تقریر دل پذیر کے مضمرات

ابوفہد

ہمارے یہاں برصغیر میں ایک  بہت ہی بری بدعت چل نکلی ہے۔ اوروہ یہ  ہے کہ  برصغیر کے مذہبی وسیاسی مقررین جب اسٹیج پر مائک سنبھالتے ہیں توپھر اسے چھوڑنا بھول جاتے ہیں۔وہ بولتے ہیں اور بے تکان بولتے ہیں۔ اگر ہم مسلم مبلغین کی بات کریں تو لاطائل مباحث، بے مصرف لفاظی اور غیر ضروری  بلکہ ضررر ساں شیخی وشوخی کی طویل تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ کہنا شاید بجا ہوگا کہ ان مبلغین کی بے تکان بولنے والی عادت نے بھی امت کو خاصہ نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے  وحی متلو اور غیر متلو کے متن کی تشریح و تعبیر میں غیر ثقہ قصے و کہانیوں کو  جگہ دی  اور بعض ایسے مباحث کا اور دلائل کا احیاء کیا بلکہ اس سلسلۂ نا مسعود کو اس حد تک دراز تر کیا کہ امت پر اصل اور نقل کی شناخت  بھی مشتبہ ہوکر رہ گئی۔میری اس بات میں کم ا زکم جزوی صداقت ضرور ہے۔

آخر کوئی تو وجہ  رہی ہوگی کہ رسالت مآب ﷺ نے دس پندرہ  منٹ کے وقفے سے زیادہ کبھی کوئی خطبہ نہیں دیا، کبھی کوئی وعظ نہیں کہا۔ یہاں تک کہ 10 ہجری میں جب آپ ﷺ نے آخری حج ادا فرمایا اور اس موقع پر آپ ﷺنے چھوٹے بڑے کئی خطبات دئے، ان میں سے آپ ﷺ نے کسی کو بھی گھنٹےبھر تو خیر کیا، آدھے گھنٹے تک بھی طویل نہیں کیا۔ جبکہ یہاں  قادرالکلامی کی تنگ دامنی کا شکوہ نہ تھا، آپﷺ کے سینۂ اطہر میں مضامین ومباحث  کے سوتے ابھی خشک نہ ہوئے تھے، جسم میں طاقت و جوش باقی تھا اور آسمان سے رشتہ ابھی بھی استوار تھا۔اور دوسری طرف سامعین کی طرف سے  بھی کسی طرح کی  جلد بازی  کا کوئی اشارہ بھی نہیں ملا تھا۔ وہ گوش برآواز تھے اور مشتاق تھے، ان کا بس چلتا تو رات و دن مسلسل آپ ﷺ کے زبان مبارک سے ادا ہونے  والے الفاظ سنتے رہتے اور انہیں حرجاں بنائے رکھنے میں اپنا تن من اور دھن سب کچھ وار دیتے۔ خاص کر ِاس وقت جب آپﷺ دنیا سے تشریف لے جانے والے تھے، کہ اس وقت ان کا شوقِ دیدار اور ذوق سماعت مزید قوی ہوگیا تھا، بالکل اسی طرح جس طرح کوہِ طورپر پہنچنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام  کا شوق دیدار گویا بھڑک اٹھا تھا۔ اللہ رب العزت نے ذرا سا کیا پوچھ لیا کہ موسیٰ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے تو موسیٰ شروع ہوگئے، انہوں نے بس اتنا جواب دینے پر اکتفا نہیں کیا کہ یہ لاٹھی ہے، بلکہ اس کے فوائد بھی گنوانے لگے۔ اور ایسا  وفور شوق کی علت کی وجہ سے کیا۔  بقول اقبال : ’’من از شوق حضوری طول دادم داستانی را‘‘۔

 مگر آپ ﷺنے اس موقع پر بھی  یعنی حجۃ الوداع کے موقع پر بھی ایسا نہ کیا۔ جبکہ خاص کر اس وقت ایسا کرنے کے کئی جواز تھے۔ ایک جواز تو کم از کم یہی تھا کہ اب  آپ ﷺ دنیا سے رخصت ہونے والے تھے اوربقول   مینائی: ’’ا میرؔ جمع ہیں احباب دردِ دل کہہ لے‘‘پھر آپ کو دوبارہ ایسا موقع ملنے والا نہ تھا،آپ چاہتے تو اس موقع پر اپنا دل نکال کر رکھ دیتے، دین کی ساری باتوں کی طرف توجہ دلاتے اور قرآن کےحکم ’’وذکر فان الذکریٰ تنفع المؤمنین‘‘ کی تعمیل میں کم از کم دین متین کے تمام اساسی احکام اور اَوامر و منہیات کو یاد دہانی کے طورپر دوبارہ بیان فرماتے۔ مگر آپ ﷺنے ایسا نہیں کیا اور صرف خاص خاص باتوں کی طرف ہی توجہ دلانا کافی سمجھاجبکہ ان میں سے کئی باتیں آپﷺ اس سے قبل بھی بیان فرما چکے تھے۔

میرا اپنا یہ ماننا ہے کہ خواہ کوئی بھی ہو، خواہ وہ اپنے وقت کا علامہ ہی کیوں نہ ہو اگر وہ ڈیڑ ڈیڑ اور دو دو گھنٹے تک اپنی تقریر دل پذیر کو جاری رکھے گا اور عمر  بھر کو محیط  طویل زمانی دورانئے تک جاری و ساری رکھے گا یا ایسی کوشش کرے گا،تو من جملہ کچھ درست اور اچھی باتوں کے کم از کم نصف یا اس سے کچھ کم غیر ضروری بلکہ بے سرپیر کی باتیں بھی اس کی زبان پر از خود آجائیں گی۔

شاید ایسا بھی ہے کہ اسی لذت تقریر کی بری لت یعنی عادت پڑجانے کی وجہ سے ایسا ہوا کہ ہمارے یہاں جعلی قصے کہانیوں کا ایک سیلاب سا آگیا۔وہ جو جالندھری صاحب نے فرمایا: ’’تمنا مختصر سی ہے مگر تمہید طولانی‘‘ ہمارے واعظوں کو بھی مختصرسی بات یا چھوٹے سے نکتے کی وضاحت کے لیے لمبی چوڑی تمہید کا سہارا لینا پڑا، کیونکہ وقت کو کسی نہ کسی طرح تو بھرنا ہی تھا۔ڈیڑھ دو گھنٹے طویل زمانی مسافت کو تقریرِ دل پذیر کے ذریعے طے کرنے کے لیے لاکھوں الفاظ اور جملے درکار ہوں گے اور اس کے لیے ڈھیر ساری دلیلوں اور حوالوں کی ضرورت ہوگی جو عموما مبلغین کے پاس نہیں ہوتے۔ اورجب طویل تقریروں کا چلن عام ہوگیا تو یوں بھی ہوا کہ ہمارے واعظوں کے لیے قرآن وحدیث کا بیانیہ  گویا کم پڑگیالہذا انہوں نے اُس پر دوسرے خود ساختہ  اور غیر معتبر بیانیوں کا بھی اضافہ کرنا شروع کردیا۔

تقریردل پذیر کی تمہیدِطولانی اور لمبی چوڑی بساط پر یہ سب تو ہوتا ہی ہے، اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے، جس کا نفس موضوع سے کچھ زیادہ تعلق نہیں ہوتا،یہ تقریریں زیادہ تر منفی بیانئے میں چلی جاتی ہیں اور تبرا بازی کا بازار گرم رکھتی ہیں۔ آپ طویل تقریروں کا جائزہ لے کر دیکھیں، شاید ہی کوئی تقریر اپنوں اور غیروں پر سب وشتم اور تبرا بازی سے خالی ہو۔ان تقریروں کا اگر ہم جائزہ لیں تو ان میں ہمیں واضح طور پر یہ تین چارچیزیں ملیں گی: 1۔ غیر ضروری تمہید2۔ نفس موضوع پر قرآن وحدیث کا مواد3۔ اپنے فرقے اور مسلک کی تبلیغ، تلقین اور دفاع4- دوسرے مسلک کی تنقید بلکہ تنقیص اور نمبر5 ساری دنیا کے مسلمانوں کو اتحادو اتفاق کی دعوت۔یعنی پہلے اختلا کی بات اور پھر اتحاد کی دعوت۔

ان عناصر کے علاوہ ایسی تقریروں میں ایک غالب عنصر تکرار کا بھی شامل ہوتا ہے۔ طویل تقریریں کرنے والے اکثر لوگ منتخب اور دل پسند باتوں اور نکتوں کو باربار بیان کرتے ہیں، کبھی تو اسلوب اور پیرایہ بدل کر ایسا کرتے ہیں اور کبھی اس کی بھی ضرورت نہیں سمجھتے۔ان  میں نہ صرف خیال کی تکرار ہوتی ہے بلکہ الفاظ،جملوں اور اصطلاحات کی بھی تکرار ہوتی ہےکئی بار تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ’گفتہ آید در حدیث دیگراں‘‘ کے مصداق وہ اپنی رام کہانی لے کر بیٹھ جاتے ہیں، میں وہاں گیا تو میں نے یہ کہا اور وہاں گیا تو یوں کیا۔ اور اس سب کے پس پردہ علت وہی ہے کہ ان کا علم اور حافظہ وقت کے طویل دورانئے کا ساتھ نہیں دیتا۔

البتہ  ہماری  تعلیمی وتبلیغی روایات میں ’خطبات ‘کی جو تاریخ یا روایت رہی ہے وہ اس تحریر کے   دائرہ اعتراض سے باہر ہے۔خطباتِ شبلی،خطبات  مدراس، خطبات بھاولپور، تعلیمی خطبات، خطبات گارساں دتاسی، خطبات حکیم السلام ‘اور ان جیسے دیگر خطبات کی بات الگ ہے۔کہ وہ تقریر دل پذیر کے دائرے میں نہیں آتے۔

میرے خیال میں یہاں سیاسی تقریروں کی تو بات ہی کرنا غلط ہے کیونکہ سیاسی لوگوں کی تو مختصر تقریریں بھی مخالف پارٹیوں کی مخالفت سے شروع ہوتی ہیں اور ان کی مخالفت پر ہی ختم ہوجاتی ہیں۔ اس کے پیچھے سیاسی لوگوں کے کئی ہدف ہوتے ہیں۔

1 تبصرہ
  1. MAZHAR MOHIUDDIN کہتے ہیں

    بہت خوب جناب ابو فہد صاحب، جزاک اللہ. اس موضوع پر قلم اٹھا کر آپ نے ان واعظین کو آئنہ دکھایا ہے جو صرف اور صرف لمبی چوڑی تقریر کو ہی دین کی خدمت سمجھ بیٹھے ہیں اور’ لفظی عیاشی’ میں مبتلا ہیں. وہ بیچارے اپنی دانست میں یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اگر وہ مختصر وہ جامع کلام کریں گے تو کوئی انہیں عالم نہیں گردانے گا. میرا مشورہ ہے کہ آپ کے اس مضمون کو پامفلٹ کی شکل میں چھاپ کر ذیادہ سے زیادہ واعظین تک پہنچایا جائے. تاکہ ہمارے واعظین جامع اور مختصر و جامع کلام کے عادی بنیں.

تبصرے بند ہیں۔