مولانا ابو الکلام آزادؒ  کی صحافت

عبدالعزیز

 کلکتہ کو اردو صحافت میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہی شہر ہے جہاں سے اردو کا سب سے پہلا اخبار ’جام جہاں نما‘27؍مارچ 1822ء کو نکلنا شروع ہوا۔ ’جام جہاں نما‘  ہفت روزہ اخبار تھا۔ یہ اخبار55سال تک نکلتا رہا۔ ’جام جہاں نما‘ کے اندازِ صحافت سے متاثر ہوکر اردو فارسی کے بعض نئے اخبارات نکالنے شروع ہوئے۔ اس طرح اردو اخباروں کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ ’جام جہاں نما‘ کے اجراء کے نوے سال بعد ’الہلال‘3؍جولائی 1992 کو شائع ہوا۔مولانا ابوالکلام آزاد اس اخبار کے ایڈیٹر اور مالک تھے۔ اس سے پہلے مولانا بہت سے اخباروں میں کام کرچکے تھے اور اپنا بھی کئی اخبار نکال چکے تھے مگر مولانا کی صحافت کا یہ مشقی دور تھا۔ اس زمانے میں بھی مولانا کی شہرت ہندستان بھر میں پھیل چکی تھی۔ ان کی کمسنی کی وجہ سے بہت سے لوگ انہیں مولانا ابوالکلام آزاد کا بیٹا سمجھتے تھے۔’نیرنگ عالم‘ المصباح، تحفہ احمدیہ، لسان الصدق، جیسے معیاری پر چوں میں مولانا کی نگارشات کو پڑھ کر کسی کو بھی اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ کوئی نوجوان ایسی چیزیں لکھ سکتا ہے یہ کہہ سکتا ہے۔

  مولانا ابوالکلام آزاد کی صحافت کے دور ارتقاء کاآغاز الندوہ کی سب ایڈیٹری سے ہوا۔ ’وکیل‘ امرتسر دورثانی پرختم ہوا مولانا کی صحافت دور عروج حقیقت میں الہلال کے اجراء سے شروع ہوا۔ الہلال کا پہلا شمارہ 13؍جولائی 1912 کو نکلا جب مولانا ابوالکلام آزاد کی عمر 24سال سے بھی کم تھی۔یہ محض ایک ہفتہ وار اخبار نہ تھا بلکہ ایک دعوت اور ایک تحریک تھی اسلام کو جس طرح انہوں نے سمجھا اسی رنگ میں اسے پیش کرنا شروع کیا۔ اسلام ان کے نزدیک ایک مکمل نظام حیات تھا جس میں دین و دنیا یا سیاست و مذہب کی دوئی نہ تھی۔ وہ علامہ اقبال کی طرح اس حقیقت کے قائل تھے    ؎

جداہو دیں سیاست سے توں رہ جاتی ہے چنگیزی

  ہندستانی مسلمان سیاست سے دور ہوچکے تھے۔ سیاست کوشجر ممنوعہ سمجھنے لگے تھے علیگڑھ اسکول کی کانگریس دشمنی اور انگریز دوستی مسلمانوں کے دل و دماغ پر کچھ اس طرح چھائی ہوئی تھی کہ سیاست سے کنارہ کشی کو ہی ملت مسلمہ کے لئے مفید اور کار آمد سمجھتے تھے۔ مولانا آزاد سے پہلے کسی کو یہ ہمت نہیں ہوتی تھی کہ سرسید کی پالیسی کو جو1857کے غیر معمولی حالات کے نتیجے میں تھی، کھلم کھلا قصہ ٔپارینہ کہہ کر رد کردینے کی تلقین کرے۔الہلال نے مسلمانوں کی سیاست سے دوری کو اپنی ساری قوت سے فرسودگی اور بے مقصدیت بتانا شروع کیا۔ علامہ اقبال کی طرح مسلمانوں کو تعلیم دینے لگا   ؎

عصانہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد

اور پیغمبری اور جادوگری کافرق پورے طور پر واضح کرنے لگا    ؎

دلبری بے قاہری جادوگری است

دلبری باقاہری پیغمبری است

 الہلال کے ذریعہ مولانا نے قرآن و سنت کی روشنی میں مسلمانوں کو بتایا کہ مومن کو اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ عمل صالح کریں اور پھر ادائے حقوق کے معاملے میں ایک دوسرے کی مدد کریں اور چونکہ ادائے حقوق بغیر خلافت و سیاست کے ناممکن ہے اس لئے ضروری ہے کہ خلافت کو قائم اور باقی رکھنے کی دنیا بھر کے مسلمان کوشش کریں ۔ مولانا نے نہایت دانائی اور حکمت سے بتایا کہ اخلاق انسانی کی سب سے زیادہ حسین شکل یہ ہے کہ وہ شجاعت اور نرم خوئی کا ایک دل آویز پیکر ہو۔مولانا ابوالکلام آزاد نے حق کے لئے اور حق کی پاسداری کیلئے سب کچھ قربان کردینے کی قرآنی تعلیمات سے مسلمانوں کو روشناس کرایا قرآن کے مطابق اللہ تعالیٰ کے غضب و انتقام کی بنیاد بھی یہی ہے کہ اس کو حق عزیز و محبوب ہے۔ اس وجہ سے جو لوگ حق کو پامال کرتے ہیں ان پر اس کا قہر وغضب بھڑکتا ہے۔ جوشئے کسی کو عزیز و محبوب ہوگی کیا اسے وہ اس کی تحقیرو اہانت ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرے گا؟ اس کی حمایت کے لئے اس کی غیرت جوش میں نہیں آئے گی، ماں اپنے بچہ سے محبت کرتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ محبت تنہا نہیں ہوتی بلکہ اپنے ساتھ ایک مجنونانہ غیرت بھی رکھتی ہے اور جب وقت آتا ہے، ماں کو بچہ کی حمایت میں اپنے آپ کو قربان کردیتی ہے مومن خد کی خوشنودی اور محبت حق کی وجہ سے حق کی دفاع کے لئے سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ جان دے کر بھی وہ یہی کہتا ہے کہ   ؎

جان دیدی دی ہوئی اس کی تھی

حق تو یہ ہے کہ حق ادانہ ہوا

  مولانا کی اس تعلیم و تلقین سے جو رجحان کام کررہا تھا اور اس سے جو خطرناک نتائج پیدا ہوسکتے تھے اس سے انگریزی حکومت بے خبر نہ تھی لیکن چونکہ یہ ساری تعلیم دینی لباس میں پیش کی جارہی تھی اس لئے جواں سال مدیر کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے حکومت پرہیز کرتی تھی۔ بالآخر حکومت نے ستمبر 1913؁ء میں حادثۂ مسجد کانپور کے ہنگامے کے زمانے میں ایک مضمون پر الہلال سے دو ہزار کی ضمانیت طلب کرلی جو الہلال کی طرف سے پیش کردی گئی۔ اگلے سال 1914؁ء میں پہلی عالمی جنگ شروع ہوگئی۔ اب الہلال کے تیزو تند مضامیں حکومت کی نظر میں باغیانہ ٹھہرے۔ اسی زمانہ میں انگریزی اخبار پانیر(Pioneer) نکلتا تھا جو حکومت کے خیر خواہوں اور وفاداروں میں سے تھا۔ اس نے حکومت کی توجہ مبذول کرائی کہ الہلال در پردہ جرمنی کاحامی ہے اور حکومت وقت اس کے باغیانہ رویہ سے چشم بوشی کرکے کوئی اچھی حکمت عملی کا نہیں اپنا رہی ہے۔ پانیر کی اس تنبیہہ کے بعد کیونکر ممکن ہوسکتا تھا کہ حکومت مولانا کی باغیانہ روش کو درگذر کردیتی ۔

 پانیر کی تنبیہہ اور تلقین کاحکومت پر یہ اثر ہوا کہ دو ہفتے بعد نومبر 1914 میں حکومت نے دوہزار کی ضمانت ضبط کرلی۔ اس پر مولانا نے الہلال بند کردیا۔ الہلال کاآخری پرچہ 18؍نومبر1914؁ء کو شائع ہوکر بند ہوگیا۔

ایک سال بعد نومبر 1915؁ء کو مولانا نے ایک دوسرا پرچہ البلاغ کے نام سے جاری کیا۔ یہ الہلال کانقش ثانی تھا۔ یہ صرف نام کے لحاظ سے نیا اخبار تھا مگر اپنی شکل و صورت، مضامین و مواداور اسلوب و استدلال ہر لحاظ سے الہلال کی نمائندگی کررہا تھا۔ مولانا کے انداز فکر و تحریر میں کوئی فرق نہیں پیدا ہوا تھا بلکہ تیزی اور ترشی میں اضافہ میں ہوگیا تھا۔ حکومت اخبار کی جارحانہ اور باغیانہ تحریروں کو نظرانداز نہ کرسکی آخر کار 23؍مارچ1914؁ء کو حکومت بنگال نے انہیں ایک ہفتے کے اندر حدود بنگال سے باہر چلے جانے کاحکم صادر کردیا۔

 اس پر انہیں مجبوراً کلکتہ کو خیر آباد کہنا پڑا۔30مارچ کو کلکتہ سے نکلے۔ روانگی سے پہلے البلاغ کا پرچہ مرتب کرچکے تھے جس پر 3؍اپریل1914کی تاریخ لکھی ہوئی ہے۔مولانائے محترم کا خیال تھا کہ ان کی کلکتہ کی غیرموجودگی سے پرچے کی اشاعت پر کوئی اثر نہیں پڑیگا۔ لیکن ان کا یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ اس کو جاری رکھنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں ۔

 بنگال سے نکل کر اب انہیں بہار کے علاوہ کوئی اور جائے قرار نہ تھی۔مولانا نے کلکتہ سے نکل کر رانچی کے باہر ایک گائوں مورابادی میں پناہ لی۔تین ماہ بعد 8؍جولائی 1914؁ء کو حکومت نے وہیں رانچی میں ان کی نظر بندی کے احکام جاری کردئیے۔مولانا اپنا پرچہ الہلال تلوار کے سائے میں نکالتے رہے مگر حق گوئی اور بیباکی سے کبھی باز نہیں آئے۔ علامہ اقبال نے ایسے ہی مرد حق کے لئے کہا ہے   ؎

آئیں جو انمردی حق گوئی و بیباکی

اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

 مولانا کی صحافت حق اور حسن ادب سے آراستہ تھی جس کی وجہ سے اس کے اثرات آج بھی قائم و دائم ہیں یہ دوسری بات ہے کہ جو لوگ صحافت کو محض پیشے کی حیثیت سے اپنائے ہوئے ہیں اور صحافت کو حق و صداقت کی آواز کے بجائے مالک کے اشارے اور کنایے کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں وہ مولانا آزاد کی صحافت سے نہ کچھ سیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی ایسی صحافت ان کو راس آسکتی ہے۔مولانا ابوالکلام آزاد کی خوش قسمتی تھی کہ ان کے ایسے رفقاء کار تھے جو نہ صرف علم و ادب کے ستارے تھے بلکہ حق و صداقت کی نمائندہ شخصیتیں تھیں جو آج نایاب ہیں ۔

  مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا عبداللہ عمادی اور مولانا عبدالسلام ندوی کے علاوہ ابوسعید بزمی(1952ء–1910ء)، اختر شیرانی (1944ء–1905ء)، چراغ حسن حسرت (1955ء–1902ء)، شورش کشمیری (1975ء–1917ء)، رسول مہر(1971ء–1895ء)، قاضی عبدالغفار( 1956ء–1889ء)، نصر اللہ خاں عزیز(1976ء–1892ء) اور نیاز فتح پوری (1944ء–1884ء) جیسے ادیب،شاعر، ناقد، صحافی، عالم و فاضل شخصیتیں مولانا کے رفقاء کار میں تھیں ۔ مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی ان میں مولانا کے سب سے زیادہ قریب تھے بلکہ مولانا کے سکریٹری تھے۔ مولانا کے آخری لمحوں تک ان کا ساتھ دیتے رہے۔ ’’آزاد کی کہانی خود آزاد کی زبانی‘‘ کی ترتیب مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی نے دی ہے جس سے مولانا کی نجی زندگی کا علم عوام و خواض کو ہوا یا آج ہورہا ہے یہ مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی کا ملت اور انسانیت پر بڑاا حسان ہے کیونکہ مولانا آزاد اپنی ذاتی زندگی سے پردہ اٹھانے کے قائل نہیں تھے مگر مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی اپنی کوشش میں کامیاب ہی نہیں بلکہ پوری طرح کامیاب نظرآتے ہیں اللہ انہیں جزاء خیر عطا فرمائیے (آمین)

تحریک اسلامی کے راہ رو اور مولانا آزاد کے رفیق کارنصراللہ خاں عزیز مولانا کی صحافت پر کچھ اس طرح رقمطراز ہیں    ؎

 ’’آج سے 30برس پیشتر جب ہندوستان کے مسلمان سیاست میں ساحرافرنگ سے شکست کھاکر ’’آمنا بالطاعوت‘‘ کانعرہ عجزو خود فراموشی بلند کرچکے تھے اور سرسید کی بتائی ہوئی راہ پر چل کر جبرو قوت کے سامنے سربہ سجود ہوچکے تھے، یکایک کلکتہ سے ایک رعد آساصدا بلند ہوئی جو یکایک تمام ہندوستان میں گونجی اور مدہوشوں کو ہوشوں کو ہوشمند اور سوئے ہوئوں کو بیدار کرگئی۔ یہ صداگمنام نوجوان کے ہونٹوں سے بلند ہوئی تھی۔ جو قلم اور زبان کی حیرت انگیز خدداد طوفان انگریزوں کے ساتھ ہندوستان کے شہر خموشاں پرچھاگیا تھا ، پورا ملک حیرت و استعجاب کے ساتھ اپنے دل سے سوال کرنے لگا تھا کہ بیسویں صدی میں یہ قم باذن اللہ کون پکاراٹھا، اور یہ احمد المکنی بابی الکلام دہلوی مدیر ’’الہلال‘‘ کون ہے جس کے کلام میں جادو، زبان میں سحر اور تحریر میں اعجاز ہے، جو زبان کی کاٹ سے غافل دلوں کی بستیوں کو الٹ دیتا ہے او ربھولے ہوئے حق کی طرف اس اعجاز کے ساتھ بلاتا ہے کہ جو اس کی بات کو سمجھتا ہے ۔ وہ بھی دیوانہ وار اس کی طرف دوڑتا ہے اور جو نہیں سمجھتا وہ بھی مبہوت ہوکر ادھرہی کی راہ لیتا ہے‘‘۔

نصر اللہ خاں عزیز کی نظم ’’امام الہند‘‘ مولانا سے عقیدت و ارادت کا خوبصورت مظہر ہے:

اے امام محترم! اے رہبر عالی مقام

علم و تدبیر و سیاست ہیں ترے در کے غلام

تیری تحریر و خطابت نازش اسلام ہے

تیرا ہر اک لفظ گویا پارۂ الہام ہے

عزم تیرا کوہ پیکر، حزم تیرا بے مثال

صدق تیرا بے عدیل اور عدل تیری لازوال

تچھ پہ کھولے حق نے رازو معنی ام الکتاب

فیض ہے روح القدس کا جس سے تو ہے فیضیاب

تو علم بردار ہے اسلام کی توحید کا

توامیں ہے اس صدی میں کرتبہ تجدید کا

مولانا کے رفیق اور اردو ادب کے صاحب طرز ادیب قاضی عبدالغفار صاحب مولانائے محترم کی صحافت پر کچھ اس طرح کااظہار خیال کرتے ہیں :

’’مجھے تو اردو ادب میں کوئی دوسرا ادیب ایسا نظر نہیں آتا جس نے اس شدت کے ساتھ اپنی انفرادیت کے تازیانے عوام کی ذہنیت پر مارے ہوں یا جس کے افکار کے پیمانہ میں عوام کا جمود اس قدر مایوس کن ثابت ہوا ہو۔ یا جس کااحساس عوام کے جمود سے اس قدر زیادہ مجروح ہوا ہو۔ جذبۂ صادق کے ان مظاہروں کی قوت سے انکار نہیں ،لیکن مولانا کی مایوسیوں کاایک اور سبب بھی ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ امام کامنبر مقتدیوں کی سطح سے بہت اونچا ہے۔ ادیب و خطیب نے جس اونچے مینار پر کھڑے ہوکر نیچے میدان کے اس ہجوم پر نظرکی اس کے افراد بلندی کی وجہ سے بہت چھوٹے نظرآئے۔ اور یہ بلندی عوام کے افکار کی پستی تک نہ پہنچ سکی اور پہنچ بھی نہ سکتی تھی۔ اس طرح یہ گمان بھی کسی حد تک حقائق سے غیر متوازن نہیں کہ مولانا کی انفرادیت نے جوان کی اس کاخاصہ ہے انہیں عوامی زندگی سے زیادہ قریب کبھی نہ ہونے دیا۔ ان کے ذہنی اور وجدانی خلوت خانے کے دروازے عوام کے لئے کبھی پوری طرح نہ کھل سکے۔ مختصر یہ کہ جو چیز مولانا کی ’’جی نی اس‘‘ (Ginus)کا طرۂ امتیاز ہے وہی ان کی زبان اور ان کے قلم سے ایک غمگین راگ بن کرنکلتی ہے‘‘ ۔

مولانا غلام رسول مہر مولانا کے عاشق زار تھے، رفیق کار تھے، مولانا کے بارے میں فرماتے ہیں :

 ’’یقینا مولانا ایک نادر روزگار شخصیت کے مالک تھے اور ایسے گوناگوں اوصاف و محاسن کسی ایک شخص کے وجود میں کم ہی جمع ہوتے ہیں ۔ انہوں نے زندگی کے اتنے دائروں میں انتہائی بلند مقام حاصل کیا۔ جن کا حصر مشکل ہے اور ان میں سے کسی ایک دائرے میں ویسی بلندی حاصل کر لینا، بڑے سے بڑے انسان کے لئے بھی دائمی فخر کاسامان ہوسکتا ہے۔ علم و فضل، حقائق دین، فلسفہ حکمت، شعرو ادب، تصنیف و تالیف، تقریر و خطابت، اخبار نویسی و صحیفہ نگاری، سیاست و ملک داری غرض کون سادائرہ اور کون ساحلقہ ہے جس میں ان کی یگانگی ابتداہی سے سب کے نزدیک ثابت و مسلم نہ تھی اور آج تک اس کی تصدیق و توثیق نہ ہوتی رہی؟ عربی، فارسی، انگریزی اور اردو میں علوم کا شاید ہی کوئی قابل توجہ مطبوع یا مخطوطہ و کمیاب ذخیر ہو، جو ان کی نظر سے نہ گزر چکا تھا اور اس ذخیرے کی ہر مستحق اعتناشے ان کے گنجینۂ حفظ و ضبط میں محفوظ نہ تھی۔لوگوں نے مختلف کتابیں پڑھیں اور ان کے وہ مطالب ذہن میں بٹھالئے جو انہیں پسند آئے۔مولانا کے حافظے میں نہ محض تمام مطالب محفوظ تھے بلکہ مشہور مصنفوں کے اسلوب پر بھی حد درجہ اختصاص حاصل کرنے والوں کی زبان سے بھی بہت کم سنے گئے۔ حیرت اس بات پر ہوتی تھی کہ یہ کمال انہوں نے کیوں کر حاصل کرلیا‘‘۔

  شورش کشمیری چٹان کے ایڈیٹر تھے، مولانا کے رفقاء کار میں سے تھے ۔مولانا کو بچپن ہی سے پڑھا تھا اور ان کی فکر و سیرت کو اپنی زندگی کا شعار بنالیاتھا،صحافت ، ادب خطاب میں مولانا کا ان پر گہرا اثر تھا، شورش کشمیری فرماتے ہیں کہ ’’مولانا کے چمنستان نگارش کا جادو میرے افکار پر چھایا ہوا تھا۔مولانا سے آخری وقت تک خط و کتابت کاسلسلہ جاری رہا۔

محقق ڈاکٹر انوار احمد(کراچی) مولانا آزاد کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’الہلال‘‘ کی دعوت، بلاغت، موسیقیت اور اس کا تہدیدیت او رخطابت آمیز و دلکش اسلوب ایسی خصوسیات ہیں جن سے شاید ہی کوئی صاحب ذوق اور اہل نظر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ہو‘‘۔

  اردو کے مشہور اور ممتاز ادیب اور نقاد رشید احمد صدیقی مولانائے محترم کے بارے میں اظہار خیال فرماتے ہیں کہ:

 ’’مولانا پہلے اور آخری شخص ہیں جنہوں نے براہ راست قرآن کو اپنے اسلوب کا سرچشمہ بنایا‘‘ مزید فرماتے ہیں کہ کلام پاک کی تعلیمات اور تصورات کو اردو میں اس بصیرت زیبائی و برنائی کے ساتھ پیش کرنا کہ وہ کلام اللہ کا کلام ہی نہیں بلکہ بندوں کا عمل صالح بھی معلوم ہو معمولی ذہن و دماغ کاکام نہیں ، اردو میں یہ کارنامہ مولانا آزاد کا ہے‘‘

 مولانا کی نثر نگاری کے بارے میں مولانا حسرت موہانی کا یہ شعر کافی مشہور ہوا   ؎

جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر

نظم حسرت میں کچھ مزانہ رہا

واقعہ یہ ہے کہ الہلال کی دعوت و بلاغت کی خصوصیات کچھ ایسی ہے کہ کوئی شخص ، کوئی صاحب ذوق متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ مولانا حسرت موہانی تو اپنی نظم کو مولانا کی دلکش نثرنگاری کے سامنے ہچ سمجھتے تھے۔ سجاد انصاری کا تویہ حال ہے کہ جو کچھ نہیں کہنا تھا وہ بھی کہے بغیر باز رہ نہ سکے۔

’’میرا عقیدہ ہے کہ اگر قرآن نازل نہ ہوچکا ہوتا،مولانا آزاد کی نثر اس کے لئے منتخب کی جاتی یا اقبال کی نظم‘‘

 ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد مولانا آزاد کے الہلال کے بارے میں بالکل سچ کہا ہے کہ ’’پورا الہلال قرآن آیات کی صدائے بارگشت سے لبریز ہے۔ قرآنی آیات کے علاوہ مولانا کے حا فظے میں بے شمار فارسی اشعار محفوظ تھے۔انہوں نے مغل دور کی تاریک اور شاعری کاخیال انگیز اور فکر افروز مطالعہ کیا اور اسی شاعری کا خاطر خواہ فائدہ انہوں نے ’’الہلال‘‘ کے صفحات میں اٹھایا ہے۔ وہ اپنی تحریروں میں جابجا اشعار کااستعمال اس حسن و خوبی سے کرتے ہیں کہ ان کی تحریر میں جان پڑجاتی ہے اور اتنے مناسب مواقع پر اشعار صرف ہوتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ شاید اسی محل کے لئے کہئے گئے ہوں ‘‘۔

 مولانا سید سلیمان ندوی نے ’’الہلال‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے اس کے کارناموں کو اپنے الفاظ میں نہایت خوبی کے ساتھ اجاگر کیا ہے:

’’مولانا ابوالکلام آزاد کا’’ الہلال‘‘ نکل رہا تھا اور ان کی آتش بیانی سے مسلمانوں میں آگ سی لگی ہوئی تھی اور وہ جہاد جس کا نام لینے سے لوگ ڈرنے لگے تھے، مولانا ابوالکلام نے اس کا صور اس بلند آہنگی اور بیباکی سے پھونکا کہ یہ بھولا ہوا سبق لوگوں کی زبانوں پرآگیا۔ ’’الہلال‘‘ دیوبند کے حلقہ میں بھی آتا تھا اور حضرت مولانا محمود حسن کی مجلس میں پڑھاجاتا تھا،میں نے اس زمانہ میں حضرت مولانا محمود حسن صاحب کا یہ فقرہ سناتھا کہ ہم نے جہاد کا سبق بھلادیا تھا اور ابوالکلام نے ہم کو پھر یاد دلایا‘‘۔

عالم خوند میری نے اس حقیقت کااعتراف کرتے ہوئے نہایت عمدہ طریقہ سے اور نہایت لطف اندوز و پیرائے میں اس بات کو بیان کیا ہے:

 ’’ تاریخی طور پر ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ کے نوجوان ابوالکلام نے ماضی کے سحر کو جگانے میں کامیابی حاصل کی اور اس استعاروں اور تخیلی پیکروں کو Imaginative Symbolsکو ابھارا جو اجتماعی لاشعوری کو خوا بیدگی کے عالم سے بیدار کرسکتے اور شعور پر حملہ کرنے کی طاقت عطا کرسکتے تھے۔ روایت کے ذریعے اصلاح کی’’ تحریک‘‘ روایت اور طاقت عطا کرنے میں بالآخر کامیاب ہوگئی۔ اور اس کا جزنی پہلو یا Tragicelemantاس وقت نظروں کے سامنے آیا جب ابوالکلام آزاد نے اپنی فکری زندگی کے دوسرے اور علمی فنی اعتبار سے زیادہ ثمرآور دور میں ، وحی الٰہی کی تجلیوں سے کسب نور کی کوشش کی اور اعلان کئے بغیر روایت کے ہجوم سے اپنادامن بچانے کی کوشش میں مصروف ہوگئے، جہاں پہلے دور کے آزاد نے ماضی کے احیا کی کوششوں کو ایک نیا عملی اور نظریاتی Idealogicalجوش بخشا‘‘

  مولانا عبدالماجد دریا آبادی کا تبصرہ بھی قابل ذکر ہے ۔فرماتے ہیں کہ :

 ’’1912ء میں ’الہلال‘‘ افق کلکتہ سے طلوع ہوا… اس نے اردو صحافت کی جیسے دنیا ہی بدل دی۔ صورت و سیرت مغزو قالب سب میں اپنے پیش رو اور معاصر ہفتہ واروں سے بالکل مختلف اور کہیں زیادہ شاندار اور جانبدار چھپائی، کاغذ، تصویریں سب کامعیار اعلیٰ‘‘

  مولانا آزاد کی ادبی صحافت کااثر کم و بیش اردو کے ہر صحافی اور ادیب پڑا ہے خاص طور سے بڑے صحافیوں اور ادیبوں نے کچھ زیادہ ہی اثر قبول کیا ہے۔ اس طرح صاحب الہلال مولانا ابوالکلام آزاد کی صحافت محض صحافت نہیں تھی بلکہ ایک دعوت اور تحریک تھی جس کااثر آج بھی ادبی اور دینی تحریکوں میں صاف دکھائی دیتا ہے۔ مولانا آزاد الہلال کی اشاعت کے دو مقا صد بیان کئے ہیں ، مولانا خود فرماتے ہیں کہ :

 ’’ الہلال‘‘ کے پیش نظر دو قسم کے مقاصد تھے

 الف  :  عام مقاصد کاتعلق علم و ادب اور سیاست و صحافت کے مباحث سے تھا اور مقصود یہ تھا کہ اردو زبان میں ہر اعتبار سے ایک ایسا بلند پایہ رسالہ وجود میں آجائے جو زمانے کی رفتار ترقی کا ساتھ دے سکے اور فکرو نگارش کے ہر میدان میں ایک نئی قسم کی بلندی پیدا کردے۔

 ب  :  خاص مقاص کاتعلق اس کی دعوت سے تھا وہ دعوت جو مذہب میں مجتہدانہ نظر و فکر کاایک نیاباب کھولتی تھی۔ سیاست میں آزادی فکرو عمل اور علم و نظرو رائے کی طرف مسلمانوں کو لے جانا چاہتی تھی۔مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں :

(۱)  ’’الہلال کامقصد اصلی اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ مسلمانوں کو ان کے اعمال و معتقدات میں صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ پر عمل کرنے کی دعوت دیتا ہے اور خواہ تعلیمی مسائل ہوں ، خواہ تمدنی، سیاسی ہوں خواہ اور کچھ وہ ہر جگہ مسلمانوں کو صرف مسلمان دیکھناچاہتا ہے‘‘۔

تبصرے بند ہیں۔