توحید کی اہمیت دین میں

تحریر : مولاناامین احسن اصلاحی ؒ ترتیب : عبدالعزیز

پچھلے مباحث کوجن لوگوں نے غورسے پڑھاہے ان سے یہ حقیقت مخفی نہیں رہی کہ نظامِ دین میں توحیدکووہی جگہ حاصل ہے جوجسم انسانی میں دل کوحاصل ہے ۔اگردل بیمارہے توساراجسم بیمارہے اوراگردل تندرست ہے توساراجسم تندرست ہے ۔ یہی رازکہ توحیدکے بغیرآدمی کاکوئی عمل مقبول نہیں ہے اورتوحیدکے ساتھ ہرغلطی کے بخشے جانے کی توقع ہے چنانچہ فرمایاہے کہ اللہ تعالیٰ شرک کومعاف نہیں فرمائے گااوراسکے سواجوکچھ ہے جس کے لیے چاہے گا، معاف فرمائے گا۔
توحیدکی اس اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ سارے دین کی عمارت تین چیزوں پرقائم ہے ۔ توحید، رسالت، معاد جس کے معنی یہ ہیں کہ توحیدسارے دین کاایک ثلث ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سورہ اخلاص کوجوخالص توحید کی سورہ ہے ثلث قرآن کہاگیاہے ۔لیکن اگرمزیدغورکیجئے تومعلوم ہوگاکہ رسالت اورمعادبھی توحیدکے تحت آتے ہیں۔ رسالت کاجزوتوحیدہونایوں ثابت ہے کہ خداہی کوشارع اورقانون سازماننابھی توحیدکے مقتضیات میں سے ہے اوراللہ تعالیٰ اپنے احکام وقوانین اپنے رسول کے ذریعہ سے بھیجتاہے ۔ اس مسئلہ پرہم مفصل بحث اپنی کتاب ’’حقیقت رسالت ‘‘ میں کریں گے اوروضاحت کے ساتھ لاالہ کے ساتھ محمدرسول اللّٰہ کے تعلق کی تشریح کریں گے ۔ وہاں یہ حقیقت پوری طرح واضح ہوجائے گی کہ آنحضرت ﷺکورسول اورزندگی کے ہرشعبہ میں واجب الاطاعت مانناتوحیدکاجزولاینفک ہے جوشخص اللہ کوواحدکہتاہے لیکن آنحضرت ﷺکی شریعت کی پیروی سے منحرف ہے وہ قطعی مشرک ہے ، اس کوتوحیدسے کوئی سروکارنہیں ہے۔
باقی رہامعادکامسئلہ تووہ توحیدکے تحت مختلف پہلوؤں سے داخل ہے ۔ ہم اپنے رسالہ حقیقت معادمیں تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے کہ معادخداکے صفات کالازمی اقتضاء ہے ۔ یہاں صرف اس بات کویادرکھناچاہئے کہ معادکی ساری روح توحیدہے جولوگ معادکے قائل ہیں لیکن ساتھ ہی شرکاء وشفعاء کوبھی مانتے ہیں جواُن کے زعم کے مطابق ان کوبخشوالیں گے ۔ ان کے لئے معادکاعقیدہ بالکل بے جان ہے ۔ وہ خداکے سامنے جوابدہی کی ذمہ داری اوراس کے قانونِ عدل کے ظہورسے ویسے ہی بے خوف ہوجاتے ہیں جیسے معادکے منکرین ۔ چنانچہ اہل عرب اوریہودونصاریٰ کایہی حال تھا۔ انھوں نے معادکی ساری اہمیت شفاعت وکفارہ کے عقیدہ سے باطل کردی تھی اوریہی حال مسلمانوں کے مبتدع گروہوں کاہے ۔ یہی وجہ ہے کی قرآن مجیدمیں توحیداورمعادکابیان اکثرساتھ ساتھ ہوتاہے کیونکہ معادکی ساری حقیقت ہواہوجائے ۔اگر توحیدکے تصوّ رمیں ذرابھی خلل واقع ہو۔ اس سے معلوم ہواکہ دین کاسارانظام توحیدسے روشن ہے ۔ اس جسم کی روح اوراس آنکھ کی پتلی توحیدہی ہے اس کے بغیرنہ کوئی عقیدہ مؤثرہے نہ کوئی عمل مثمر۔ یہیں سے دین کاپہلاقدم اُٹھتاہے اورپھریہیں اس کاآخری قدم پڑتاہے ۔ یہ دین کادائرہ ہے اوردین اسی وقت تک محفوظ رہتاہے جب تک اس دائرہ کے اندرہے ۔یہی نکتہ ہے کہ سورہ بنی اسرائیل میں جہاں دینِ فطرت کے احکام وقوانین کی تعلیم دی ہے اس کاآغاز’’اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کوشریک نہ کرو‘‘ سے کیااورپھرساری باتیں بیان کرنے کے بعدفرمایاکہ’’یہ باتیں اس حکمت میں سے ہیں جوتیرے رب نے تیری طرف وحی کی ہیں اوراللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبودکوشریک نہ کر‘‘(آیات ۲۲۔۲۹ بنی اسرائیل) اس سے معلوم ہواکہ دین کاآغازاوردین کی انتہادونوں توحیدہے اورشرائع واحکام درحقیقت توحیدکامل تک پہنچنے کے وسائل وذرائع ہیں۔
توحیدکی اسی اہمیت کی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیامیں جتنے انبیاء آئے سب نے اپنی دعوت کاآغازتوحیدسے کیا۔اوراس نقطہ پراس طرح جمے کہ کسی حال میں اس سے بال برابرسرکنے پرراضی نہ ہوئے۔ مخالفین نے لاکھ چاہاکہ پیغمبراس معاملہ میں تھوڑی سی مداہنت گواراکرلے ۔ ذرااپنے رویّہ میں نرم ہوجائے ۔ کم ازکم ان کے بتوں کی تحقیرہی سے بازآجائے توآگے بڑھ کراس سے سمجھوتہ کرلیں لیکن پیغمبرنے ایک لمحہ کے لئے اس میں کسی قسم کی نرمی گوارانہ کی۔انھوں نے مخالفتوں سے ان کوڈراناچاہااوروہ سب کچھ کرڈالاجوان کے بس میں تھالیکن اس کواس جگہ سے نہ ہلاسکے ،انھوں نے ترغیب کے پھندے ڈالے اوررشوت میں وہ سب کچھ پیش کیاجوکرسکتے تھے لیکن اسے رام نہ کرسکے ۔ معززترین گھرانے میں شادی ، دولت کے ڈھیر، سروری وسرداری، ساری ہی چیزیں پیش کی گئیں۔لیکن ساری ترغیبوں کے جواب میں اُن کے سامنے وہی توحیدکی دعوت پیش کی گئی۔جب ان تدبیروں میں ناکام رہے تومخالفین نے آخری حربہ اُٹھالیااورپیغمبراوراس کے ساتھیوں کومجبورکردیاکہ وہ اپنے گھرکو، اپنے اعزہ کو، اپنے خاندان کو، اپنی املاک وجائدادکواوراپنے ملک ووطن کوچھوڑدیں۔ خداکے ہرنبی نے اس کوبھی گواراکرلیا۔ قرآن ہمارے سامنے موجودہے ۔ اس میں تمام انبیاء کرام کی ہجرت کی سرگزشتیں بیان کی گئی ہیں۔ان کوپڑھو۔ ہرنبی کی زبان پراپنی قوم کوچھوڑتے وقت جوآخری کلمہ جاری ہوتاہے وہ توحیدکاکلمہ ہوتاہے ۔یہی چیزہے جس کے لئے وہ سب کچھ چھوڑتاہے ۔اورسب کوچھوڑکرتنہایہی چیزہے جس اپنی معیت ورفاقت کے لئے منتخب کرتاہے ۔غورکروایساکیوں ہے؟کیابات ہے کہ انسان سب کچھ چھوڑدے مگرتوحیدپرحرف نہ آنے دے ؟بدرمیں باپ نے بیٹے پر،چچانے بھتیجے پر، ماموں نے بھانجے پر، بھائی نے بھائی پرتوحیدکی خاطرتلوارچلائی اس کے لئے بیویوں نے شوہروں سے اورشوہروں نے بیویوں سے جدائی اختیارکرلی۔عزیزسے عزیزقرابتوں اورمحکم سے محکم روابط پرقینچی چل گئی واران لوگوں کے ہاتھوں سے چل گئی جوانسانیت کے گُلِ سر سیدتھے جورحم ومحبت اوراخلاص ووفاکے پیکرتھے ، جس نے بڑھ کراپنی قوم ، اپنے قبیلہ سے ،اپنے عزیزوں سے اورپھرعام انسانوں سے محبت کرنے والے لوگ اس زمین پرپیدانہیں ہوسکتے ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے کچھ لوگ جب گوسالہ پرستی کے مرتکب ہوتے ہیں تووہ حکم دیتے ہیں کہ جس قبیلہ کامجرم ہے اسی قبیلہ کے لوگ اسے قتل کردیں اوربدرکے قیدیوں کے متعلق فاروق اعظم رضی اللہ عنہ یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ہرشخص اپنے عزیزپرخوداپنے ہاتھ سے تلوارچلائے۔ اللہ اکبر!توحیدکاحق یہ ہے کہ آدمی کاایک ہاتھ اگراس کی حرمت کوبٹہ لگائے تواس کادوسراہاتھ اس سے انتقام لینے میں ذرہ برابررحم ومروّت کودخل نہ دے۔
توحیدکی اس عظمت کہ وجہ وہی ہے جواُوپرکی مختلف فصلوں میں بیان ہوچکی ہے۔توحیدسب سے بڑے حق یعنی خداکے حق کااقرارہے ۔یہی عدل وقسط کی بنیادہے جوشخص اس حق کونہیں پہچانتاوہ کسی کے بھی حق کونہیں پہچان سکتا۔ یہاں تک کہ وہ اپنے نفس کے حق کوبھی نہیں پہچانتا۔ اس سے اسی طرح کی ناانصافیاں اورتعدیاں ظہورمیں آئیں گی، جیسی کہ موجودہ زمانہ کے ظالم اورناشکرگزارانسانوں سے ظہورمیں آرہی ہیں اورجس کی طرف ہم نے پچھلی فصل میں اجمالی اشارہ کیاہے ۔ پس انبیاء کرام جویکسرحق اورانصاف کی دعوت ہوتے ہیں وہ توحیدکے معاملہ میں کسی قسم کی مداہنت کیونکرگواراکرسکتے ہیں جبکہ توحیدہی تمام حقوق کی بنیادہے ۔ وہ اس معاملہ میں نہ باپ کومعاف کرسکتے ہیں نہ چچاکو، نہ بیٹے کو، نہ بیوی کو۔ جوچیزبھی اس حق کی ادائیگی میں مانع ہو ٗ وہ ایک پتھرہے اورضروری ہے کہ اس پتھرکوراہ سے ہٹادیاجائے۔
پس انبیائے کرام کی ساری جدوجہدکامقصودتوحیدخالص کاقیام ہے ۔ وہ دُنیامیں اسی لئے آتے ہیں کہ خداکے بندوں کودوسروں کی بندگی سے چُھڑاکرخالص خداکابندہ بنادیں۔وہ اسی کوخالق مانیں،اسی کوبادشاہ کہیں، اسی کی بندگی کریں، اسی کی اطاعت کریں،اسی پراعتمادوتوکل کریں، اسی سے طالبِ مددہوں۔نعمت ملے تواسی کاشکراداکریں، مصیبت آئے تواسی سے استغاثہ کریں۔ طمع ہویاخوف ،امیدہویابیم، ہرحال میں نظراسی کی طرف ہو۔ وہ اپنے تئیں بالکلیہ اس کے حوالہ کردیں۔ ان کی محبت اس کی محبت کے تابع ، ان کی پسنداس کی پسندکے تحت ہو۔ اس کی ذات میں، اس کی صفات میں، اس کے حقوق میں اس کی یکتائی تسلیم کریں اورکسی پہلوسے ان چیزوں میں کسی کوشریک نہ ٹھہرائیں،نہ کسی فرشتے کو، نہ کسی جن کو، نہ کسی نبی کو، نہ کسی اورکو،نہ اپنی ذات کو۔
توحیدکی یہ حقیقت واضح ہوجانے کے بعدیہ بات بالکل صاف ہوگئی کہ اصل حقیقت کے اعتبارسے توحیددین کاتصوّ رایک جزنہیں ہے بلکہ یہ سارے دین کومحیط ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اس کے معنی یہ ہیں کہ توحیدسے باہردین کاتصوّ رنہیں کیاجاسکتا۔ خداکے انبیاء یہیں سے اپناکام شروع کرتے ہیں اوراسی پرختم کرتے ہیں ۔ یہی رازہے کہ قرآن مجیدتوحیدسے شروع ہوتاہے اورتوحیدہی پرختم ہوتاہے ۔ قرآن کی پہلی سورۂ فاتحہ ہے جس کی اصل روح خداکی خالص شکرگزاری اورکامل تفویض وتسلیم ہے اورآخرمیں سورۂ نصرمیں فتح مکہ کی بشارت اورسورۂ تباب میں باطل کی شکست کی پیشین گوئی کے بعدسورۂ اخلاص رکھی گئی جوخالص توحیدکی سورہ ہے ۔ یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ دین کامرکزی نقطہ توحیدہے اوراب دین اپنے مرکزپرپہنچ گیا۔ اس کے بعدمعوذتین قل اعوذبرب الفلق اور قل اعوذبرب الناس رکھ دی گئی ہیں جوشیطان کی آفتوں سے اس خزانۂ توحیدکی حفاظت کررہی ہیں کیونکہ یہ معلوم ہے کہ شیطان کوبنی آدم سے جوحسدہے ۔ اس حسدکے جوش میں اس کی سب بے بڑی کوشش یہ ہے کہ انسان کوتوحیدکے نقطہ سے ہٹادے۔ چنانچہ اسی وجہ سے اس نے کہامیں نے ان کے لئے تیری سیدھی راہ پرگھات میں بیٹھوں گا یعنی ان کوتوحیدکے رستہ پرقائم نہ رہنے دوں گااورتوُ ان میں سے اکثرکواپناشکرگزارنہ پائے گایعنی وہ شرک میں مبتلاہوجائیں گے۔

تبصرے بند ہیں۔