تم انہیں صنم کہو اور ہم شیطان کہیں

حفیظ نعمانی

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 71 ویں اجلاس کو وزیر خارجہ مسز سشما سوارج نے اپنے مخصوص انداز میں خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان کاموں کا ذکر بھی ضروری سمجھتے ہیں جو ہم نے کئے ہیں اور ان کا ذکر بھی کریں گےجو ہم نہ کر سکے۔ ہم مانتے ہیں کہ ہم اب تک دہشت گردی کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ہمارے نزدیک دہشت گردی حقوق انسانی کی سب سے زیادہ خلاف ورزی ہے جس نے بھی دہشت گردی کا بیج بویا اس نے اس کا پھل بھی کھایا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ مسز سوارج نے دریافت کیا کہ آخر اس دہشت گردی کو کون پناہ دے رہا ہے؟ کون ان کی پرورش کر رہا ہے؟ ہمارے نزدیک یہ سوال ہی غلط ہے۔ سشما جی جسے دہشت گردی کہہ رہی ہیں وہ ان کے نزدیک ایک جہاد ہے اور جو ان کی پرورش کر رہے ہیں وہ وہی ہیں جنہوں نے 1940 میں لاہور میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرار داد پاس کی تھی کہ ہم ہندوئوں کے ساتھ نہیں رہ سکتے ہمیں اپنے مذہب کو بچانے اور اپنی نئی نسل کو مذہبی بنانے کے لیے ایک الگ ملک چاہیے اور سب سے زیادہ سردار پٹیل بعد میں نہرو جی اور سب سے آخر میں گاندھی جی بھی مان گئے تھے کہ ان مسلمانوں کو الگ ملک دے دیا جائے اور جب ملک دے دیا تو اس کا نام پاکستان رکھ لیا گیا۔
ہندوستان کی حکومت اور وزیر خارجہ جسے دہشت گردی کہہ رہے ہیں وہ پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور اس کے سپرد صرف یہ کام ہے کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے تعلقات اچھے نہ ہونے پائیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جب مذکرات اس سطح پر آجاتے ہیں کہ دونوں ملک بھائیوں کی طرح رہنے کا فیصلہ کرلیں اسی کے چار دن کے بعد گورداس پور ہوجاتا ہے۔ اور جب تاریخ، جگہ اور ملاقات کا وقت بھی ہوجاتا ہے تو پٹھان کوٹ ہوجاتا ہے۔ اور جب اظہر مسعود سینہ ٹھونک کر کہتا ہے کہ میرے پانچ فدائی پوری ہندوستانی فوج پر بھاری پڑے تو نواز شریف ان سے معلوم بھی نہیں کرتے بلکہ ان کے اقرار اور ہندوستان کے شور مچانے کے بعد خبریں آجاتی ہیں کہ انہیں خانہ قید کردیا۔ مقدمہ چلایا جائے گا اور ان کے بھائی پر بھی مقدمہ قائم کیا گیا ہے اور وہ ہر جگہ سینہ تانے گھوم رہا ہوتا ہے۔
حیرت ہے کہ ہندوستان کے لیڈروں کو اس کا اندازہ نہیں ہورہا ہے کہ پاکستان بنوانے والے مسلمان دوسرے تھے۔ پاکستان کی مخالفت کرنے والے دوسرے اور پاکستان کے بنوانے والے نہ بنوانے والے دوسرے۔ مسٹر جناح ،نواب زادہ لیاقت علی خان، اسکندر مرزا، خواجہ ناظم الدین، چودھری خلیق الزماں، حسن شہید سہر وردی، نواب اسمعیل چند دیگر راجہ محمود آباد ،چودھری محمد علی، محمد علی بوگرہ، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد تھانوی، قدرت اللہ شہاب، اے ٹی نقوی اور درجنوں لیڈر تھے جنہوں نےپاکستان اس لیے بنوایا کہ جب ملک آزاد ہوجائے گا تو ہندو اکثریت والے صوبوں میں ہندو حکومت کریں گے اور بنگال، پنجاب، سندھ سرحد، بلوچستان جیسے مسلم اکثریت والے صوبوں میں مسلمان حسن شہید سہر وردی جیسے لوگ حکومت کریں گے ہماری جگہ کہاں ہوگی؟
مسلم اکثریت کے صوبے والوں نے اس وقت کوئی دلچسپی اس لیے نہیں لی کہ وہ تو اکثریت کی وجہ سے پہلے ہی پاکستان میں تھے۔ شاطر مسلمان جب ملک کو تقسیم کرانے میں کامیاب ہوگئے تو حکومت بھی ان کی ہی بنی۔ اس لیے کہ خزانہ ،فوج سب کچھ ان کے ہاتھ میں تھا۔ پندرہ سال تو ان سب نے عیش کیے اس کے بعد جب پنجابیوں نے دیکھا کہ فوج میں اور افسروں میں اپنی اکثریت ہوگئی تو ایوب خان نے تختہ الٹ دیا اور جو پاکستان کے بانی ہونے کی وجہ سے اپنے کو مالک سمجھ رہے تھے ان سب کو کنارے لگا دیا۔ اور کہا کہ تم مہاجر ہو مہاجر ہی رہو۔ ہندوستان کے لیڈروں کو معلوم کرنا چاہئے کہ پاکستان بنوانے میں آخر سندھی و ڈیرے ،پنجابی صنعت کار اور اس علاقہ کے سب سے بڑے عالم مولانا یوسف بنوری اور مولانا بدر عالم میرٹھی جیسے بزرگوں نے کیوں دلچسپی نہیں لی؟ صرف اس لیے کہ انہیں پاکستان کی کیا ضرورت تھی وہ تو تھے ہی پاکستان میں۔؟
اب جو یہ اظہر مسعو، حافظ سعید، صلاح الدین اور لکھوی جیسے ہماری زبان میں دہشت گرد اور پاکستان کی زبان میں مجاہد سامنے آئے ہیں یہ مہاجر نہیں پرانے پاکستانی ہیں۔ یہ اردو اس لیے بولتے ہیں کہ پورے پاکستان کی بول چال کی زبان اردو ہے۔ لیکن جب یہ جاہل ،اجڈ اور بھوکے نوجوانوں سے بات کرتے ہیں تو اپنی زبان میں ہی کرتے ہیں اور یہی ہیں جو جہاد کا ایندھن تیار کرتے ہیں۔ جس وقت پاکستان کی تحریک عروج پر تھی ہم بریلی میں تھے ہمارے پڑوس میں رہنے والے تعلیم یافتہ گھرانوں کے 8 اور 10 برس کے بچے ہر وقت ”لے کے رہیں گے پاکستان بٹ کے رہے گا ہندوستان“ کہتے رہتے تھے اگر کسی بچے یا بچی سے معلوم کرلیا کہ پاکستان کیا ہے؟ تو وہ بھولی زبان سے کہتا تھا کہ مسلمانوں کا ملک ہے ہندوؤں نے لے لیا ہے ہم وہ لے کے رہیں گے لیکن یہ نعرہ نہ پنجاب میں گونجا، نہ سرحد میں اور نہ بلوچستان میں۔
مسز سشما سوراج نے پھر کہا کہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے جتنی بات ہندوستان کے لیڈر کشمیر کو اٹوٹ حصہ کہتے ہیں اتنی ہی بار نواز شریف اور راحیل شریف اسے پاکستان کی شہ رگ کہتے ہیں۔ پاکستان کو معلوم ہے کہ وہ کشمیر کو ہندوستان سے کبھی نہ لے سکے گا لیکن جس دن وہ کشمیر سے دست بردار ہوجائے گا اسی دن انہیں جان فدا کرنے والے لڑکے ملنا بند ہوجائیں گے۔
اڈوانی جی جوشی جی اور جتنے بزرگ لیڈر ہیں سب دیکھ رہے ہیں کہ پرویز مشرف فوج کی وجہ سے اتنی اوپر آسکے ورنہ اب صرف پنجابی اور سندھیوں کی پاکستان میں حکومت ہے اور مہاجر تو وہاں ہم مسلمانوں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں ہندوستان میں دو طرح کے مسلمان ہیں ایک وہ جنہوں نے سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان کی مخالفت کرنا ہے اور اگر بن جائے تب بھی وہاں نہیں جانا ہے اور ہم یہ اعتراف کریں کہ ہمیں اس کا اندازہ نہیں تھا کہ جانے والے مسلمان مہاجر بن کر قابل نفرت ہوجائیں گے بلکہ ہم جیسے گھرانے میں پرورش پانے والوں کو یہ سمجھایا گیا تھا کہ جو طبقہ پاکستان بنوا رہا ہے اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں اور وہاں جانے والے بے دین ہوکر رہ جائیں گے اور یہ اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جو لڑکے 1946 میں گئے تھے ان سے ہماری ملاقات 1952 میں اس وقت ہوئی جب ہم کراچی گئے اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ آگرہ تاج کالونی اور بہار کالونی میں جہاں ہمارے دوست رہتے تھے کہیں دور دور تک مسجد نہیں تھی اور ایک مہینہ وہ زیادہ تر فرصت کے وقت ہمارے ساتھ رہے۔ کسی کو ایک وقت کی نماز پڑھتے نہیں دیکھا وہ جیسے بریلی سے گئے تھے اس سے بھی بدتر پاکستان میں ملے۔
اب ہندوستان پاکستان کے ساتھ کیا رویہ رکھے یہ وہ دنیا کا مزاج دیکھ کر فیصلہ کرے اگر جی چاہے تو تعلق باقی رکھے اور جی چاہے تو اپنا پانی بھی روک لے لیکن ہمیشہ کے لیے دماغ سے نکال دے کہ پاکستان دہشت گردوں کو سزا دے گا۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ تینوں نواز شریف اور راحیل شریف سے زیادہ جاہل مسلمانوں میں مقبول ہیں۔ہندوستان میں عوام کے جیسے پیارے بابا ہیںچاہے اندر سے وہ جیسے بھی لگیں۔ ایسے ہی یہ مسلمانوں کے بابا ہیں۔ پاکستان کے مسلمان ان پر جان دیتے ہیں۔ حافظ سعید نے آج تک کے باجپئی کو انٹرویو دیتے ہوئے 20 برس پہلے کہا تھا کہ ہم نے نہ حکومت کے کہنے سے بندوق اٹھائی ہے اور نہ ان کے کہنے سے رکھیں گے۔ جس کے یہ تیور ہوں حکومت اس کا کیا بگاڑے گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔