تصوف، مذہب اور دین اسلام (چھٹی قسط)

ندرت کار

پچھلی پوسٹ میں بات ہوئی کہ "جب تک کوئی مذہب،عقل و بصیرت کے عناصر، اپنے اندر رکھتا ہے وہ، توہم پرستانہ باطنیت (تصوف) کی پست سطح پر گرنے سے محفوظ رہتا ہے،یہی وہ اصل مذہب ہے جو انسانیت کا، ترقی یافتہ کہلانے کا،اہل ہوتا ہے ”

ناترقی یافتہ مذہب، انسانی ترقی کی راہ میں ، سنگِ گراں بن کر حائل ہوجاتا ہے، لیکن۔ ۔۔۔۔۔۔ ترقی یافتہ مذھب، انسانی ترقی میں وحدت پیدا کرکے،ہر منفی قوت کیلیئے "اختیار و ارادہ” اور اسے،استعمال کا میدان مہیا کردیتا ہے۔””

اجــتـــــــــــــــہـا د

`لہٰذا صحیح مذہب وہ ہوگاجس کے اصول ابدی ہوں لیکن ان کے اصول کی تعبیرات، مذہب کے دائرے میں رہتے ہوۓ،زمانہ کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ بدلتی رہیں، اسے”اجتہاد” کہتے ہیں ، جس مذہب میں اجتہاد کی گنائش نہ ہو،وہ تقلیدی مذہب بن جاتا ہے اور  تقلید۔ ۔۔۔۔۔۔ علم و عقل، بصیرت اور حرکتِ ارتقاء کئ لئے موت ہوتی ہے۔

تقلید کی تباہیاں

کسی بھی تہذیب کیلئے ضروری ہے کہ انسان آگے دیکھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ تہذیب کی ترقی کیلئے:-یہ قطعاً ناکافی ہے کہ، انسان یہ دیکھے کہ زمانہء سابقہ میں ، کون کونسی باتیں اچھی کی گئیں ،اور کون کون سے اچھے کام کئے گئے۔
اس اسلوبِ زندگی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زندگی جامد بن کے رہ جاتی ہے،فطری صلاحیتیں جاتی ہیں اور دل کو پستی کی جانب جانے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔

یاد رکھئےِ فلسفہء معاشرت کی بنیاد،اس حقیقت پر ہے کہ کوئی مکمل شے بھی، جمود کی حالت میں ، مکمل نہیں رہ سکتی،یہ اصول کائنات کی تمام فطرتوں میں کارفرماہے۔ انسان کے سامنے دو ہی راستے ہیں ،۔۔۔۔۔۔۔ آگے بڑھو، یا پیچھے ہٹو۔ ۔۔۔ ایک مقام پر کھڑے رہنا،روحِ کائنات سے جنگ کرنا ہے۔ ۔۔۔۔۔ جو آگے نہیں بڑھ رہا،سمجھ لیجئے وہ پیچھے ہٹ رہا ہے۔

زندگی کے فرسودہ پیکروں کو گلے سے لگاۓ رکھنا، تنزل و تسفل ہے،ایسی زندگی دن تو پورے کردیتی ہے لیکن کچھ پھل نہیں لا سکتی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں تہذیب کی نمائش تو رہ جاتی ہے لیکن اسکی حقیقت باقی نہیں رہتی۔ ۔۔۔۔۔۔۔ جو تہذیب ہمت کرکے آگے نہیں بڑھتی،وہ تباہ ہوجاتی ہے۔ ۔۔۔

ماضی کی عظمت کو بھی وہی پہچان سکتا ہے،جس کا مستقبل، روشن ہو۔ ماضی کا علم، بلا حرکت،ماضی کے پیغام کی قیمت کھودیتا ہے۔ ایک زندہ تہذیب کیلئے علم کی ضرورت یقینی ہے، لیکن صرف اسی علم کی، جو اُسے آگے لے جاۓ۔
جس مذہب میں، اسلاف پرستی آجاتی ہے  تو وہ مذہب، جامد ہوجاتا ہے،اس تعطل و جمود کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ "جیتا جاگتا” صاحبِ قوت و اختیار، نظام،۔۔۔۔ بے حس و حرکت اور جامد بن کر رہ جاتا ہے۔۔۔ یعنی متحرک اعمال، بے جان اشیاء (رسوم) بن جاتی ہیں ۔

کیا عقیدہء تصوف کے مطابق

ہم سمجھ لیں کہ،انسان کو آنکھ بند کئے، ان ضوابط و قواعد کی پابندی کئے جانا چاہئے، جنہیں وہ اپنے گرد و پیش دیکھتا ہے؟ اگر ہم ایک ثانیہ کیلئے بھی غور کریں تو یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ ان سوالات کا جواب، یکسر نفی میں ہے۔

اخلاقی تعلیم کا بنیادی اصول یہ ہے کہ انسان، خود سوچے۔ ۔۔۔۔۔۔ جو انسان خود نہیں سوچتا،بلکہ زندگی کی تمام جزئیات میں دوسروں کی تقلید کرتا جاۓ، اس کے متعلق سمجھ لیجئے کہ وہ ایسا انسان ہے، جس کا کوئی کیریکٹر (تقویٰ) ہی نہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو شخص اپنے ماحول سے بہتر بننے کی خواہش کرتا ہے، سمجھ لیجئے کہ وہ، حیاتِ جاوداں کی دہلیز پر کھڑا ہوگیا۔

کوئی شخص اس وقت تک، نئی دنیا دریافت نہیں کر سکتا، جب تک وہ، پرانی دنیا نہ چھوڑ دے۔ ۔۔۔ اور نہ ہی کوئی ایسا شخص، دنیاۓ جدید دریافت کرسکتا ہے جو پہلے اس امر کی ضمانت مانگے کہ وہ نئی دنیا، اس قسم کی ہونی چاہئے۔ یا وہ اس قسم کا مطالبہ کرے کہ جب نئی دنیا وجود میں آۓ گی، تو مجھے کیا ملے گا؟

مشرق کے جمود کا سبب یہی ہے کہ اس میں ہر شے، مقدس، سمجھی جاتی ہے، جسے چُھونا بھی بہت بڑا گناہ، تصور کیا جاتا ہے۔ مشرق کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ اس نے سمجھ رکھا ہے کہ خدا ہی سب کچھ کرتا ہے اور مغرب کی بڑی غلطی یہ ہے کہ اس نے سمجھ رکھا ہے کہ انسان ہی سب کچھ کرتا ہے۔ ۔۔۔۔ مشرق،عقیدہء جبر (قسمت) کا قائل ہوچکا ہے اور مغرب میں انانیت پھیل گئی ہے۔

صرف لفظی عقائد نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایمان۔

جس مذہب کی بنیاد غیترمتبدل اصولوں پر ہوتی ہے، جسے ایمان، کہا جاتا ہے، لیکن جو مذہب صرف عقائد کو وجہء نجات و سعادت قرار دیتا ہے وہ مذہب، کبھی بھی صحیح نہیں ہو سکتا۔ عمل اور مسلسل تخلیق میں  جو زندہ تصور، محض الفاظ کے پیکر میں محبوس ہوجاۓ،وہ بے حس و حرکت اور جامد بن کررہ جاتا ہے، ۔۔۔۔ الفاظ، اس تصور کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ، جو حرف کے پیکر کی روح کو ذبح کردیتے ہیں ۔ ۔۔۔۔ اگرچہ کچھ وقت ہوں محسوس ہوتا ہے، جس طرح انسان کےمرجانے کے بعد،کچھ وقت کیلئے اسکے چہرۓ کے خط و خال، بدستور قائم رہتے ہیں ، لیکن در حقیقت وہ مرچکا پوتا ہے۔

عــــقــل

مذہب صرف صرف خیال کرنے یا محسوس کرنے کی شے نہیں ، بلکہ یہ تو انسانی زندگی سے مشہود کرنے کی چیز ہے۔ کہ وہ متشکل ہورہی ہے، یعنی جس طرح وہ طبعی طور پر، وہی کچھ بنتا ہے، جو کچھ وہ کھاتا ہے، اسی طرح، انسانی نقطہء نگاہ سے  انسان کی زندگی، اعمال کے نتائج کا پیکر ہوتی ہے، اسی کو مکافاتِ عمل کہتے ہیں ۔۔۔ ایک صحیح مذہب میں مکافاتِ عمل کا طریقِ کار، ہر آن، جاری و ساری رہتا ہے۔

یوم الحساب، ایک اہم تصور ہے لیکن۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یوم الحساب تو ہر آن ہمارے ساتھ لگا ہوا ہے۔
لہٰذا، ایک صحیح مذہب میں ایمان کی پختگی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ۔ ۔۔۔۔ ایمانیات، ہی تو وہ مستقل اصول Absolute and Permanent Values ہیں ،جن کی بنیادوں پر زندگی کی ساری عمارت،استوار ہوتی ہے، چنانچہ،
ایمانیات کی پختگی نہ رہے تو قوم،
"دو نسلوں کے بعد، "دہـــــــــــــــــریہ” بن جاتی ہے”

لہٰذا، صحیح مذہب میں ، پختگیء ایمان، اور عملِ پیہم، دونوں ، ساتھ ساتھ، رہنے چاہیئں ۔ (جاری ہے)

تبصرے بند ہیں۔