تم پاگل ہو

سیف ازہر

شاید کالج کا پہلا دن تھا۔حیرت انگیزنظریں ادھر ادھر جس تیزی کے ساتھ دوڑ رہی تھیںاس سے کہیں زیادہ اس کاقدم اٹھ رہا تھا۔علامہ اقبال گیٹ میں قدم رکھا توان کے پور نورمجسمے پر نظر پڑتے ہی اس کے اندر عجیب سی کشاکش کی کیفیت در آئی مگر وہ چلتارہا حالانکہ اس کاقدم کسی قدر اٹھنے کوتیار نہیں تھا۔ راہداری سے گزرتے ہوئے پھولوں کی خوشنماکیاریوںنے اسے کچھ تازگی سی بخش دی ۔وہ اپنی کشاکش پر قابو پارہا تھا۔اتنے میں اس کی نظر گھڑی پر پڑی ،نظر پڑتے ہی قدموں کوجیسے گھوڑے کی رفتارنے چھولیاہو۔وہ اس سے بے خبر کی آس پا س کیا ہے ایک دم بھاگاچلا جارہا تھا۔اس نے اندر گھسنے سے پہلے ہی بدحواسی کے عالم میں کہا،
مے آئی کم ان سر
اچانک پوراکلاس ایک ٹھٹھے سے گونج اٹھا
بیٹا میں ایسی بھی نہیں کہ میری جنس میں تمیز نہ ہوسکے ،شازیہ میم نے نظر اٹھاتے ہوئے کہا
تمہارانام کیا ہے ،شازیہ میم نے پوچھا
بسمل۔۔ ۔اس نے سر جھکاتے ہوئے جواب دیا
شرم سے سرجھکائے بسمل پاس کی کر سی پہ بیٹھ گیا۔بیٹھتے ہی اس کاذہن کہیں بھٹک گیا۔یکایک پوری کلاس کے ہنس دینے کامنظر ذہن میںآآکر اس کی شرمندگی میں اضافہ کر رہاتھا ۔ سوچتے سوچتے وہ نجانے کہاں گم ہوگیا تھا۔اسے یادآرہا تھا کہ اس نے ایک مرتبہ اسی طر ح اسکول میں پانچویںکی کلاس میں فہمیدہ میم جب حاضری لے رہی تھیں تو ہربڑاہٹ میں اس نے ’’یس سر‘‘ کہہ دیا تھا،جس پر کچھ اسی طرح کا مذاق بن گیا تھا۔وہ سوچ رہاتھا کہ ابھی تو کسی سے کوئی جان پہچان بھی نہیں ہوئی ۔اگر کسی سے جان پہچان ہوئی بھی تو اب کون سی ایسی پاگل لڑکی ہوگی جو میرا اتنا مذاق بننے کے بعد بھی میری دوست بنے گی ۔دوست تو دور کوئی گھاس بھی نہیں ڈالے گی ۔ پر اگر کوئی دوست نہیں بنا توزندگی بے مزاسی ہوکر رہ جائے گی ۔ہٹ سالا۔۔۔پندرہ دن دیکھوں گااگر کوئی گھاس نہیں ڈالتی تو کسی اور کالج میں چلیں گے ۔اچھا ہواتھا جوہم نے کئی کالج میں فارم بھر دیا تھا۔مسلسل وہ اسی دھیڑ بن میں تھا کہ اسے اپنے پشت پر کسی موہوم لمس کااحساس ہوا۔نگاہ اٹھائی تو کلاس میں کوئی نہیں تھامگر جیسے ہی نظر پیچھے کی طرف گئی اس کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہورہا تھا۔ایک لڑکی اپنی تمام ترنازواداکو بروئے کار لاتے ہوئے مسکرا رہی تھی ۔
ایسے کیا دیکھ رہے ہو۔۔۔۔پہلے کبھی لڑکی نہیں دیکھی ،بسمل کچھ جھینپ سا گیا
بولنا نہیں آتا۔۔۔۔اور ہاں تم نے ممی کوسر کیوں کہا
وہ تمہاری ممی ہیں ۔۔۔بسمل نے تعجب بھرے لہجے میں یکا یک پوچھا
لیکن بغیر کچھ جواب دئیے وہ لڑکی کلاس سے نکل گئی ۔بسمل بھی تھوڑی ہی دیر میں کچھ سوچتے ہوئے کلاس سے نکل آیا۔اس کے چہرے سے تفکر اورحیرت کی لہریں آآکر غائب ہورہی تھیں۔بلڈنگ سے باہر آتے ہی اس نے اپنے آپ پر قابو پانے کی بھرپور کوشش کی ساتھ ہی اس کی نگاہیں ادھر ادھر اس لڑکی کوتلاش کرنے لگیں مگر وہ نجانے کدھر سے نکل گئی کہ ہزار کوششوں کے باوجود کہیں نظر نہیں آئی۔اچانک اسے خیال آیا کہ وہ کس کو تلاش کرہا ہے اور کیوں تلاش کررہا ہے ۔آخر وہ ایسی لڑکی کو کیوں دیکھنا چاہتا ہے جس کانام تک نہیں جانتا۔
چل یار کوئی نہیں گھر چلتے ہیں ۔۔۔اس نے خود سے بڑبڑاتے ہوئے کہا
دن ڈوبنے کے قریب تھا۔سایوں کاقدزراز ہوچکا تھا۔سورج اپنا رنگ کھو رہا تھا۔بسمل گھر کی جانب خراماںخراماں چلا جارہا تھا۔آج بازار سے گزرتے ہوئے اس نے آئس کریم بھی نہیں لی،حالانکہ آئس کریم والے نے دیکھتے ہی کہہ تھا کہ سر آئیے مگر وہ ہاتھ کے ا شارے منع کرتے ہوئے آگئے بڑھ گیا۔ایک بار آئس کریم والے نے سوچا کہ ذراخیریت دریافت کریں لیکن چہرے پردوبارہ نظر پڑتے ہی ا س خوف سے بعض آگیا کہ کہیں سر غصہ نہ ہوجائیں۔
اچانک ڈور بیل بجی ۔۔تھوڑی دیر بعد آواز آئی ۔۔۔کون
ممی دروازہ کھولومیں آگیا۔۔۔بسمل نے ذرابے پروائی سے کہا
دروازہ کھل چکا تھااور اب بسمل گھر کے اندر تھا دروازے سے جیسے ہی تھوڑی دور گیاتھا کہ اچانک آوازآئی
آؤ بیٹا ادھر بیٹھو۔۔۔ تھک گئے ہوگے ۔۔۔میںابھی تمہارے لیے پانی لاتی ہوں۔۔۔سائرہ نے بیٹے سے پیار بھرے لہجے میں کہا
مگر بسمل چپ چاپ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ رات کوبھی اپنے کمرے سے نہیں نکالا۔سائرہ نے دیر رات گئے جب اس سے کہا کہ بیٹا کھانا کھالو تواس نے صرف اتنا ہی کہا کہ ممی مجھے بھوک نہیں ہے۔شام کو آتے وقت دوستوں کے ساتھ میں نے بر گر ،چکن چلی اورچاؤ مین کھالیے تھے ۔کھانا فریج میں رکھ دواگر بھوک لگی تو کسی وقت کھالوں گا۔آج یہ کوئی پہلی بار نہیں ہورہا تھااس لیے سائرہ کوبھی کسی طرح کاکوئی اندیشہ نہیں ہوا۔
شازیہ میم دوسرے دن جب کلاس میں داخل ہوئیںتوانھیں بسمل کے علاوہ تمام چہرے نظر آئے مگر انھوں نے کسی سے اس کے بارے میں دریافت نہیں کیا۔ شازیہ میم کوکہیں جاناتھا اس لیے کلاس تھوڑی دیر میں ختم ہوگئی۔ طلبہ ابھی باہر نکلے ہی تھے کہ کسی نے کہا۔ارے یار وہ بسمل آج دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔کسی نے جملہ مارا کہ اتنا مذاق بننے کے بعد دکھائی دے گا،شرمندہ ہوگا،کلاس آتے بن نہیں رہی ہوگی ،اب آئے بھی توکیسے آئے ۔اتنے میں کسی نے کہا کوئی نہیں دوچار دن میں جب شرمندگی چڑھے دریا کی طرح اتر جائے گی توآجائے گا۔تیسرے دن بھی بسمل کلاس نہیں آیا۔چھوتھے دن جب کلاس آدھی گزرگئی توبسمل مرجھا یاچہرہ لے کر کلاس میں داخل ہوا۔غنیمت رہا کہ میم نہیں آئیںتھیں۔ کلاس میںجیسے ہی داخل ہواسب نے پھر ہنسناشروع کردیا۔ وہ ایک خالی کرسی میںسر جھکائے دارز ہوگیا۔
تم پاگل ہو ۔۔۔کیوں تین دن سے غائب تھے ۔۔۔میں ۔۔۔ممی کو سر کہہ دیا مگرممی نے توناغہ نہیں کیا۔۔۔۔۔میں۔۔۔اور تم بڑے تیس مار خاں ہو ذراسامذاق کیا لوگوں نے بنا دیاتم شروع شروع میں ہی تین دن غائب ہوگئے ۔۔۔۔رانی بلااسٹاپ بولے جارہی تھی ۔
میں ۔۔میں ۔کیا میں میں لگا رکھا ہے ۔رانی نے پوچھا
میں بیمار تھا ۔۔بسمل نے آہستہ سے کہا
اوہ آئی ایم سواری ۔۔تو پہلے نہیں بتاناچاہئے تھا۔۔
خیر جوبھی ہوا مجھے معاف کرنا ،میں نے آپ کو غلط سمجھا۔۔تھوڑی دیر خاموشی کے بعد رانی نے غم زدہ لہجہ میں کہا
کوئی نہیںیار ایسا ہوتا رہتا ہے۔۔۔بسمل نے بات ٹالنے کی کوشش کی
کلاس سے جب سب باہر نکلے تو رانی بسمل کے ساتھ تھی ۔دونوں خاموشی کے ساتھ چلتے رہے ۔رانی بسمل کے ساتھ تھی مگر نجانے کس دنیا میں کھوئی ہوئی تھی ۔درحقیقت وہ کسی اور دنیا میں مگن تھی ۔خاموشی کاسلسلہ جب دراز ہوگیاتوبسمل نے ہی سکوت توڑا۔
آپ کتنے سالوں سے یہاں ہیں ۔۔بسمل نے یوں ہی سوال کیا
یہی کوئی تین سال سے ۔۔۔۔رانی نے بھی بے پروائی سے جواب دیا
مین گیٹ پر آکر دونو ں نے ایک دوسرے کو بائے کیااور اپنے اپنے گھر کی طرف چل دئیے۔رانی اپنے اس رویہ کو لے کربہت نادم تھی ۔مسلسل وہ اسی کے بارے میں سوچے جارہی تھی ۔بسمل کتنا بھولا سا ہے ۔۔۔معصوم بھی توبہت ہے۔۔۔اتنا اچھا کیوں ہے ۔۔۔ میں نے اسے کیا کیا نہیں کہا۔۔۔لیکن اس نے مجھے کچھ کیوں نہیں کہا۔۔۔ہوسکتا ہے میری نظر میں اچھا بننا چاہتا ہو ۔۔۔یاشاید وہ مجھے پٹاناچاہتا ہو۔۔۔اگروہ بیمار تھاتو پہلے بھی بتاسکتا تھا۔۔۔اس نے کیوں نہیںبتایا۔۔۔سارے لڑکے ایسے ہی ہوتے ہیں۔
اگلے دن کلاس سے نکلتے ہی پھر رانی اور بسمل کی ملاقات ہوئی۔باتوں سے لگ رہا تھاکہ دونوں بہت سوچ سمجھ کر بات کر رہے ہیں کیونکہ آج وہ ایک دوسرے کیلئے بہت احتیاط سے کوئی لفظ استعمال کر رہے تھے ۔
کافی لیں یاچائے ۔۔۔کینٹین پر پہنچتے ہی بسمل نے رانی سے پوچھا
نہیں میں کچھ نہیں لوں گی، آپ پی لو۔۔۔رانی نے تھوڑاہٹتے ہوئے کہا
کچھ تو لے لو۔۔۔اسی حوالے سے جو میں نے آپ کے ممی کی شان میں گستاخی کی ہے اس کاتاوان اداہوجائے گا۔۔۔ زیرلب مسکراہٹ کے ساتھ بسمل نے کہا
رانی خاموش ہوگئی اوربسمل نے اس کے ہاتھ میں کافی کاکپ تھما دیا۔دونوں خاموشی کے ساتھ پیتے رہے۔کافی ختم ہوئی تو دونوں کینٹین سے متصل پارک کی جانب بڑھ گئے ۔پارک کی طرف انھیں کون کھینچ لایا تھااس کااندازہ توانھیں خود بھی نہیں تھا ۔دونوں نے بہت دیر تک پارک میں بیٹھ کر ادھر ادھر کی بات کی۔دوسرے دن پھر وہ کافی پی کر اسی پارک میں آگئے ۔کافی پینا اور پارک میں گپیں مارنادھیرے دھیرے ان کامعمول ہو گیا۔وہ روزآتے کافی پیتے اور گھنٹوں پارک میں بیٹھ کر باتیںکرتے ۔وقت گزرتا گیا ۔دن ہفتوںمیں ،ہفتہ مہینوں میں اور مہینے سال میںتبدیل ہوتے گئے یہاں تک کہ ان کاگریجویشن مکمل ہوگیا۔الوداعیہ تقریب بھی سامنے آچکی تھی ۔لوگ تیاریوں میں مصروف تھے ۔پوری کالج میں جگہ بہ جگہ رنگ برنگے پوسٹرالوداعیہ تقریب کی آمد کاپتہ دے رہے تھے۔وہ شام بھی آئی کی لوگ رنگ برنگے نفیس کپڑوںمیں ملبوس آڈیوٹیوریم کی طرف جارہے تھے ۔رانی بنارسی ساڑی میںانتہائی خوبصورت اور جاذب نظر لگ رہی تھی ۔جب وہ گھر سے نکلی توایسا لگ رہا تھاکہ سارے لوگ اسی کودیکھنے نکلے ہیں ۔رانی جب پہنچی توتقریب شروع ہوچکی تھی ۔اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی لیکن تلاش بروئے کار نہ آئی ۔مجبوراایک کرسی میں اکیلی بیٹھ گئی ۔اس کوبیٹھے بہت دیر ہوچکی تھی تقریب آدھے سے زیادہ ختم بھی ہوچکی تھی ۔اکیلے پن کی وجہ سے وہ اب اکتاہٹ کاشکار ہوچکی تھی ۔
رانی۔۔۔رانی ۔۔اچانک اس کے کان میں آواز آئی
لیکن اس کوغنودگی نے اپنی آغوش میں لے رکھا تھاوہ ذراسازاویہ بدل کر پھر اسی طرح بیٹھ گئی ۔اچانک پھر آواز آئی مگر اس بارآواز کے ساتھ کسی کاہاتھ اس کے کاندھوں پر تھا۔وہ مڑی توپیچھے بسمل کھڑا تھا۔
ادھر آؤ۔۔۔بسمل نے رانی سے کہا
کیابات ہے ۔۔۔رانی نے ذرا پیچھے آتے ہی سوال کیا
کچھ نہیں یار،باہر چلو تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے ۔۔۔بسمل نے رازدارانہ لہجہ میں کہا
آخر کہاںلیے جارہے ہو۔۔۔اس وقت کون سی آفت آن پڑی ہے ۔۔۔رانی نے ذراترش لہجے میں پوچھا۔
اب آؤ بھی ذرا،بس تھوڑی سی بات کرنی ہے ۔۔۔بسمل نے عاجزی سے کہا
دونوں راہداری میں لوگوں کی نظروں سے بچ بچا کر چلتے رہے ۔ساتھ ہی بسمل سوچ رہا تھاکہ رانی کوحقیقت بتادینی چاہئے ۔کہیں وہ برانہ مان جائے ۔اس کے دل کودھکالگ سکتا ہے ۔اسے آج تک میری کوئی بات بری نہیں لگی مجھے نہیں لگتاکہ وہ برا مانے گی۔پر ضروری نہیں کہ اسے آج تک کوئی بات بری نہیں لگی تویہ بھی نہ لگے ۔ویسے بھی یہ بڑاحساس مسئلہ ہے ۔رانی کی نیند اب اڑ چکی تھی۔اس کو شاید کچھ انداز ہوگیاتھاوہ راہداری میں ساتھ ساتھ ضرور تھی مگر اس کادماغ بھی نہ جانے کن کن وادیوں کاسیر کر رہا تھا۔وہ سوچ رہی تھی کہ بسمل ساری باتیں کرتا ہے مگر آج تک کبھی اس نے اپنے دل کی بات کیوں نہیں کی ۔اس کو مجھ سے کوئی لگاؤ نہیں ہے ۔اگر لگاؤنہیں ہے تووہ ہمیشہ مجھ سے چپکاکیوں رہتا ہے ۔ مگر میں بھی تواس سے چپکی رہتی ہوں ۔خیرچھوڑوپتہ نہیں اس اندھیرے میں کس لیے لایا ہے ۔ہوسکتا آج ہی وہ دل کی بات کرنا چاہتا ہو۔ کوئی نہیں اگر آج بھی اس نے کچھ نہیں کہاتو میں صاف صاف بول دوں گی ۔ہوسکتاہے شرماتاہو ،پاگل شرمیلا بھی تو ہے ۔
ادھر کو ن ٹہل رہا ہے۔۔۔پیچھے سے کسی کی آوازآئی
آواز کان میںپڑنا تھی کہ وہ کس طرح گرتے پڑتے اور کب واپس تقریب میں پہنچ گئے ،اس کااندازہ انھیں خود بھی نہیں ہوا۔تقریب میںپہنچے تودونوں ہانپ رہے تھے ۔ذرادم لیتے ہی رانی نے کہا۔پاگل کہیں کے وہ ممی تھیںاگر کہیں دیکھ لیاہوگا تومیںتو گئی ۔وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی، تقریب ختم ہورہی تھی ،اس نے تھوڑی دیر ٹھہرنے کے بعد کہاچلو اب میں گھر جارہی ہوں۔
رانی اپنے بستر پر پڑی سو رہی تھی ۔دن بہت اوپر تک چڑھ چکا تھا۔اچانک کسی نے کمرے کی کنڈی کھٹکائی ۔رانی نے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔سامنے ممی تھیں مگر ان مسکراہٹ ایسی معنی خیز تھی کی رانی کو پوچھنے پر مجبور کردیا۔
کیابات ہے ممی ۔۔۔رانی نے پوچھا
کچھ نہیں تم جلدی سے تیار ہوکرنیچے آجا ؤ۔۔۔شازیہ نے اتنا کہااور واپس چلی گئیں
شیریںتیارہوکرسیدھے ڈائنگ روم میں پہنچی ۔یہاں پہنچ کر وہ کچھ حیرت زدہ رہ گئی کیونکہ اس کے چچاجنید،چچی امرین اور ان کابیٹاحماد آج برسوں بعد اس کے گھر آئے تھے ۔وہ سب کودیکھ کر جتناحیرت زدہ تھی اس سے کہیں زیادہ وہ خوش تھی۔
آپ سب کب آئے ۔۔۔رانی نے تعجب انگیزلہجے میں پوچھا
بس بیٹاابھی تھوڑی دیر پہلے ۔۔۔چچاجنید نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
ذارسنبھلی توچچی کی جانب متوجہ ہوئی ۔امرین پر نظر پڑی تواس ایسالگاکہ وہ شایدحماد سے کچھ کہہ رہی ہوں۔کہیں ایساتو ماں بیٹے میرے بارے میں بات کررہے ہیں۔رانی نیایک بار پھر امرین کودیکھا۔اس بارتواسے ایسالگا جیسے وہ حماد سے پوچھ رہی ہوں کہ دیکھ بیٹامیں نے تیرے لیے کتنی خوبصورت لڑکی پسند کی ہے ۔تیرے لیے آسمان سے چاندنی اتار لائی ہوں۔اور حمادبھی دیکھوجیسے وہ کہہ رہاہو کہ ہاں ممی تم ٹھیک کہہ رہی ہو لڑکی مجھے بے حدپسند ہے ۔ایک وقت توایسالگا کہ حماد اس کی بھی مرضی آنکھوں ہی آنکھوں میں ٹٹولنا چاہتا ہے ۔
رانی یکا یک اٹھی اور اپنے کمرے کی طرف تیزتیزقدموں سے بڑھتی چلی گئی ۔غصے سے تووہ بھری ہی تھی ،اس نے کمرے میں پہنچ کرسب سے پہلے فون اٹھایا اور بلاسوچے سمجھے اس نے بسمل کومیسیج کردیا۔
’’بسمل میں تم سے پیار کرتی ہوں،میں تمہیں سے شادی کروں گی اور یہ حماد کابچہ اگر اس نے شادی کے لیے حامی بھی بھر دی توسہاگ رات ہی میںاس کاگلادبادوں گی ‘‘
بسمل بہت گھری نیند میں تھا۔اچانک میسج کی آواز سے اس کی نیند کھل گئی ۔
کون ہے ۔۔۔لوگ سونے بھی نہیں دیتے۔۔۔رانی کامیسیج۔۔۔یہ رانی بھی کسی آندھی طوفان سے ۔۔۔اچانک بسمل خاموش ہوگیا۔
جیوں جیوں میسیج کوپڑھتا گیانیند اس کی آنکھ سے غائب ہوتی ہوگئی ۔ایسالگ رہاتھا کہ وہ کسی گہری سوچ میںڈوبتاجارہا ہے ۔وہ کچھ پریشان بھی لگ رہا تھا۔اس کے چہرے پر کشاکش کے آثارنمایاں تھے ۔اب توماتھے کوہاتھوںسے بل بھی دے رہا تھا۔یکا یک جب وہ پشت کو ٹیک دیتے ہوئے کچھ ٹا ئپ کرنے لگاتو ایسالگا کہ جیسے کوئی بھولی ہوئی چیز یاد آگئی ہو۔تھوڑی دیر بعداس کے ہاتھ کی انگلیاںٹھہر چکی تھیں اس نے فون کو اس طرح بستر پرپھینکاجیسے کتنابڑا بوجھ اتر گیا ہو۔
رانی بار بار فون کو دیکھ رہی تھی ۔میسیج کی گھنٹی کیا بجی وہ بھوکی شیرنی کی طرح فون پر ٹوٹ پڑی ۔پھٹاپھٹ میسیج کھولااور پڑھنا شروع کردیا۔
’’مائی ڈیر،رانی ۔۔۔۔تم نے تومیری مشکل ہی آسان کردی ۔میرے اسکول کی ایک میں فہمیدہ ہیں ۔ان کی بیٹی سے دو مہینے پہلے میری منگنی ہوچکی ہے ۔ سواری رانی ،میں تمہارے جذبات کی قدر کرتا ہوں مگر میں تم سے شادی نہیں کرسکتا ،تم نے دیرکردی ۔پارٹی میں اسی بات کیلئے بلایا تھا ،اگلے مہینے کی پہلی تاریخ کو شادی ہے سوچاتھا شادی کارڈ بھی دے دوںگااور تمہیں سب کچھ بتادوں گا مگربیڈ لک تمہاری ممی آگئیں ۔‘‘
رانی کی آنکھ بھر آئی ۔وہ اس سے آگے کچھ بھی نہ پڑھ سکی۔وہ لٹے ہوئے مسافر کی طرح فون بغل میں رکھتے ہوئے ایک جگہ بیٹھ گئی ۔آنسوؤںسے پوراچہرہ بھیگ چکا تھا۔کیامعلوم کہ وہ ماتم کررہی تھی یااس کے دل کابوجھ آنکھوںکے رستے اتر رہا تھا۔وہ چاہ کر بھی اشکوں کوروک نہیں پارہی تھی ۔اسی دوران میںکسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
کون۔۔۔ شیریں نے جذبات کے طوفان کوروکتے ہوئے پوچھا
تمہاری ممی ۔۔۔باہر سے آواز آئی ۔
رانی جھٹ سے اٹھی اور رومال سے چہرہ پوچھااور مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے درواز ے کی طرف بڑھی۔رانی دروازہ کھول کر فورا پلٹ گئی ۔شازیہ نے چہرے کودیکھتے ہی شاید بھانپ لیاتھا۔رانی مڑی توان کا شبہ یقین میں بدل گیا۔
بیٹی کیا ہوا۔۔۔تم غمگین کیوں ہو۔۔۔بیٹی بتاؤآخر کیا بات ہے ۔۔۔جیسے ہی شازیہ نے رانی کابازوپکڑارانی پھٹ پڑی۔شازیہ کی باہوں سے چمٹ کر وہ مسلسل روئے جارہی تھی ۔۔اور کہے جارہی تھی ۔۔ممی میں حماد سے شادی نہیں کروں گی ۔۔۔میں کسی سے بھی شادی
نہیں کروں گی میں تمہارے پاس رہوں گی ۔۔۔میں اس گھر سے کہیں نہیں جاؤں گی ۔ممی امرین اور حماد کومنع کردو۔۔۔ہاںہاں ٹھیک ہے
۔۔۔نہیں ممی میں شادی نہیں کروںگی ۔۔۔تم پاگل ہوتم سے شادی کون کرنے نہیں آیا تھا،وہ توملنے آئے تھے ،واپس انگلینڈجارہے ہیں۔۔۔۔۔

تبصرے بند ہیں۔