوادیا(البدایۃ والنہایۃ: ۳/۱۳۲، مسند احمد، حدیث نمبر: ۲۵۸۱۰) اوراس طرح حضرت عائشہ کی رخصتی عمل میں آئی  ——-  اب آیئے اس سادہ سی شادی اوررخصتی سے ہمیں ملنے والے اسباق ودروس پربھی نظرڈالتے چلیں :

نسبت کا لحاظ

 آپ ا کے پیغام بھیجنے سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت مطعم بن عدی کے بیٹے کے ساتھ طے ہوچکی تھی، جب آپ  ا کاپیغام پہنچا توحضرت ابوبکرص نے ان کے گھرجاکراس بابت دریافت کیا،مطعم بن عدی کی بیوی نے جواب دیا: اگرتمہاری بیٹی سے میرے بیٹے کا نکاح ہوگیاتومیرابیٹابھی صابی(بددین)ہوجائے گا(اس لئے یہ نکاح نہیں ہوسکتا)۔اس جواب کے سننے کے بعدحضرت ابوبکرص نے آپ ا کے پیغام کوقبول کیا۔یہ صرف اس وجہ سے تھاکہ ان کے ساتھ نسبت ہوچکی تھی اورنسبت(جسے آج کل کے عرف میں منگنی کہتے ہیں )ایک وعدہ ہے، نکاح نہیں۔ حضرت ابوبکرص اگرچاہتے توآپ ا  کے پیغام کوقبول کرکے اس کوتوڑسکتے تھے؛ لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔

  آج کل منگنی ہوجانے کے بعد بھی بسااوقات اس کا خیال نہیں رکھاجاتااوراس سے اچھارشتہ (تعلیم یادولت کے اعتبارسے)سامنے آجانے پرپہلے سے کئے ہوئے نسبت کوبغیرکچھ بتائے ہوئے توڑدیتے ہیں اوراس وعدہ کی خلاف ورزی کرتے ہیں، جوبیٹی کے باپ سے کیاجاچکاہے؛ حالاں کہ قرآن نے بھی وعدہ خلافی کوپسندنہیں کیااوراس کے پوراکرنے کاحکم دیاہے:

یاٰاَیَّہاَالَّذِیْنَ آمَنُوْا أوْفُوْابِالْعُقُوْدِ۔(المائدۃ: ۱)

’’ائے ایمان والو! وعدوں کوپورکیاکرو‘‘۔ کاش ! اس واقعہ سے ہم سبق سیکھتے!

کسی بھی کام شوہرکے فیصلہ کا انتظار

 جب حضرت خولہ آپ  ا  کی طرف سے پیغام لے کرحضرت ابوبکرص کے گھرآئیں، اس وقت حضرت ابوبکرص گھرپرنہیں تھے۔ حضرت خولہ کی زبان سے یہ پیغام سن کرانھوں نے کہا کہ’’ ابوبکرکا انتظارکرنابہترہے‘‘اورایسی خوش خبری پربھی ذاتی طورفیصلہ تودرکنار، رائے تک نہیں دی۔

 آج بہت ساری خواتین کسی بھی فیصلہ لینے میں شوہرکاانتظارکرنے کے بجائے ایسے خوش کن موقعوں پرجلدی سے اپنافیصلہ سنادیتی ہیں اورایسے کسی موقع کوہاتھ سے جانے نہیں دیتیں، یہ اسلامی آداب (اورمشرقی تہذیب کے بھی)کے سراسرخلاف ہے۔ آج کل کے خالص موڈرن تعلیم سے یہ رواج پیداہوتاجارہاہے۔ ہمیں حضرت ام رومان کے اس ادب سے قرینہ سیکھناچاہئے۔

کم عمری کی شادی

 جس وقت حضرت عائشہ کی شادی آپ ا سے ہوئی، اس وقت آپ کی عمرصرف چھ سال تھی، جب کہ حضور ا  اپنی عمرکی تقریباًاکاون بہاریں دیکھ چکے تھے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کم عمری میں شادی کی جاسکتی ہے۔ اگرکم عمری میں شادی کی گنجائش نہیں ہوتی توآپ  ا  کبھی حضرت عائشہ سے نکاح نہ فرماتے۔

آج کم عمری کی شادی پرواویلامچاہواہے اوراس کے خلاف حکومت کی جانب سے سخت قانون بنانے کی کوشش جاری ہے؛ حالاں کہ اسلامی قانون ہی میں نہیں دیگرمذاہب میں بھی اس کی ممانعت نہیں ہے اورممانعت کی کوئی ایسی اہم وجہ بھی نہیں ہے کہ جس کے لئے ایسا سخت قانون بنانے کی ضرورت ہو۔( اس کے علاوہ دوسرے بہت سارے ایسے امورہیں، جوسخت قانون کے محتاج ہیں ؛ لیکن اس کی طرف بالکل توجہ نہیں ) کمزوربچے کی پیدائش اورزچہ کی بیماری کابہانہ بناکراس کے خلاف ایسا سخت رویہ اپنانادرست نہیں۔ ہاں فہمائش کی جائے کہ بہترہے کہ بلوغ کے بعد ہی شادی کی جائے؛ تاکہ دلہن کواپنے سسرال اورسسرال والوں کے سمجھنے میں بعض وہ دشواریاں پیش نہ آئیں، جن کی وجہ سے تلخیاں پیداہوجایاکرتی ہیں۔ یانکاح توکیاجائے؛ لیکن رخصتی بعد میں کی جائے، جیسا کہ خود آپ ا  کاعمل ہے۔

تقریبِ نکاح میں سادگی

حضرت عائشہ کا نکاح بھی سادگی کے ساتھ ہوااوررخصتی بھی نہایت سادہ طریقہ پرہوئی  ——  آج ہم اپنے نکاحوں پرایک نظرڈالیں، کتنے ایسے لوازمات ہیں، جن کے پوراکرنے میں بیٹی کے والدین تومقروض ہوتے ہی ہیں، اب بیٹے کے والدین بھی قرض لینے پرمجبورہورہے ہیں۔ گھوڑے جوڑے کی رقم،دلہا اوردلہن کے پورے خاندان والوں کے لئے کپڑے، نکاح کے کھانے میں ایک بڑی تعدادکی ضیافت، پھراس ضیافت میں کئی طرح کی ڈشز کا اہتمام، ہال کرایہ پرلے کرہال میں نکاح خوانی کی رسم، دلہن کولانے کے لئے باراتی لے جانے کارواج، جہیز کے نام پرلاکھوں روپے کے اسباب اورپھرولیمہ میں عدمِ استطاعت کے باوجودپورے محلہ کی دعوت یہ سارے وہ رسوم اورلوازمات ہیں، جن کے بوجھ تلے بیٹے اوربیٹی کے والدین اس طرح دب جاتے ہیں کہ تاعمراپنی کمرپھرسیدھی کرنے کی طاقت نہیں رہ جاتی۔ اس پرعدمِ اہتمامی کی لوگوں کی شکایتیں مستزاد! کاش حضرت عائشہ کی اس سادہ سی شادی کوپیش نظررکھتے!

تبصرے بند ہیں۔