تلاش

سالک جمیل  براڑ

ایک ہفتے میں ہی سنیل کے پریوارکی زندگی کتنی بدل گئی تھی۔ اس کی بیوی اوربچے اس نئے گھرکوپاکربے حد خوش تھے۔ انہیں ایسے محسوس ہورہاتھا۔ جیسے وہ دوزخ سے نکل کر جنت میں آگئے ہوں۔ اس نے پچھلے ہفتے ہی یہ گھرکرائے پرلیاتھا۔ سنیل کایہ چھوٹا سا گھرماڈرن طرزکابنا ہوا تھا۔ جس میں ضرورت کی ہرچیز دستیاب تھی۔ اس کے علاوہ اچھّے پڑھے لکھے اورعزت دارپڑوسی اچھّا ماحول جس کی وجہ سے وہ یہاں آبسے تھے۔

رات کے تقریباً دس بج رہے تھے۔ پورامحلہ ایک عجیب سی خاموشی اورسکون میں ڈوبا ہواتھا۔ سنیل نے ہلکی روشنی کا بلب روشن کیااورچادر اوڑھ کر لیٹ گیا۔ آشااوربچے کب سے سو رہے تھے۔ آج وہ بہت زیادہ تھکے ہوئے تھے۔ سامنے بنگلے والی آنٹی انہیں زبردستی آج پکنک پر لے گئی تھی۔ جب سے وہ گھرآئے تھے۔ آنٹی اورڈزنی لینڈ کی ہی تعریفیں کیے جارہے تھے۔

’’کتنی اچھی ہیں ……لکشمی آنٹی………ایک ہفتے میں ہی ان سے کتناگھل مل گئی ہیں۔ ‘‘وہ یہ سوچتے ہی زیرِلب مسکرایا۔

دیکھتے ہی دیکھتے وہ خیالات کے کہرے میں کھوگیا۔ وہ ماضی کی بھول بھلیوں میں جا پھنسا۔ وہ سوچنے لگا۔ کہاں وہ شنکربستی کی ایک کمرے کی مختصر سی دنیا، وہ محلے کے بیچوں بیچ جاتاہوا گندہ نالا، وہ پانی کے نل پرایک لمبی قطار، وہ دیسی شراب اور جوئے کے اڈے، وہ پدمااورلکشمی کے منچلے عاشقوں کاتانتا، وہ ریل گاڑیوں کا کبھی ختم نہ ہونے والا شور، وہ پولیس کی بے وقتی ریڈ، توبہ توبہ دنیا بھرکے غنڈے موالی……ایک دن اپنے بیٹے کے مونہہ سے گندی گالی سن کر وہ بے حد پریشان ہو اٹھا تھا۔ وہ اپنے بچّوں کے مستقبل کولے کر فکرمندرہنے لگاتھا۔ کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ بچّوں کے ذہن کی نشوونمااس کا اردگرد کا ماحول ہی کرتاہے۔ بس پھرکیاتھا۔ اس نے نئے گھر کے لیے بھاگ دوڑ شروع کردی۔ آخرایک لمبی تلاش کے بعد وہ ایک اچھّامکان ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس نے فرسٹ فلورپر ایک فلیٹ کرائے پر لے لیا۔ اس مکان کو حاصل کرنے کے لیے ایڈوانس کے طورپر آشاکے زیور کے علاوہ اوربہت سی قیمتی چیزیں بک گئیں تھیں۔ سنیل کی سوچ کے مطابق سکون سے قیمتی چیزکوئی نہیں۔ یہ سوداگھاٹے کانہیں تھا۔ اچھّا ماحول، اچھّے لوگ، آج کل کہاں ملتے ہیں۔

پھر وہ اپنے نئے پڑوسیوں کے بارے میں سوچنے لگا۔ اس محلے کی نکّڑ پرسب سے پہلا گھر شرماجی کا ہے۔ شرماجی ہائی کورٹ کے بہت ہی قابل وکیل ہیں۔ اس کے ساتھ والاگھر بابو رام پرشاد کا ہے۔ وہ خود توریٹائرڈ آفیسر ہیں۔ لیکن ان کے تین بیٹے سرکاری عہدوں پرفائز ہیں۔ وہ سامنے کا گھرلکشمی آنٹی کا ہے۔ کتنی محنتی عورت ہیں۔ جوانی میں ہی بیوہ ہوگئی تھیں۔ لیکن زندگی سے ہارنہیں مانی۔ اپنی دوبیٹیوں کی اچھّے طریقے سے پرورش کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم دلوارہی ہیں۔ آج شہرمیں مشہورفیشن ڈیزائنر کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ سوسائٹی میں ان کی عزت ہے۔ منتریوں تک ان کی پہنچ ہے۔ اپنی خیالوں میں گم نہ جانے کب سنیل کی آنکھ لگ گئی۔

صبح سویرے ابھی اجالا چمکاہی تھاکہ اچانک ایک دم باہر سے بھاگنے اور بولنے کی آوازوں نے سنیل کوجگادیا۔ اس نے گھڑی دیکھی صبح کے پانچ بج رہے تھے۔ اس نے کھڑکی سے جھانک کر باہر محلے میں نظریں دوڑائیں۔ دیکھا لکشمی آنٹی کے آنگن میں پولیس والے کھڑے ہیں۔ سنیل فرسٹ فلورپررہائش پذیر ہے۔ جہاں سے آنٹی کا آنگن صاف نظرآتاہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے آنٹی اندرسے گھبرائی ہوئی نکلی۔ اس نے پولیس آفیسر کے ہاتھوں میں ایک لفافہ تھمادیا اور وہ چلے گئے۔ سنیل ابھی اسی الجھن میں ہی پھنسا تھا۔ کہ ماجرہ کیاہے کہ کچھ ہی لمحوں کے بعد دونوجوان گھبرائے ہوئے اپنے کپڑے درست کرتے ہوئے آنٹی کے گھر سے باہر نکلے۔

وہ یہ منظر دیکھ کر پریشان ہواٹھا اورایک سوالیہ نشان میں گھرکرسوچنے لگا کہ کیا اب کسی تیسرے گھرکی تلاش کرنا ہوگی۔

تبصرے بند ہیں۔