13 اگست کا معرکہ

محمد عرفان ندیم

13اگست 2018کا دن پاکستانی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، ادارے اپنا فیصلہ سنا چکے لیکن تاریخ کا فیصلہ ابھی باقی ہے۔ حتمی فیصلہ بہر حال تاریخ کو کرنا ہے کہ اس دن کا ونر اور ہیرو کون تھا۔ 13اگست کے دن اس وقت جب عمران خان حلف اٹھانے کے لیے قومی اسمبلی آ رہے تھے عین اسی وقت نواز شریف کو بکتر بند گاڑی میں بٹھا کر اسلام آباد ہائی کورٹ میں لایا جا رہا تھا۔ میڈیا، دانشوروں، کالم نگاروں اور تحریک انصاف کے حامیوں نے خوب تبصرہ بازی کی کہ دیکھیں مجرم اعظم اپنے انجام کو پہنچا اور عمران مسند اقتدار پر۔ میرا ماننا مگر یہ ہے کہ دنیا ابھی ختم نہیں ہوئی، کل قیامت نہیں آنے والی کہ پچھلے پانچ سال سے جاری کشمکش کا یہ آخری دن تھا، دنیا ابھی باقی ہے اور اللہ کا اپنا نظام ہے۔

 وہ جیل سے نکال کر مسند اقتدار پر بٹھادیتا ہے اور بظاہر کامیاب ہونے والوں کو ذلیل و رسوا بھی کر دیتا ہے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تاریخ سے سبق سیکھنا ذرامشکل ہے۔ کہنا مجھے یہ ہے کہ معرکہ ابھی ختم نہیں ہوا، نواز شریف اور عمران خان دونوں کے بیانیوں کی ابھی ابتدا ء ہے، عوام ابھی ٹھیک سے سمجھ نہیں پائے کہ کس کا بیانیہ کیاہے، شاید انہیں سمجھنے کا موقعہ بھی نہیں دیا گیا۔زرا وقت گزرنے دیں، جب سماجی شعور اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ دے تب کسی کویہ ماننے میں تردد نہیں ہوگا کہ مجرم اعظم اپنے انجام کو پہنچاا ور عمران منزل مراد پر۔

عمران خان اور نواز شریف کا بیانیہ کیا ہے دانشوری کی سطح پر یہ معاملہ حل ہو چکا۔ دانشور طبقہ جان چکا وہ الگ بات ہے کہ اس کے اظہار کی جرائت کسی کسی میں ہے۔جلد یا بدیر آخر ہمیں ایک دن اس بیانیے کی طرف آنا ہے لیکن بعد از خرابی بسیار۔ کاش یہ قوم جو پہلے ہی ستر سال ضائع کر چکی مزید انتظار سے بچ پائے بظاہر مگرا یسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ ابھی مزید وقت ضائع ہو گا لیکن اس کے نتائج و ثمرات کیا ہوں گے شاید ہم اندازہ نہیں کر سکتے۔

نواز شریف کو تاریخ نے یہ موقعہ دیا ہے کہ وہ تاریخ میں زندہ رہیں اب انہیں اپنے طرز عمل سے ثابت کرنا ہو گا کہ وہ کس راستے کا انتخا ب کرتے ہیں۔ اب تک وہ جس راستے پر چلتے آئے ہیں اس پر اگر شرح صدراور اطمینان قلب ہے تو ڈٹ جائیں۔ انہیں اس بات کی پروا نہیں ہونی چاہئے کہ اس قافلے میں کو ن  ان کے ساتھ شریک سفر ہے، اپنے گھر والے بھی ساتھ چھوڑ دیں تو دل برداشتہ نہ ہوں کہ یہ عزیمت کا راستہ ہے اور اس پر چلنے والوں کو اس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ لیڈر ہی کیا جو کسی ہمسفر کے انتظار میں عمر ضائع کر دے۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ اپنی زندگی میں ہی منزل مقصود حاصل کر لیں، بسا اوقات ایسے کاموں کے لیے عمریں بیت جاتی ہیں آپ کو اگر اپنے بیانئے پر شرح صدر اور اطمینان قلب ہے تو چل نکلیں کہ منزل مراد کو پانے کے لیے یہ زاد راہ کافی و شافی ہے۔

میں نے 13اگست کے دن عمران خان اور نواز شریف کی ویڈیوز کو با ر با ر اور غور سے دیکھا، ایک طرف رضا بالقضا، عاجزی و انکساری تھی اور دوسری طرف نخوت و گھمنڈ سے بھرپور مسکراہٹ۔ ایک طرف صبر و تحمل تھا اور دوسری طرف ہیجان،دشنام،الزام تراشی اور زبان درازی۔ سچی بات یہ ہے اس دن مجھے  اندازہ ہوا کہ عمران خان کس قدر بے بس ہے۔ چہرے پر حواس باختگی کے آثار اور گہری سوچ میں ڈوبا عمران خان اس دن اسمبلی ہال میں بیٹھ کر سو چ رہا تھا  میں یہاں پہنچ تو گیا مگر کروں گا کیا۔ جو خواب میں نے دکھائے تھے اور جو بیج میں نے بوئے تھے اب ان کی کاشت کا وقت آ پہنچا ہے، یہ سوچ کر عمران خان ہلکان ہو رہے تھے اور یار لوگ اس کی عاجزی و انکساری کے گیت گا رہے تھے۔ اب بھی عمران خان پر مسلسل یہ کیفیت طاری ہے، وہ الیکشن کے بعد سے عجیب کشمکش کا شکار ہے، باڈی لینگوئج اور چہرے کے تاثرات اس کی اندرونی کیفیت کی عکاسی کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ اب تک اہم فیصلے نہیں کر پایا۔ ایک ضدی بچے کی طرح ضد تو پوری کر لی لیکن اب کرنا کیا ہے اور عوام کو کیا منہ دکھانا ہے یہ سوال خان صاحب کو مسلسل پریشان کیئے ہوئے ہے اور یہی ان کی خاموشی،عاجزی اور حواس باختگی کا اصل راز ہے۔

میری کسی سیاسی جماعت سے وابستگی نہیں لیکن میرا ضمیر مجھے مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے پر اکساتا ہے۔ نیب نواز شریف پر کرپشن کا الزام ثابت نہیں کر سکی، صرف آمدن سے زائد اثاثہ جات کی بنیاد پر انہیں سزا سنائی گئی۔ پاکستان میں ایسے ہزاروں افراد ہیں جو آمدن سے زائد اثاثوں کے مالک ہیں لیکن آج تک ان سے کسی نے نہیں پوچھا۔ ایک معقول اور باشعور انسان اس فیصلے سے اتفاق نہیں کر سکتا۔ ماننا لازم مگر اتفاق کرنا ضروری نہیں۔

 عمران کا ماضی مجھے اس کے حق میں لکھنے سے مانع ہے۔ عمران خان نے پچھلے پانچ سال میں جس سیاسی انتہاء پسندی، ہیجان اور لعن طعن کی سیاست کی میں اس سب کو جانتے ہوئے کیسے اس کے حق میں لکھ سکتا ہوں۔ کہا جاتا ہے ماضی کو بنیاد نہیں بنایا جا سکتا ہے، میرا ماننا مگر یہ ہے کہ میں کسی شخص کے ماضی اور اس سے وابستہ تجربات کی بنیاد پر ہی اس کے بارے میں رائے رکھ سکتا ہوں، مستقبل کا مجھے ادراک نہیں لیکن میں اس کے ماضی سے گزر چکا ہوں اورماضی سے وابستہ تجربات کی بنیاد پر حال میں اس رائے کے اظہار کا حق رکھتا ہوں۔ عمران کا اگلا سفراور اس سے وابستہ تجربات میری راہنمائی کریں گے کہ مستقبل میں مجھے اس کے بارے میں کیا رائے رکھنی ہے۔

سر دست جو میں دیکھ رہا ہوں عمران خان کا رویہ کسی طور ایک معقول آدمی کا رویہ نہیں، وہ اپنی پہلی تقریر میں پارلیمنٹ میں جس انداز سے گرجا لگتا تھا وہ ڈی چوک کے کسی کنٹینر میں کھڑے ہو کر با ت کر رہا ہے۔ جذبات، ہیجان اور لہجے کی کرختگی مجھے نہیں امید وہ اپنا جارحانہ پن بدل سکے گا، مشکل مگر یہ ہے کہ اس رویے اور لہجے کے ساتھ دھرنے تو دیئے جا سکتے ہیں ملک نہیں چلایا جا سکتا۔ عمران خان کو بلاول سے سیکھنے ضرورت ہے، بلاول نے جس تہذیب، شائستگی اور نرم لہجے میں بات کی اس سے اس کا سیاسی قد، ایک ہی دن میں کئی گنا بڑھ گیا۔

13اگست کا معرکہ برپا ہو چکا، ادارے اپنا فیصلہ سنا چکے تاریخ کا فیصلہ مگر ابھی باقی ہے۔ معرکہ ابھی ختم نہیں ہوا کہ عمران خان اور نواز شریف کے بیانیوں کی ابھی شروعات ہیں۔ بیانیوں کی قبولیت و عدم قبولیت کے لیے عرصہ درکار ہوتا ہے، اس لیے ابھی سے فیصلہ صادر کردینا کہ مجرم اعظم اپنے انجام کو پہنچا اور عمران خان مسند اقتدار پرقبل از وقت کی راگنی ہے۔صورتحال اس وقت یہ ہے کہ ایک طرف باپ بیٹی، عاجزی و انکساری کی مثال بنے، رضا بالقضا کو قبول کیئے صبر کے ساتھ، جیل کی کوٹھری میں بندتلاوت، نوافل، دعا و مناجات، ذکر و اذکار، صدقہ خیرات اور فلاحی کاموں میں مصروف ہیں اور دوسری طرف  نخوت،گھمنڈ، ہیجان، دشنام، لعن طعن اور لہجے کی کرختگی ہے۔ ہمیں انتظار کرنا چاہیے کہ تاریخ کا فیصلہ ابھی باقی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔