تصوف کے مورخ- ابو عبدالرحمن السلمی

ذکر النسوة المتعبدات الصوفیات کے مصنف کا پورا ناممحمد بن الحسین بن محمد بن موسیٰ، ابو عبدالرحمن السلمی، الازدی تھا۔ نیشا پور کے رہنے والے تھے۔ ان کے والدقبیلہ بنی ازد سے تھے اور ان کی والدہ کا تعلق بنو سلیم سے تھا۔ اس زمانے میں نیشا پور کے اندر بنو سلیم انتہائی معزز خاندان مانا جاتا تھا۔بنو سلیم کے لوگ دولت و سیادت اور علم و فضل ہر اعتبارسے صاحب حیثیت تھے۔ ایک زمانہ میں وہ نیشا پور کے حاکم بھی رہ چکے تھے۔ ابو عبدالرحمن کے نانا ابو عمرو بن نجید بڑے عالم اور صوفی تھے۔انھوں نے ہی ابو عبدالرحمن کی پرورش کی تھی۔ اس لیے باپ کی نسبت الازدی کے مقابلے میں نانا کی نسبت السلمی سے زیادہ مشہور ہوئے۔

ابو عبدالرحمن السلمی کے والد بھی بڑے عالم اور زاہدو صوفی تھے۔ ان کے بارے میں امام حاکم نے تاریخ نیشا پور میں لکھا ہےکہ: قلما ما رائت فی اصحاب المعاملات مثلہ۔ (میں نے اصحاب معاملات میں ان جیسا کوئی دوسرا نہیں دیکھا) (1)

علامہ جامی نے ان کا مستقل تذکرہ لکھا ہے اور ان کی بڑی تعریف کی ہے۔ (2)

وہ عبداللہ المنازل اور ابو علی الثقفی کی صحبت میں رہے۔ انھوں نے شبلی کو دیکھا تھا،انہوں نے صوفیہ سے متعلق کچھ چیزیں بھی تحریر کی تھیں لیکن اب ان کی کسی تحریرکا سراغ نہیں ملتا۔ کہیں کہیں خود ابو عبد الرحمن ان کے حوالے دیتے ہیں کہ میں نے اپنے والدکی تحریر میں ایسا لکھا دیکھا (3) ان کے والد کی وفات 348ھ مطابق959ء میں ہوئی۔

 ابو عبدالرحمن سلمی کی والدہ بھی ایک صاحب ذکر اور فاضلہ خاتون تھیں اور ان کے والد ابو عمرو بن نجید کی تربیت و صحبت اور صوفی منش شوہر کی رفاقت نے ان کے ذاتی خصائل کی مزید پرورش کی ہوگی۔ ان کے بارے میں تفصیلات کم ملتی ہیں ، ان کی ایک نصیحت خود ابو عبدالرحمن نے روایت کی ہے، اس سے ان کے ذوق و مزاج کا پتہ چلتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہجب شیخ ابوالقاسم النصر آبادی نے حج کا ارادہ کیا تو ان کے ساتھ السلمی نے بھی اپنی والدہ سے حج پر جانے کی اجازت مانگی۔ والدہ نے اجازت بھی دی اوریہ نصیحتبھی کی :توجہت الی بیت اللہ فلا یکتبن علیک حافظاک شیئا تستحی منہ غداً (4) (تم بیت اللہ کی زیارت کے لیے جا رہے ہو۔ اس کا دھیان رکھنا کہ فرشتے تمھاری کسی ایسی بات کو نہ لکھنے پائیں، جس کی وجہ سے تم کو کل شرمندہ ہونا پڑے) شیخ فرید الدین عطار نے تذکرة الاولیاء میں بھی ضمناً ان کا ذکر کیا ہے ۔ان کے اقوال بھی نقل کیے ہیں۔ ان سے ان کے مزاج و رجحان کا اندازہ ہوتا ہے۔

ولادت

 ابو عبدالرحمن سلمی بروز منگل، 10 جمادی الآخرہ 325ھ مطابق 52 اپریل 937ءکو نیشا پور میں پیدا ہوئے۔ (5) ان کے والد جن کا ذکر اوپر آیا بہت امیر نہ تھے۔ لیکن بیٹے کی ولادت کی خوشی میں انھوں نے اپنا تمام اثاثہ بیچ کر صدقہ کر دیا۔ (6)

ابو عبدالرحمن السلمی کے ایک شاگرد اور جلیل القدر صوفی محمد بن علی الخشاب نے اپنے شیخ کی سوانح حیات لکھی تھی۔ وہ کتاب تو ضائع ہو گئی ،لیکن امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء اور تاریخ الاسلام میں اس کتاب سے استفادہ کیاہے۔ اس لیے یہ دونوں کتابیں سلمی کے حالات کے لیے بڑی حد تک مستند مراجع ہیں۔ ذہبی نے عبدالفاخر بن اسماعیل الفارسی کی کتاب ’سیاق التاریخ‘ کو بھی بطور مرجع استعمال کیا ہے۔ اس کتاب میں سلمی کا سنہ ولادت 330ھ/941ء لکھا ہے۔ لیکن السلمی کے شاگرد محمد بن علی الخشاب کی تحریرکردہ تاریخ جو اوپر مذکور ہے وہ زیادہ معتبر ہے اور امام ذہبی نے ان کی رائے نقل کرنے کے بعد اس کے حق میں دلائل بھی دیے ہیں۔ ذہنی کی ایک دلیل یہ ہے کہ 333ھ/944ء میں ابو عبدالرحمن نے ابو بکر الضبعی سے حدیث لکھنی شروع کی تھی۔ (7) اس لیے اس وقت ان کی عمرکم از کم 7 یا 8 سال ہوگی جو بالعموم تعلیم کے آغاز کا سن ہوتا ہے۔ 3 سال نہیں ہوگی کہ اس عمر کے بچے سے حدیث نقل کرنا متصور نہیں ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ ابو عبدالرحمن کی ولادت مکی بن عبداللہ کی وفات کے 4 دن بعد ہوئی تھی اور مکی بن عبدالرحمن کا انتقال 6 جمادی الآخر  325مطابق21 اپریل 937ء میں ہوا تھا (8) اس لیےچار دن بعد 01 جمادی الآخر 325 مطابق 25 اپریل 937ء میں ان کی ولادت زیادہ قرین قیاس ہے۔

تعلیم و تربیت

ابو عبدالرحمن السلمی کا گھریلو ماحول علمی و دینی تھا۔ چنانچہ بالکل ابتداء میں ہی ان کی تعلیم و تربیت کا آغاز ہو گیا ۔ جب ان کی عمر صرف 7 یا 8 سال تھی اس وقت سے انھوں نے حدیث لکھنی شروع کی۔ نیشا پور کے جید عالم ابو بکر الضبعی کے سامنے زانوے تلمذ تہ کیا (9) اور یہاں سے تعلیم کی تکمیل کے بعد بلاد اسلامیہ کا سفر کیا اور عراق، بغداد، رے، ہمدان، مرو، حجاز وغیرہ کے مشائخ سے حدیث، فقہ اور تصوف کی تعلیم حاصل کی۔ خطیب نے بغداد کے متعدد اسفار کا تذکرہ کیا ہے۔ (10)

اساتذہ

سلمیٰ نے بلاد اسلامیہ کے اپنے علمی سفر میں بے شمار علما ئسے استفادہ کیا۔ خاص طور پر تصوف اور حدیث کے ائمہ سے انھوں نے زیادہ استفادہ کیا۔ ان کے اساتذہ میں سب سے مشہور شخصیت امام دارقطنی کی ہے۔ جو حدیث کے جلیل القدر امام تھے۔ ان کی کتاب سنن دارقطنی صحاح ستہ کے بعد حدیث کی سب سے معتبر کتاب مانی جاتی ہے۔ السلمی نے ان سے طویل عرصے تک استفادہ کیا اور جرح و تعدیل رواة کے موضوع پر ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب میں انہوں نے صرف امام دارقطنی کے اقوال جمع کیے ہیں۔ چونکہ یہ کتاب سوالات و جوابات کی شکل میں ہے، اس لیے اس کا نام ہی ’کتاب السوالات‘ ہے۔ دارقطنی کے علاوہ ابو نصر السّراج جن کی کتاب اللمع فی التصوف تصوف کی سب سے پہلی باضابطہ تصنیف مانی جاتی ہے، وہ بھی ان کے اساتذہ میں ہیں۔ ان کے علاوہ ابوالقاسم النصر آبادی احمد بن علی بن شاذان ابن حسنویہ،حلیة الاولیاءکے مصنف ابو نعیم اصفہانی، ابو بکر القفال شاشی، ابو عبداللہ محمد بن یعقوب الشیبانی اور بہت فنسے اساتذہ سے انھوں نے اکتساب فیض کیا۔

نورالدین شریبہ نے السلمی کے 28 اساتذہ کا تذکرہ کیا ہے (11) لیکن سلمی کی مختلف کتابوں میں جو روایات ہیں، ان میں کم و بیش سو اساتذہ کا تو یقینا تذکرہ مل جائے گا۔

السلمیٰ نے ابوالقاسم نصر آبادی کے ساتھ بہت وقت گزارا۔ سفر و حضر میں ان کے ساتھ رہے۔انھوں نے ابوالقاسم کے بارے میں لکھا ہے کہ جب بھی ہم کسی نئے شہر میں پہنچتے تو ابوالقاسم مجھ سے کہتے چلو یہاں چل کر حدیث سنتے ہیں(12)۔

تلامذہ

السلمی کے تلامذہ کی تعداد بھی بہت ہے ان کے بعض تلامذہ کو تو شہرت لازوال حاصل ہوئی۔ وہ اپنے اپنےعلم و فن کے میدان میں امام تسلیم کیے گئے۔ ان کے تلامذہ میں حدیث کے مشہور امام امام بیہقی بھی ہیں۔ ان کے علاوہ تصوف کے امام امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ھوازن القشیری بھی ان کے شاگرد ہیں۔ امام ابوالمعالی جوینی نیشا پوری بھی ان کے شاگرد ہیں۔ تصوف کے جلیل القدر امام شاہ ابو سعید ابوالخیر بھی ان کے شاگرد ہیں۔ مستدرک علی الصحجین کے مصنف امام حاکم اصلاً تو ان کے ساتھی ہیں ،لیکن تاریخ نیشا پور میں انھوں نے السلمی سے روایات لی ہیں۔ اس لیے ان کو بھی ان کے تلامذہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ نورالدین شریبہ نے اور بھی بعض اصحاب کا تعارف کرایا ہے، جنھوں نے السلمی سے روایات لی ہیں اس طرح وہ ان کے حلقہ تلامذہ میں شمار ہو تے ہیں۔

سلمی کا مقام و مرتبہ

امام ابو عبدالرحمن السلمی تفسیر اور تصوف کے بڑے امام تھے۔ اگرچہ ان کے زمانے میں متداول دیگر علوم پر بھی اچھی نظر تھی لیکن ان کو زیادہ شہرت انھی دو علوم کی وجہ سے ملی اور ان کی اکثر تصانیف بھی تصوف سے ہی متعلق ہیں۔ سلمی کے بارے میں ان کے معاصرین اور تلامذہ نے جو کچھ لکھا ہے اور بعد کے علماء میں جس طرح ان کے علوم اور ان کی کتابوں کو مقبولیت ملی ہے، اس سے ان کے علمی مقام اور مرتبے کا اندازہ ہوتا ہے۔ السلمی کے ایک معاصر اور استاد اور اپنے وقت کے جید عالم ابو نعیم اصفہانی نے ان کے بارے میں لکھا ہے:

”سلمیٰ ان لوگوں میں سے تھے جن کو صوفیہ کے مذہب میں کامل درک حاصل تھا اور انھوں نے تصوف کو اسلاف اولین کے اقوال کی روشنی میں بیان کیا۔ ان کے طریقے کا اتباع کیا اور ان کے آثار و کتب سے وابستہ رہے جاہل اور نفس پرست صوفیہ نے تصوف میں جو اضافہ کیے ہیں وہ ان سے دور تھے اور ان پر تنقید بھی کرتے تھے۔ اس لیے کہ ان کی نظر میں تصوف کی حقیقت اتباع رسول ﷺمیں مضمر تھی۔“ (13)

خطیب بغدادی نے لکھا ہے:

”ابو عبدالرحمن کا مقام و مرتبہ ان کے اہل شہر میں بہت بلند تھا اور صوفیہ کے درمیان ان کی بڑی حیثیت تھی۔ ساتھ ہی وہ حدیث کے بھی عالم تھے۔ انھوں نے مشائخ حدیث سے روایات جمع کیں اور کتابیں لکھیں۔ نیشا پور میں ان کا ایک دائرہ [خانقاہ] اب بھی ہے جس میں صوفیہ رہتے ہیں، میں خود وہاں گیاتھا اسی دائرہ میں ان کی قبر ہے میں نے قبر کی زیارت بھی کی۔ (14)

امام ذہبی نے لکھا ہے:

”سلمی خاص و عام، موافق و مخالف، حکمراں و رعایا، سب کے درمیان اوران کے اپنے شہر میں اور بلاد اسلامیہ کے ہر شہر میں یکساں مقبول تھے اور اسی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔“ (15)

حافظ عبدالغافر نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے:

”ابو عبدالرحمن اپنے عہد میں طریقہ تصوف کے شیخ تھے۔ ان کو تمام علوم کے حقائق اور طریقہ تصوف کی معرفت حاصل تھی۔ انھوں نے فن تصوف میں بڑی نادر کتابیں لکھیں اور انھوں نے ایسا کتب خانہ تشکیل دیا کیا تھا کہ ان سے قبل کوئی بھی ایسا کتب خانہ تیار نہ کر سکا۔“(16)

السلمی پر تنقید

السلمی کے بارے میں ان کےبعض معاصرین اور خاص طور پر محدثین نے تنقید کی ہے۔ محمد بن یوسف النیشا پوری القطان کہتے ہیں کہ ابو عبدالرحمن غیر ثقہ ہیں۔ انھوں نے اصم سے صرف چند باتیں ہی سنی تھیں لیکن امام حاکم ابو عبداللہ بن ربیع کی وفات کے بعدتاریخ یحییٰ بن معین کی مدد سے اصم کی روایات بیان کرنے لگے اور ان کے سوا بھی بہت سی باتیں بیان کرنے لگے اور وہ صوفیہ کے لیے حدیثیں وضع کیا کرتے تھے۔ (17)

شذرات الذہب میں بھی یہی بات اختصار کے ساتھ آئی ہے۔ (18)

ذہبی نے بھی ان کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگرچہ امام بیہقی، قاسم بن الفضل الثقفی اور محمد بن یحییٰ المزکی نے ان سے روایات لی ہیں، لیکن حدیث کے معاملے میں وہ ضعیف ہیں۔ (19) لیکن امام ذہبی نے ان کا دفا ع بھی کیا ہے اور محمد بن یوسف القطان کے اس اعتراض کاجواب دیا ہے اور لکھا ہے کہ السلمی نے سوالات دارقطنی لکھی ہے جس میں رواة اور مشائخ کے بارے میں ماہرانہ سوالات کیے ہیں۔ (20) لیکن ساتھ ہی ذھبی اس کا بھی اعتراف کیا ہے کہ السلمی کی کتابوں میں موضوع روایات و قصص ہیں۔ البتہ ایک موقع پر یہ بھی لکھا ہے کہ ا لسلمیٰ جھو ٹی روایات خود بیان نہیں کرتے بلکہ محمد بن عبداللہ الرازی الصوفی وغیرہ سے روایات لیتے ہیں جو باطل ہیں۔ (21)

السلمیٰ پر دوسری تنقید ان کی تفسیر کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ ذہبی نے حدیث کے معاملے میں یک گونہ سلمی کی حمایت کی ہے۔ لیکن تفسیر کے سلسلے میں لکھا ہے کہ اس میں کوئی بات درست نہیں ہے اور بعض ائمہ نے اس کو زندقہ کہا ہے۔ اگرچہ بعض نے اس کو حقیقت و معرفت سے بھی تعبیر کیا ہے۔ امام ابوالحسن الواحدی جو خود بھی بڑے مفسر قرآن ہیں،و ہ ان کی تفسیر کے بارے میں فرماتے ہیں:

”فان اعتقدان ذلک تفسیر فقد کفر۔“(22)۔ (اگر یہ ان کا اعتقاد بھی ہے کہ یہ تفسیر ہے تو انہوں نے کفر کیا)

امام واحدی کی تنقید خاصی مبالغہ آمیز ہے۔ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ لطائف الاشارات میں مذکور تفسیری آرا اول تو السلمی کی نہیں ہیں، بلکہ وہ دیگر صوفیہ کی آرا ہیں۔ السلمیٰ نے ان کو جمع کر دیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس میں کفریہ کوئی بات نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تفسیر بالرائے ہے۔

لطائف الاشارات پر علما نے سخت تنقید کی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ہر زمانے میں علما کی ایک جماعت نے اس تفسیر کو قبولیت کی نظر سے بھی دیکھا ہے اور بڑے اہتمام سے اس کے مطالعے کی روایت رہی ہے۔ مصنف کی حیات میں ہی بغداد و مصر میں اس کا باضابطہ سماع ہوتا تھا۔ کئی دوسرے علما اور بعض امرا نے اس کتاب کے نسخے تیار کروائے اور مصنف کو انعام و اکرام سے بھی نوازا۔ مصنف کی وفات کے بعد بھی یہ تفسیر لوگوں کے درمیان متداول رہی۔ نورالدین شریبہ نے اس کو ایڈٹ کر کے شائع بھی کیا ہے۔

السلمی پر تنقید کے حوالے سے آخری بات یہ ہے کہ ان پر حدیث وضع کرنے کا الزام محمد بن یوسف القطان نے لگایا ہے اور لیکن ان کا الزام بھی مبہم ہے۔ ان کی تنقید ہے ”وکان یضع للصوفیہ احادیث“ اس طرح کی مبہم تنقید کسی کو متہم کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس لیے خطیب بغدادی جنھوں نے یہ تنقید سب سے پہلے نقل کی ہے، انھوں نے بھی کہا ہے و قدکان مع ذلک صاحب حدیث مجوداً۔ (23) اور طبقات الشافعیہ کے مصنف نے لکھا ہے وابو عبدالرحمن ثقہ ولاعبرة بہذ الکلام (اور ابو عبدالرحمن ثقہ ہیں اور اس قول (قطان کے قول) کا کوئی اعتبار نہیں۔) (24)

القطان نے السلمی پر دوسرا یہ لگایا ہے کہ وہ امام حاکم کی وفات کے بعد یحییٰ بن معین کی تاریخ سے اصم کی روایات بیان کرنے لگے۔ (25) امام حاکم کا انتقال 405ھ میں ہوا۔ اس وقت ابو عبدالرحمن السلمی کی عمر 80 سال تھی۔ کیا یہ توقع کی جا سکتی ہےکہ ایک شخص ساری زندگی زہد و تقوی کی زندگی گزارتا رہے اور بڑھاپے میں ایک معمولی بات کے ذریعے اپنے تمام نامہ اعمال کو سیاہ کر لے۔ اس لیے بظاہر السلمی کو وضع حدیث سے متہم کر نے یا ورسرے اعتراض سے قتہم کر نے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔

تصانیف

ابو عبدالرحمن کے والد بہت کشادہ حال نہیں تھے۔ لیکن ان کے ناناابو عمر دین تجبد امیر آدمی تھے اور ابو عبدالرحمن کی پرورش دراصل ان کے نانا نے کی اور سوائے ابو عبدالرحمن کی والدہ کے ان کے نانا کا کوئی اور وارث نہیں تھا۔ اس لیے ان کی وفات کے بعد ان کے وارث ابو عبدالرحمن ہی ہوئے۔ ابو عمر دین تجدبد کے اثاثے کا تخمینہ تین ہزار دینار لگایا گیا ہے۔ (26) ابو عبدالرحمن نے اس اثاثے کو علم کی خدمت کے لیے وقف کیے رکھا۔ انھوں نے اپنی بڑی لائبریری مرتب کی تھی۔ ذہبی نے لکھا ہے کہ ایسا کتب خانہ ان سے قبل کسی نے جمع نہیں کیا (27) السلمی نے 355ھ کے قریب تصنیف و تالیف کا آغاز کیا اور سات سو اجزا لکھے اور تین سو اجزا احادیث نبوی کے لکھے۔ ان کی تصانیف بہت مقبول تھیں۔ (28) السلمی چالیس سال سے زیادہ تصنیف و تالیف میں مشغول رہے۔ (29)

السلمی کی تصانیف کی تعداد مختلف لوگوں نے مختلف لکھی ہے۔ عام طور پر سو کتاب ہونے کا تذکرہ اکثر مورخین نے کیا ہے۔ ابن العماد نے بھی ان کی تصنیفات کی تعداد سو لکھی ہے۔ (30) تاریخ الاسلام میں ذہبی نے سو سے زیادہ تعداد لکھی ہے۔

السلمی کی تصانیف ان کی زندگی میں ہی بہت مقبول ہو گئی تھیں۔ ان کی تفسیر کو لوگ باضابطہ منبر قائم کر کے سنا کرتے تھے۔ ذہبی نے لکھا ہے:

”ان کی تصنیفات بہت مقبول تھیں اور لوگ ان کو بہت پسند کرتے تھے اور بڑی گراں قیمت پر خریدتے تھے اور ان سے ان کی تصنیفات روایت کرتے تھے۔“ (31)

ابو عبدالرحمن سلمی نے تفسیر، تصوف اور اسماءالرجال میں متعدد کتابیں لکھیں۔ فواد سیزگین نے ان کی حسب ذیل کتابوں کا تذکرہ کیا ہے۔

1-      حقائق التفسیر

2-      طبقات الصوفیہ: یہ تصوف کی اہم ترین کتابوں میں سے ہے۔ شیخ الاسلام عبداللہ انصاری نے اس کا آزاد فارسی ترجمہ اور اس پر اضافے کیے ہیں یہ ترجمہبھی طبقات الصوفیہ نام سے شائع ہوا ہے۔

3-      مناھج العارفین۔ یہی کتاب سلوک مناھج العارفین کے نام سے بھی ملتی ہے۔

4-      جوامع آداب الصوفیہ۔

5-      عیوب النفس و مداوا تھا۔ ابن زروق البرنسی نے اس کی منظوم شرح بعنوان ’الانس فی عیوب النفس‘ لکھی ہے۔

6-      رسالة الملامتیة

7-      درجات المعاملات

8-      آداب الصحبة و حسن العشیرة

9-      آداب الفقر و شرائطہ

10-    الفرق بین علم الشریعہ والحقیقة

11-    مسالة درجات الصالحین

12-    غلطات الصوفیہ

13-    بیان زلل الفقراءو مواجب آدابھم

14-    کتاب الفتوة

15-    سلوک العارفین

16-    مقدمہ فی التصوف

17-    بیان احوال الصوفیہ

18-    تہذیب الناسخ والمنسوخ فی القرآن لابن شہاب زہری

19-    الاربعون فی اخلاق الصوفیہ

20-    مسائل وردت من مکہ

21-    وصیة

22-    آداب الصوفیہ

23-    کتاب السماع

24-    حدیث السلمی

25-    سوالات للدارقطنی عن احوال المشائخ والرواة

26-    مقامات الاولیائ

27-    الرد علی اھل الکلام

28-    الفرق بین الشریعہ والحقیقہ

29-    الفتوة

ان کے علاوہ سلمی کی بعض تصانیف اور بھی تھیں لیکن، وہ ضائع ہو گئیں۔ ان کی ضائع شدہ تصانیف حسب ذیل ہیں۔

1-      کتاب الزہد: اس کا تذکرہ خود سلمی نے طبقات الصوفیہ میں کیا ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے ارباب الاحوال یعنی صوفیہ سے قبل کے صحابہ، تابعین اور تبع تابعین میں سے زہاد کا تذکرہ کیا ہے۔ (32)

2-      آداب التغازی: اس کا تذکرہ حاجی خلیفہ نے کیا ہے۔

3-      الاستشہادات: اس کا تذکرہ ابن الجوزی نے مراة الزمان میں کیا ہے۔

4-      امثال القران: اس کا تذکرہ حاجی خلیفہ نے کشف الظنون ص 1634 اور ابن الجوزی نے کیا ہے۔

5-      تاریخ اہل الصفہ: ابو نعیم اصفہانی نے اس کو اپنی کتاب حلیة الاولیاءمیں پورانقل کیا ہے۔ اور الہجویری نے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے۔

6-      تاریخ الصوفیہ: طبقات الصوفیہ کے علاوہ ایک اور کتاب تھی جو اس سے پہلے لکھی تھی۔ اس کے اقتباسات بعض کتابوں جیسے تاریخ الاسلام ذہبی، نفحات الانس جامی میں ملتے ہیں۔

7-      جوامع آداب الصوفیہ

8-      محن الصوفیہ: اس کا تذکرہ ذہبی نے ذوالنون مصری (33) کے ضمن میں کیا ہے۔

9-      مقامات الاولیائ: اس کا تذکرہ حاجی خلیفہ نے کشف الظنون میں اور ابن عربی نے محاضرات الابرار میں کیا ہے۔

10-    الاخوة والاخوات من الصوفیہ: اس کتاب کا تذکرہ خطیب بغدادی نے بکیر بن دراج کے ضمن میں کیاہے۔

11-    تاریخ الصوفیہ: یہ طبقات الصوفیہ کے علاوہ کوئی کتاب تھی۔ ذہبی نے اس کا تذکرہ کیا ہے۔

12-    سنن الصوفیہ: ابن جوزی ت نے تلبیس ابلیس میں اس کا ذکر کیا ہے۔

13-    ذکر النسوة المتعبدات الصوفیات

تاریخ تصوف میں سلمی کا ایک معرکہ آرا کام ’ذکر النسوة المتعبدات الصوفیات‘ہے یہ مختصر سی کتاب در اصل صوفی خواتین کے تذکرے کے لیے مختص ہے۔ اس میں انھوں نے کم و بیش 80 صوفی خواتین کا تذکرہ کیا ہے۔ خاص صوفی خواتین کے تذکرے پر یہ پوری میراث اسلامی کی واحد دستیاب کتاب ہے۔ اس سے شاعرات کے تذکرے پر ابو الفرج اصفہانی کی کتاب تو ملتی ہے لیکن اور کسی موضوع پر صرف خواتین کے بارے میں کوئی مستقل تصنیف نہیں ملتی۔ سلمی نے اس کے علاوہ ایک کتاب اور بھی لکھی تھی، جس کا نام ’الاخوہ والاخوات من الصوفیہ‘ تھا۔ لیکن یہ کتاب ضائع ہو گئی۔ زیر نظر کتاب اگر چہ محققین کے سامنے ہمیشہ رہی اور تاریخ کے پورے دورانیہ میں اس کے حوالے ملتے رہے ہیں۔لیکن عوام کے درمیان اس کا ذکر زیادہ نہیں رہا۔اس کتاب کا واحد دستیاب مخطوطہ جامعة الملک محمد بن سعود الاسلامیہ ریاض ( سعودیہ عربیہ) کے کتاب خانے میں محفوظ ہے۔ یہ نسخہ 474ھ کا لکھا ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس کی کتابت کم و بیش ایک ہزار سال پہلے ہوئی تھی۔اس نسخے کو سامنے رکھ کر ڈاکٹر محمود محمد الطناحی نے اس پر مفید حواشی کے اضافے کے ساتھ اس کو شائع کیاتھا۔ اس کے بعد مصطفی عبد القادر عطا نے طبقات الصوفیہ کے ساتھ شامل کر کے اس کو دوبارہ شائع کر دیا ہے۔

وفات

 ابو عبدالرحمن السلمی کی وفات اتوار کے دن 3 شعبان 412ھ، 1012 میں ہوئی۔ (34)

حواشی:

(1) شمس الدین ذھبی:سیر اعلام النبلا موسسة الرسالة بدون سنہ ص 24817

(2) عبد الرحمن جامی:نفحات الانس تحقیق محمود عابدی، طبع اصفہان ص317

(3) ابو عبدالرحمن السلمی:ذکر النسوة المتعبدات الصوفیات ڈاکٹر محمود محمد الطناحی مکتبہ الخانجی قاہرہ 1993ء ص34

(4) سیر اعلام النبلاص 17/249

(5) سیر اعلام النبلاص 12/247

(6) نفحات الانس ص317

(7)سیر اعلام النبلا ص17/217

(8) خطیب بغدادی:تاریخ بغداد تحقیق الدکتور بشار العواد،ص13/120

(9)سیر اعلام النبلا ص17 /247

(10)تاریخ بغدادص 2/ 24

(11) ابو عبدالرحمن السلمی:طبقات الصوفیہ تحقیق مصطفی عبد القادر عطا ، طبع دوم 2003ء مقدمہ 19۔ 24

(12)سیر اعلام النبلا17/249

(13) ابو نعیم اصفہانی:حلیة الاولیاءدار الفکر بیروت بدون سنہ، ص 252

(14)تاریخ بغدادص 433

(15)سیر اعلام النبلا ص 24817

(16)شمس الدین ذھبی: تاریخ الاسلام تحقیق ڈاکٹر عمر عبدالسلام تدمری، طبع دوم 1990 ص 30528

(17) ابن الجوزی:المنتظم ص68

(18)  ابن العماد:شذرات الذھب دارالمسیرة بیروت طبع دوم 1979،ص1963

(19)سیر اعلام النبلا 25017

(20)سیر اعلام النبلا 25217

(21)سیر اعلام النبلا ص 25517

(22) ایضا

(23)تاریخ بغداد، ص 2482

(24)طبقات الشافعیہ، 613

(25)تاریخ بغداد، 4337

(26)سیر اعلام النبلا 24927

(27)تاریخ الاسلام، ص 30528

(28)سیر اعلام النبلاص 24717

(29)تاریخ الاسلام، ص 30528

(30)شذرات الذھب، ص 1963

(31)سیراعلام النبلائ، ص 24817

(32)طبقات الصوفیة، ص 3

(33)سیراعلام النبلاءص 53411

(34)تاریخ بغداد، ص 443

(مضامین ڈیسک)

تبصرے بند ہیں۔