تمام امور میں مودی کی پراسرار خاموشی؟

رشید انصاری

        تمام ملکی و غیر ملکی امور میں وزیر اعظم ہند مودی کی خاموشی نہ صرف ناقابل فہم ہے بلکہ مذاق کا موضوع بنتی جارہی ہے۔ جب کسی سے یہ سوال کیا گیا کہ مودی کی حکمت ِ عملی کی بنیاد کس بات پر ہے تو جواب دینے والے نے جواب دیا ’’ہرمعاملہ میں خاموشی‘‘۔ وزیر اعظم غالباً اس بات پر سختی سے عمل کرتے ہیں کہ ایک خاموشی دس بلائوں کو ٹالتی ہے۔ اسی لئے ما ب لنچنگ کا معاملہ ہو یا صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی طرف سے کیا گیا یہ دعویٰ ہو کہ وزیر اعظم مودی نے اِن سے مسئلہ کشمیر پر مصالحت کرانے اور ثالثی کی درخواست کی تھی۔ وزیر اعظم مودی کو ڈونالڈ ٹرمپ کی اِس بات کی سختی سے تردید کرنی چاہئے تھی کہ انہوں نے ٹرمپ سے کوئی ایسی بات کہی ہے۔ یہ تو ایک طرح سے وزیر اعظم ہند مودی کی شبیہ متاثر ہوتی ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ حکومت ہند کی ابتداء ہی سے یہ پالیسی رہی ہے کہ مسئلہ کشمیر پر کسی تیسری فریق کی مداخلت گوارا نہیں کی جائے گی۔ ہندوستان اور پاکستان باہمی گفتگو کے ذریعہ اِس مسئلہ کو اپنے طور پر حل کریں گے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ٹرمپ کے اس دعویٰ کے اعلان کے بعد مودی اپنے طور پر اِس کی الفاظ میں تردید کرتے۔ حکومت ہند کی طرف سے حکومت امریکہ سے احتجاج کیا جاتا کہ غلط بات ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے منسوخ کی گئی ہے لیکن ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا۔ پارلیمان میں حزب مخالف کے ارکان کے شدید مطالبہ کے بعد ایک وزیر خارجہ نے اس بات کی پارلیمان میں تردید کی۔ یہ بات بھی ناقابل فہم ہے کہ مودی اور ٹرمپ کے درمیان جو گفتگو ہوئی تھی اس میں کوئی تیسرا فریق شریک نہیں تھا۔ حکومت ہند کا کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ سفارتی یا انتظامی عہدیدار یا وزیر مودی کی طرف سے کوئی تردیدنہیں کرسکتا ہے۔ بات وزیر اعظم مودی سے متعلق ہے اس لئے وزیر اعظم مودی کو ہی اس کی تردید کا حق بنتا ہے۔ اگر کوئی امریکی وزیر یا سفیر اس قسم کا دعویٰ کرتا ہے تو بیشک حکومت ہند کا کوئی وزیر یا سفیر امریکی دعوئوں کی تردید کرسکتا ہے لیکن صدر امریکہ ٹرمپ وزیر اعظم مودی سے منسوب کرکے کوئی بھی بات کریں تو اس کی تردید صرف اور صرف وزیر اعظم ہند نریندر مودی ہی کرسکتے ہیں بلکہ یہ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کے مرتبہ اور مقام سے مغائر بات ہے کہ ٹرمپ کی کسی ایسی بات جو انہوں نے کچھ کہی ہو کی تردید کوئی وزیر یا اعلیٰ عہدیدار کریں جیسا کہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ مودی نے ثالثی والی بات صرف صدر امریکہ ٹرمپ سے کہی تھی۔ وزیر اعظم مودی نے اپنی طرف سے پارلیمان کے اندر یا پارلیمان کے باہر کوئی تردیدی بیان نہیں دیا۔ باور کیا جاتا ہے کہ امریکہ نے یہ بات وزیر اعظم پاکستان عمران خان جو اس وقت امریکہ کا دورہ کررہے تھے کو خوش کرنے کے لئے کی تھی۔ ہمارے میڈیا نے بڑے مستند انداز میں دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ میں عمران خان کو کچھ حاصل نہیں ہوگا لیکن ایسا ہوا نہیں بلکہ ٹرمپ کے بیان سے پاکستان کو خاصہ سیاسی فائدہ پہنچا ہے۔ مودی کی ایک خاموشی نے ثالثی والی ٹرمپ کی بات میں وزن پیدا کردیا ہے اگر مودی بہ ذات خود فوراً تردید کرتے تو ٹرمپ کے بات کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔

        وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ مزاج بنالیا ہے کہ وہ ہر امریکی صدر سے بڑی دوستی اور قربت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ سابق صدر اوباما اور موجودہ صدر ٹرمپ سے مودی اپنے خصوصی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں۔ بین الاقوامی پروٹوکال سے واقف عناصر کو اس وقت بڑی حیرت ہوئی تھی جب وزیر اعظم مودی نے صدر امریکہ اوباما سے اپنی قربت اور دوستی ظاہر کرنے کے لئے صدر امریکہ کا ذکر کرتے ہوئے ان کا پہلا نام بارک لیا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی موقع پر کسی سیاسی رہنماء کا ذکر اِن کا پہلا نام لے کر نہیں کیا جاتا بلکہ عام طور پر دوسرا نام ہی استعمال کیا جاتا ہے لیکن بہت سارے بین الاقومی معاملات میں بین الاقوامی پروٹوکال سے نہ واقف وزیر اعظم نریندر مودی نے کئی غلطیاں کی ہیں اور شائد وہ آئندہ بھی اسی قسم کی غلطیاں کرتے رہیں۔ ہم یہاں صرف ایک مثال دیں گے۔ دوسری جنگ عظیم سے برطانیہ کو فتح دلوانے والے وزیر اعظم کا دوسرا نام چرچل ہے اسی لئے اِن کا ذکر چرچل کے نام سے ہی کیا جاتا ہے جبکہ چرچل کا پہلا نام ونسٹن تھا۔

        اصل بات یہ ہے کہ وزیر اعظم مودی کو تمام عالمی قائدین سے اپنی ذاتی دوستی اور تعلقات کا چرچہ کرنے کا بہت شوق ہے۔ وہ ان باتوں کا ذکر کرکے اپنی غلط بیانیوں اور خوش فہمیوں سے عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ کشمیر پر ثالثی کرانے والی بات شائد مودی نے ٹرمپ سے نہیں کہی ہو اور ٹرمپ نے اپنے سیاسی مقاصد کے تحت ایک غلط بات مودی سے منسوب کرتی۔ اب یہ تو مودی کا کام تھا کہ وہ فوراً اس کی تردید کرتے۔ مودی نے شائد یہ سونچا ہو کہ کس طرح صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ سے ان کے انتہائی قریبی، ذاتی تعلقات پر آنچ آسکتی ہیں۔ اس لئے انہوں نے ٹرمپ کی تردید کرکے ٹرمپ کو ناخوش کرنے سے گریز کیا۔ اس سے ہوا یہ کہ مودی کی تردید نہ کرنے سے خود مودی کی شبیہ متاثر ہوئی اور ان کے بارے میں یہ کہا گیا کہ مودی نے خود ٹرمپ کی تردید کیوں نہیں کی؟ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مودی نے اپنی ذاتی شبیہ کو بلند رکھنے کے لئے ٹرمپ کے بات کا جواب دینے سے گریز کیا ہو لیکن ہوا اس کا الٹا کہ ملک کے باہر بہت زیادہ نہ صحیح مگر خاصی حدتک مودی کی شبیہ متاثر ہوئی۔ آج کل کوئی بات چھپی ہوئی نہیں رہ سکتی ہے۔ سابق صدر امریکہ اوبانے جب کہ وہ بحیثیت صدر نئی دہلی آئے تھے انہوں نے بھی ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی مذمت کرتے ہوئے ان کو روکے جانے کا مطالبہ کیا تھا۔ اوبا کے اس مطالبہ میں مودی کے اوباما سے قریبی تعلقات کی باتوں کو خاصہ متاثر کیا تھا۔ مودی کی خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ اِن سے منسوب کسی منفی بات یا واقعہ کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہتے ہیں۔ 2002ء میں گجرات میں ہوئے مسلم کش فسادات کے بارے میں مودی نے کبھی بھی کچھ نہیں کہا تھا بلکہ وہ گجرات فسادات کا ذکر کرنے والے ممتاز صحافیوں سے اس مسئلہ پر گفتگو کرنا پسند نہیں کرتے تھے اور دیگر بین الاقوامی یا قومی معاملات پر وزیر اعظم مودی کی مستقل خاموشی نہ صرف ہندوستانی عوام اور دیگر قائدین کے لئے ناقابل فہم ہے بلکہ دوسرے ممالک سے اعلیٰ عہدیداروں کا بھی یہی خیال ہے کہ مودی کبھی کھل کر بات نہیں کرتے ہیں۔ مودی کی یہ خاموشی ایک طرف ملک کے عوام کو اگر گمراہ کرتی ہے تو دوسری طرف سیاست کے بین الاقوامی امور پر ان کی خاموشی خود ان کی شبیہ بگاڑتی ہے۔ مودی کا یہ اصول کے وہ ہر کام اپنی مرضی کے مطابق کرتے ہیں اس سے نہ صرف ان کے ذاتی مفاد بلکہ ملک کے مفاد کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ اس کی تازہ مثال کشمیر میں ثالثی کی مبینہ مطالبہ پر مودی کی خاموشی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔