تصوف، مذہب اور دین اسلام (چوتھی قسط)

ندرت کار

پچھلی پوسٹ میں ہم نے بات کی، نوعِ انسانی،اسی صورت میں ترقی کرسکتی ہے جب ۔۔۔۔۔۔۔۔ مادی اور روحانی۔۔۔۔ دونوں، پہلو بہ پہلو،اپنے اندر تضادات رکھنے کے باوجود، ہاتھ میں ہاتھ ڈالے، آگے بڑھتے چلے جائیں ۔اب آگے بڑھتے ہیں ۔

یہی نہیں کہ باطنیت ( انفرادی تزکیہء نفس کا تصورِ زندگی) کے تضادات کے حل کرنے ہی سے قااصر رہتا ہے، بلکہ انسانی معاشرہ کے نظامِ عدل و صداقت کو بھی تباہ کردایتا ہے ۔۔۔۔ اسلیئے کہ

اس فلسفہ کی رو سے "ہر نیک آدمی” تصوف کی تجرد گاہوں میں، اپنے اپنے نفس کی تہذہیب، و تزکیہ کی فکر میں سر بگریباں بیٹھا جاتا ہے، اور دنیا کا،کاروبار، دنیا داروں کے سپرد کردیتا ہے کہ

"تُسی بیجو، اسیں کھاوانگے”( تم اگاؤ، ہم صرف کھائیں گے)

انکی، انہیں ہوس رانیوں اور کامجوئیوں سے روکنے والا کوئی نہیں ہوتا ۔۔۔۔ اس بنا پر،

اخلاقیات کے متعلق، یونان کے ابتدائی تصور کا رواقی اور ایبقوریت کے فلسفہ میں تبدیل ہوجانا، ایسی خرابی کا مؤجب ہوا کہ،اس کی نظیر، اخلاقی دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔

اخلاق، جس سے مفہوم یہ  ہے کہ، انسان کے باہمی معاملات، حق و صداقت پر مبنی ہونے چاہیئں، ،،،، اپنا مفہوم کھودیتا ہے۔

اگر اسکا نتیجہ  نوعِ انسانی کی بہبود نہیں تو اس سے اخلاقیات کا مقصود ہی فنا ہوجاتا ہے۔

اخلاقیات کا مقصود، ایک فرد کی زاتی فلاح و بہبود نہیں

(اگرچہ نوعِ انسانی کی بہبود مین یہ ذاتی پہلو بدرجہء اتم، موجود ہے)

بلکہ مقصود یہ ہے کہ

اس فرد کا نوعِ انسانی  کے ساتھ، جس کا یہ جزو ہے، کس قسم کا رابطہ ہے؟؟

اس (باہمی معاملات کے) ضابطہء اخلاق کی بنیاد، عـــــــد ل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عدل کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کسی دوسرے انسان پر

مستبدانہ اور قاہرانہ قوت سے،غالب نہ آسکے ۔۔۔۔۔۔۔ اگر دنا میں

باطل WRONG کے کوئی معانی ہیں تو وہ یہی ہیں کہ، ایک انسان، کسی دوسرے انسان کو محض فرضی اقتدار کی بنا پر،اہنا تابع فرمان بنالے ۔۔۔۔۔۔۔ اس باطل کا اسیصال ہی ۔۔۔  اخلاقیات کا اصل فریضہ ہے۔

آپ مثالی اخلاق کی کیسی بھی شاندار عمارت، کیوں نہ تعمیر کرلیں، اگر وہ باطل کا استیصال کرکے اس کی جگہ حق کو قائم نہیں کرتی، تو وہ یکسر، بے معنی ہے۔

یہ اوپر کی عمارت،  اخلاقیات کی عمارت کہلا ہی نہیں سکتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  رواقی فلسفہ کی رو سے، نصبُ العینِ حیات، شر کا مقابلہ نہیں بلکہ اس کے سامنے جُھک جانا،رہ جانا ہے۔

مسیحیت نے ہمیشہ کمزور،پست، اور بوسیدہ چیزوں کا ساتھ دیا ہے،اس نے،طبائع انسانی کی تمام خود دارانہ قوتوں کا استیصال، اپنا مسلک قرار دیا ہے۔

بڑۓ بڑے زبردست دماغوں کا ستیناس کرکے رکھ دیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مغرب نے اسے طاقِ نسیاں بنا کر ایک کونے میں براجمان کررکھا ہے۔

تہذیب کا مشہورامریکی  مؤرخ، DORSEY اپنی کتاب CIVILISATION  میں رقمطراز ہے کہ آج لاکھوں انسانوں کے نزدیک عیسایئت، شکست خوردوں کا مذہب ہے، وہ اس مذہب کی قبولیت سے، اعترافِ شکیست کرتے ہیں کہ  یہاں کوئی شے قابلِ اطمینان نہیں۔

اطمینانِ  کی آرزو باطل، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آرزوؤں کی تکممیل گناہ ہے۔

یہ اندازِ نگاہ  ۔۔۔۔۔ صحیح اور تندرست زندگی کو، ناممکن بنا ددیتا ہے،اس سے انسانیت تباہ ہوجاتی ہے۔(جاری ہے)

تبصرے بند ہیں۔