تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے؟

راحت علی صدیقی قاسمی

گذشتہ چند دنوں سے تمام مفکرین بابری مسجد اور رام مندر معاملے کا حل تلاش کرنے میں مصروف ہیں ، مصالحت کا نظریہ پیش کیا جارہا ہے عدالت سے باہر ہی اس معاملہ کو ختم کرنے کی وکالت کی جارہی ہے، عدالت بھی اس معاملہ میں پیش رفت کررہی ہے، جلد ہی یومیہ سماعت کے سلسلے کا آغاذ ہو جائے گا، مختلف آراء پیش کی جاچکی ہیں ، علماء و مفکرین کے درمیان گفت و شنید ہو چکی ہے، اختلاف آراء و دیگر کیفیات کا پورہ منظر آپکی نگاہوں میں ہے، اس سے متعلق گفتگو کرنا بے معنی ہے، البتہ مصالحت کے دعویدار، اس تحریک کے بانی شری شری روی شنکر جن کی چاہت ہے کہ بابری مسجد کے معاملے میں صلح کرلی جائے، اسے ہندوؤں کے دے دیا جائے، ان کے جذبات کا احترام کیا جائے، ان کے احساسات کو مدنظر رکھا جائے، اور رام مندر کی تعمیر کی اجازت دے دی جائے۔

 اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے شری شری روی شنکر نے ایڑی چوٹی کا زور صرف کیا ہے، علماء سے ان کی ملاقاتیں اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں ، وہ ہر شرط پر یہ چاہتے ہیں ، کہ رام مند کی تعمیر ہو، عدالت کے فیصلے سے قبل ہو، مسلمان اس کہ لئے کوشش کریں ، روی شنکر کی ان کوششوں کے پیچھے حقائق کیا ہیں مقاصد کیا ہیں، صلح کے  پردے میں کیا چُھپا ہے، یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے، لیکن ذہن میں چند سوالات پیدا ہوتے ہیں، کیا وہ اس طریقے سے بی جے پی کو استحکام بخشنا چاہتے ہیں ؟ کیا وہ بی جے پی کے زرخرید غلام ہیں ؟ کیا وہ رام مندر کی تعمیر کو بطور سیڑھی استعمال کرکے آسمان تاریخ پر مثل ماہتاب چمکنا چاہتے ہیں ؟ صدیوں تک اپنی شخصیت کو لوگوں کے ذہنوں میں زندہ رکھنا چاہتے ہیں ؟ تاریخ کے صفحات پر زندہ جاوید ہونا چاہتے ہیں ، اپنا روحانی بازار چمکانا چاہتے ہیں؟

چونکہ بابارام دیو کی شہرت نے انہیں پس منظر میں دھکیل دیا ہے، تو یہ خیال پیدا ہونا بھی یقینی ہے، البتہ کبھی کبھی ان کی کوششوں کو دیکھ کر ذہن میں یہ بھی خیال پیدا ہوتا تھا، کہ وہ واقعتا تصوف کے پیرو روحانیت کے علمبردار اسرار زندگی کو عیاں کرنے والے، غم زندگی کا نسخہ تجویز کرنے والے مذہبی رہنما ہیں ، جو عقیدت و محبت میں ڈوب کر ایک مذہبی فریضہ کو انجام دینا چاہتا ہے، وہ خالصتا ہندو خیالات کے پرستار ہیں ، اگر چہ وہ نادانی میں استعمال ہو جائیں لیکن کسی جماعت کسی تنظیم یا کسی گروپ کے آلئہ کار نہیں ہیں ، لیکن اس نظرئیے کی بیخ کنی ان کے جملوں سے ہو چکی ہے، اور احساس ہوگیا، کہ ان کی تمام تر کوششیں مفاد پرستی کی کی قبیل سے ہیں ، روحانیت اور تصوف سے تعلق رکھنے والا شخص اس طرح کی زبان کیسے بول سکتا ہے؟ سماجیات کے ضابطوں اور اصولوں کا لحاظ کرنے والا شخص اس طرز پر گفتگو کیسے کرسکتا ہے؟ زندگی کا ہنر سیکھانے والا، جینے کا طرز بتانے والا اتنی سطحی زبان کیسے استعمال کرسکتا ہے؟

 یقینی طور پر ہر ذی شعور شخص کے ذہن میں یہ سوالات پیدا ہو رہے ہونگے، اور شری شری روی شنکر کی شخصیت کو مجروح کر رہے ہونگے، قلب پر یہ احساس طاری ہوگا، کہ یہ وہی شخص جس نے جمنا کے کنارے کو کوڑے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا تھا، بے شمار اعتراض تھے، آوازیں بلند ہوئیں تھی، اور اس شخص کو احساس بھی نہیں ہوا تھا، آرٹ آف لیونگ نامی تنظیم بنانا آسان ہے، اس پر تقریریں کرنا جملے کہنا آسان ہے، لیکن اسے علمی پیکر میں ڈھالنا جوئے شیر لانے سے بھی بڑھ کر ہے، شری شری روی شنکر کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔

 پوری زندگی وہ لوگوں کو جینے کا ہنر سکھاتے رہے، اور خود جب موقع آیا تو آرٹ  آف لیونگ کا ضابطہ بھول گئے، بابری مسجد معاملہ میں اپنی ناکامی کو برداشت نہ کرسکے، اور عمرانی و تمدنی اصولوں کی مخالفت کرتے نظر آئے، کہنے لگے کہ اگر ان کی تجویز پر عمل نہ کیا گیا تو ہندوستان میں شام جیسے حالات ہونگے، انہوں نے ہندوستان کے وقار پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، جمہوریت کی عزت تار تار کردی ہے، انتظامیہ کی توقیر کو پاؤں تلے روند دیا ہے، انتظامیہ کی ناک نیچی کردی ہے، عام ہندوستانیوں کے جزبئہ حب الوطنی کو ٹھیس پہونچاء ہے، کیا انہیں عدلیہ پر اعتماد نہیں ہے؟

کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ فیصلہ کے بعد ملک میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی، انہیں انتظامیہ پر اعتماد نہیں ہے کہ وہ حالات کو درست کرپائی گی، ملک کو نفرت کی آگ میں جلنے سے روکے گی، اور اس سب کے علاوہ ہندوستانی باشندوں پر اعتماد نہیں ہے، جو یہ اعلان کرچکے ہیں ، کہ جو بھی فیصلہ ہوگا، انہیں منظور ہوگا، مسلمان و غیر مسلم دونوں عدلیہ پر اعتماد کرتے ہیں ، اگر یہ اعتماد ختم ہو جائے تو جمہوریت کی بقاء نا ممکن ہے، اگر واقعی شری شری روی شنکر کے دعوی کو صحیح تسلیم کرلیا جائے، تو کیا خوف کی وجہ سے اپنے جمہوری حقوق کو ترک کردیا جائے، عدلیہ کو تالا لگا دیا جائے، سالانہ لاکھوں سے زیادہ مقدمات عدالت عالیہ میں چلتے ہیں ، فیصلہ ہوتے ہیں ، آپسی رنجشوں میں جانیں جاتی ہیں ، آپ نے کیوں سرکار کو مشورہ نہیں دیا، کہ عدالتوں پر تالے لٹکا دئے جائیں دونوں فریق فیصلہ کو تسلیم نہیں کرتے، ایک اپنے آپ کو جیتا ہوا اور دوسرا ہارا ہوا سمجھتا ہے، معاشرہ میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں ، یا عوام ہی کو کیوں تلقین نہیں کرتے کہ آپسی معاملات کو گھر پر ہی نپٹا لیا جائے؟ کیا آپ کو ملک کے تمام شہریوں سے محبت نہیں ہے، آج ہی آپ کی زبان پر یہ جملے کیوں جاری ہوئے؟ آپ کو صرف اپنی انا پیاری ہے، اپنے جذبات و احساسات سے محبت ہے؟ اور کوئی عزیز نہیں ہے؟

بیس کروڑ سے زائد ہندوستانی مسلمانوں کے جذبات سے کھیل رہے ہیں ، مسلمان دعائیں مانگ رہا ہے، قنوت نازلہ کے وضیفہ کررہا ہے، اور ہر صورت میں شامی مسلمانوں کی حفاظت چاہتا ہے، اپنی بساط بھر احتجاج کررہا ہے، مسلمان ہی نہیں پوری دنیا کے امن پسند اور انصاف پسند افراد یہی طرز اپنائے ہوئے ہیں ، ہر حال میں ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے انسانوں کی حفاظت چاہتے ہیں ، آپ اس ظلم کی مذمت تو کیا کرتے، آپ ان بے قصور انسانوں کی داد رسی تو کیا کرتے، آپ ناک بھنو چڑھا کر ہندوستانی مسلمانوں کو ڈرانے لگے، یقینی طور پر آپ کو یہ خدشہ ظاہر کرنے کا حق تھا، لیکن اس لہجہ اور تیور میں شامی مسلمانوں کا ذکر کرکے انہوں نے اپنی عادت و نیت سب کچھ واضح کردیا ہے۔

 انہوں نے جس طرز کو اپنایا وہ انتہائی بھونڈا اور تکلیف دہ ہے،اس سے مسلمانوں کو نقصان ہوگا یا نہیں یہ تو مستقبل میں معلوم ہوجائے گا، البتہ اتنا یقینی ہے کہ شری شری روی شنکر نے اپنی حیثیت کو ختم کرلیا ہے، ہوشمند طبقہ ان کی حقیقت کو پہچان چکا ہے، ان کے لہجہ کی کر کختگی کو محسوس کرسکا ہے، شری شری روی شنکر کو جان لینا چاہیے کہ انہوں نے اپنی تحریک کو متاثر کردیا، اپنے پاؤں میں خود کلہاڑی مار لی، تمام سیاسی جماعتوں کے افراد ان کی مذمت کررہے ہیں ، انہیں سیاست نہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں ، خود بی جے پی کے افراد نے اس بیان کی تنقید کی ہے، عجیب خرافات شری کے ذہن میں آء ہے، وہ اس قوم کو ڈرانے چلے ہیں ، جس قوم نے بہادر جرنیل کمانڈر پیدا کئے، صلاح الدین ایوبی جیسے شجاع افراد پیدا کئے، انہوں نے لوگوں کے قلوب پر حکومت کی، ان کی فتوحات کا سلسلہ عظیم الشان ہے، پوری اسلامی تاریخ قربانیوں ، ایثار، محبت، بہادری، صبر و ضبط کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔

شری شری روی شنکر کو اس پر ایک نگاہ ضرور ڈالنی چاہیے، پھر اس طرح گفتگو کے بارے میں سوچنا چاہیے، جلدبازی میں انہوں نے اپنا ہی نقصان کیا ہے، مسلمانوں کو بھی اس موقع پر سنجیدگی سے کام لینا چاہیے، بابری مسجد کے تعلق سے عدلیہ جو فیصلہ کرے اس کا انتظار کرنا چاہئے، وقت اور حالات کو سمجھتے ہوئے، اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے، ملک کے وقار کی حفاظت کرنی چاہیے، اور کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے، جس ملک کی آبرو پر آنچ آئے، روی شنکر نے جو کیا یقینی طور پر عدلیہ کو اس سلسلے میں نوٹس لینا چاہئے، ان کی منشاء دریافت کرنی چاہیے، ان جملوں میں ان کی پکڑ کرنی چاہیے، تاکہ مستقبل میں کسی کو عدلیہ سے متعلق معاملات پر گفتگو کرنے کی جسارت نہ ہو اور ملک کا وقار محفوظ رہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔