شجر سورج کا

سید صفدر رضا المعروف بہ قلمی نام رضاؔ کھنڈوی اور پور انام ڈاکٹر سید صفدر رضاؔ کھنڈوی عرصۂ دراز سے ادب کی آبیاری اور خدمت گزاری میں مصروفِ عمل ہے۔بحیثیتِ ایک شاعر، ادیب، محقق،صحافی، سماجی کارکن، دانشور اور ایک استاد کے انھوں نے متحرک، فعال اور ایک کامیاب شخصیت کے طورپر ادب کی دنیا میں اپنی منفردشناخت قائم کی ہے۔ان کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتابوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے جو کہ مختلف موضوعات پر مبنی ہے۔صحافتی کارناموں میں انہیں اوّلیت حاصل ہے اوران کے انعام و اکرامات کی تفصیل بھی طویل ہے ۔درس و تدریسی فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔مزید مختلف زبانوں پر بھی انہیں بھرپور عبور حاصل ہے۔غرض کہ ادبی سطح پر صحیح معنوں میں قابلِ ذکر کردار کے لئے موصوف کی جتنی بھی پذیرائی کی جائے کم ہے۔
زیر تبصرہ کتاب’’شجر سایہ کا‘‘ ڈاکٹر رضا کھنڈوی کا دوسرا شعری مجموعہ ہے ۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ’’موجوں کا سفر(۱۹۸۱ء) ‘‘ہے۔مذکورہ شعری مجموعہ کے ابتدائی تین صفحات میں بالترتیب قرآن پاک کی ایک آیت کا ترجمہ،ایک حدیثِ شریف اور حضرت علیؓکا ایک قول درج کیا گیا ہے جن سے علمی فضیلت کے تعلق کا درس ملتا ہے۔اس کتاب کے انتساب کو شاعر نے نماڑ کے ہر دلعزیز فرزند، بین الاقوامی شہرت یافتہ ادیب، شاعر، صحافی، محقق، دانشور پروفیسر مظفر ؔحنفی کے نام منسوب کیا ہے۔ اس کے بعد ’’پیش لفظ‘‘ میں ِ انھوں نے ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں قائم اردو اکاڈمیوں اور دیگر ادبی اداروں کا اردو کی ہمہ جہت ترقی اور فروغ میں کلیدی کردار کو سراہا ہے خصوصاً مدھیہ پردیش اردو اکاڈمی کے حوالے سے جو اردو ادیبوں کوصد فیصد تعاون عطاکرکے ان کا حوصلہ بڑھانے میں پیش پیش رہتی ہے۔
زیرِ نظر شعری کتاب ڈاکٹر رضا کھنڈوی کی غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے۔اس مجموعہ کی ابتدا حسبِ روایت دعائیہ اشعار اور ایک نعتِ پاک سے کی گئی ہے۔اس کے علاوہ اس میں غزلوں کی مجموعی تعداد ۷۹ اور حصّہ نظم میں ۱۰ مثلث اور ۶ پابند نظمیں بھی شاملِ ہیں۔شاعر نے اس کتاب میں زمانے کے حالات و واقعات اور افکار و مسائل کے تعلق سے متنوع اور سنجیدہ موضوعات کو اپنی شاعری کا بنیادی مرکز بنایا ہے جبکہ عشق عا شقی،رخسار و زلف کی اسیری، ہجرو وصال،جام و صبا، آہ و بکا اور گریہ زاری وغیرہ قسم کے روایتی موضوعات سے پرہیز کیا ہے اور صرف تازہ بہ تازہ اور نو بہ نو خیالات پر ہی طبع آزمائی کی گئی ہے۔ سماجی اور معاشرتی سطح پر پنپ رہی برائیوں کے تئیں شاعر فکرمند نظر آتے ہیں۔ انھوں انسان کی مکاری، عیاری، دغابازی، مکر و فریبی،بدگمانی، بداخلاقی، تشدد، تنگ نظری، بدکرداری، بد تہذیبی،بے پردگی اور قدروں کی ناپامالی کو ایک المیہ کے طور پر پیش کیا ہے اور اسے انسانی ترقی اور خوشحالی کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا ہے۔انھوں نے باطل پرستی اور ظلمت و حشمت کی دنیا کو ناپائیدار ی سے تعبیر کیا ہے جبکہ عہد و پیمان،میل ملاپ، خلوص و محبت، امن آتشی،بھائی چارگی،حق پرستی ، حق گوئی اورایمانداری وغیرہ کے ساتھ زندگی بسر کرنے والوں کو ابدی دنیا کی ایک اہم علامت قرار دیا ہے۔انسان کے حوصلے پست کرنے والوں اور ہار ماننے والوں سے انہیں نفرت ہے بلکہ ان کا ماننا ہے کہ جو بلند حوصلہ اور پختہ ارادہ رکھتے ہوں وہ حقیقی معنوں میں پہاڑوں کی چٹانوں کا پرواز کر سکتے ہیں۔ رضاؔ کھنڈوی کی شاعری وطن سے پیار اور اس سے خونِ جگر سے سینچنے کاپیغام دیتی ہے۔ فطری حسن کے دلدادہ ہے اور حسنِ خداداد میں خلط ملط کرنے والوں سے انہیں نفرت ہے۔ان کے کئی اشعار طنزیہ آمیز لہجہ رکھتے ہیں۔ان کی شاعری نشاطیہ عنصر سے جا بجا لبریز نظر آتی ہے اورلطف و کیف سے بھی بھرپور ہے۔موصوف کی شاعری میں تھوڑی سے شوخی بھی ہے اور تیز طراری بھی۔ انھوں نے باحوصلہ اور بلند بانگ شاعری کی ہے۔ نت نئے اور انفرادی موضوعات ان کی شاعری کا خاصا ہے۔مذکورہ شعری مجموعہ میں ان کی صرف تین غزلیں غیر مقطع ملتی ہیں باقی سبھی میں تخلص استعمال کیا گیاہے۔رضاؔ کھنڈوی کی نظموں میں شعری لذت کا چٹخارہ خوب ملتا ہے اور ایک مخصوص موضوع بھی۔ان کی شاعری غیر مانوس معلوم نہیں ہوتی بلکہ انسانی زندگی کے نشیب و فراز کی داستان معلوم ہوتی ہے۔ان کی غزلوں میں راقم کی پسند کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:
1۔ ہم نے بہارِ نو کو عطا کی لہو کی آنچ
صحنِ چمن میں پھیل گئی رنگ و بو کی آنچ

2- پروں کو بیٹھ گیا کیوں سمیٹ کر اپنے
اُڑان بھر کہ ابھی آسمان زندہ ہے

3- دعائیں رنگ لائیں گی تری شمشیر ٹوٹے گی
وہ دن بھی آئے گا جب ظلم کی زنجیر ٹوٹے گی

4۔ نہیں آسان مجھ کو توڑنا چاندی کے سکوں سے
نہ ٹوٹے گا قلم میرا نہ تحریر ٹوٹے گی

صفدر رضاؔ کھنڈوی صاحب کی شاعری میں سب کے سب ہی اچھے اور قابلِ مطالعہ اشعار پائے جاتے ہیں جو ہماری بصارت اور بصیرت دونوں کو تسکین بخشتے ہیں۔کتاب کے پُشت پر مصنف کی سوانح کوائف درج ہے۔ زیرِ نظر کتاب پروف ریڈنگ کی غلطیوں سے پاک ہے۔اس کی طباعت بھی معیاری ہے اوراس میں کاغذ بھی اچھی کوالٹی کا استعمال کیا گیا ہے اورقیمت بھی معقول رکھی گئی ہے۔ ’’شجر سورج کا‘‘ مدھیہ پردیش اردو اکاڈمی کے مالی تعاون سے شائع کی گئی ہے۔

مصنف : ڈاکٹر سید صفدر رضاؔ کھنڈوی

ضخامت :110 صفحات
قیمت : 200 روپے
ناشر: طلسمِ حرف پبلی کیشنز، خان شاہ ولی، چمن تارا منزل، مونگھٹ روڈ، کھنڈوہ (ایم۔پی)
تبصرہ نگار: غلام نبی کمار، ریسرچ اسکالر ، شعبۂ اردو ،دہلی یونیورسٹی

تبصرے بند ہیں۔