تلنگانہ عدالت کا فیصلہ اور مسلمان

ذاکر حسین
مکرمی!
گزشتہ روز تلنگانہ عدالت کے ذریعہ پانچ مسلم نوجوانوں کو سزائے موت سنائے جانے کے فیصلے کے بعد سے ملک بھر کی مسلمانوں میں تشویش کی لہر ہے اور ملک بھر میں اندر اندر اس فیصلے کی مذمت ہو رہی ہے لیکن اس مسئلے پر مولانا عامررشادی کے علاوہ کسی نے کھل کرابھی تک بیان نہیں دیاہے ۔چونکہ معاملا عدلیہ کا ہے اس لئے اس پر بہت زیادہ رائے زنی کرنا ٹھیک نہیں ہوگا لیکن اتنا تو کہا جا سکتا ہیکہ اس فیصلے کے خلاف سیاسی اور غیر سیاسی مسلم جماعتوں اور انصاف پسند طبقوں کو بڑی عدالتوں کادروازہ کھٹکھٹانا چاہئے ۔ہمیں پوری امید ہیکہ وہاں سے مثبت فیصلہ آئے گااور مسلم نوجوان باعزت بری ہونگے ۔ انشاء اﷲ۔۔یہ تلخ حقیقت ہیکہ وطن عزیز میں دہشت گردی کے الزام میں مسلسل مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں ملک کے مسلمانوں کیلئے سب سے زیادہ تشویشناک مسئلہ ہے ۔بیشک دہشت گردی ملک اور ہم سب کیلئے ایک فکر انگیز موضوع ہے لیکن دہشت گردی کی روک تھام اور بیخ کنی کیلئے پولس اور کہیں نہ کہیں ملک کی چھوٹی عدالتیں ا ب تک جس طرح کی کارکردگی کی مظاہرہ کر رہی ہیں اس سے ملک کے لوگوں بالخصوص مسلمانوں کے درمیان مایوسی گردش کر رہی ہے ۔ملک میں ایسی کتنی مثالیں ہیں جو پولس کے رویے اور کارکردگی پر سوالیہ نشان لگاتی ہیں لیکن افسوس کی بات ہیکہ ابھی تک متعصب پولس افسران سے مسلم نوجوانوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کے معاملے میں ان سے باز پُرس نہیں کی گئی ہے۔ اگر ملک کے متعصب افسران پر ان کی سرگرمیوں اور انکی حرکات و سکنات پر عدلیہ اورحکومتیں کڑی نظر رکھتیں تو شاید آج حالات اتنی سنگین صورتحال اختیار نہیں کرتے ۔یہ بھی کڑوی حقیقت ہیکہ مسلم قوم کی پسماندگی کی وجوہات میں سے ایک سب سے بڑی وجہ مسلم نوجوانوں کی دہشت گردی کے الزام میں نہ رکنے والی گرفتاری ہے ۔کیونکہ جب مسلم قوم کا کوئی ہونہار اور باصلاحیت نوجوان کامیابی کے زینے طے کرتا ہے تودہشت گردی کے الزام میں اسے گرفتار کرکے اس کے اورپوری قوم کے ارمانوں پر دھندھ کا پہرہ بیٹھا دیا جاتا ہے۔ وطن عزیز میں مسلم نوجوانوں کی فرضی گرفتاریوں کا سلسلہ گھٹنے کے بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔ نیشنل کرائم ریکارڈ س کی ایک رپورٹ اس تشویشناک صورتحال پر روشنی ڈالتی ہے ۔اس رپورٹ کے مبطابق وطن عزیز کی جیلوں میں82,190 مسلم قیدی ہیں ،جس میں 18,550مسلم قیدی عدالت کے زیرِسماعت ہیں۔این سی آر بی کے اعداد شمار کے مطابق مجموعی طور پر سزا یافتہ قیدیوں میں مسلم قیدیوں کا فیصد% 16.38ہے جبکہ زیرِسماعت قیدیوں کے مقابلے مسلم ملزمان کاتناسب % 21.05 ہے ۔اب اگر وقت رہتے ملک مسلمانوں نے اس سنگین مسئلے کا حل نکالنے پر غور وفکر نہیں کیاتو خدشہ ہیکہ تلنگانہ کی طرز پرکہیں دیگر مسلمانوں کوبھی موت کی دہلیز تک نہ پہنچایا جائے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔