توکل : کامل ایمان اور خوش حال معاشرہ کا ضامن

ڈاکٹر سید وحید اللہ حسینی القادری

        مولانا ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی (کامل الحدیث جامعہ نظامیہ) خلیفہ و جانشین دوم حضرت ابو العارف شاہ سید شفیع اللہ حسینی القادری الملتانیؒ (سابق سجادہ نشین درگاہ امام پورہ شریف) و جنرل سکریٹری مرکزی مجلس فیضان ملتانیہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ توکل اسلامی نظام اخلاق کا اہم جزو ہے جو اسلام اور ایمان سے کبھی جدا نہیں ہوسکتا۔ اللہ پر توکل انبیاء و مرسلین کا خصوصی شعار رہا ہے۔ جب انسان جلب منفعت اور دفع ضرر کے لیے اپنی ذاتی صلاحیتوں کو کافی نہیں سمجھتا تو اپنی مشکل حل کرنے کے لیے دوسرے کی صلاحیت سے استفادہ کرتا جسے عرف عام میں وکیل کہتے ہیں۔ دنیا و آخرت کا کوئی معاملہ ایسا نہیں ہے جو رب قدیر کی بے پناہ قدرت کی حمایت کے بغیر سنور سکتا ہو اسی لیے اللہ تعالی کے اسماء حسنی میں ایک نام ’’الوکیل‘‘ ہے۔ بندہ اپنے ضعف کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے تمام امور رب کے سپرد کردیتا ہے تو اسے متوکل کہتے ہے جو اللہ تعالی کو بہت پسند ہے۔ چونکہ متوکل نہ غیر کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور نہ ہی اپنی قوت و طاقت اور ذات کی طرف توجہ کرتا ہے اس کا آسرا صرف اور صرف ذات باری تعالی ہوتی ہے اور یہی عبادات کا لب لباب اور ماحصل ہے۔ جب یہ کیفیت انسان کو حاصل ہوجاتی ہے اسے توکل کہتے ہیں۔ المختصر توکل کے معنی بندہ کا جائز اسباب و تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ نتیجہ کو اپنی کمزوری و ضعف اور قادر مطلق کی عظیم قدرت و رحمت واسعہ کا اعتراف کرتے ہوئے رب کائنات کے سپرد کردینے کے ہیں۔

 انسان کے افکار میں جتنی صالحیت اور تابندگی ہوگی اس کے توکل میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ بندہ پر لازم ہے کہ وہ توکل کو کم کرنے والا اعمال جیسے بندوں پر زیادہ اعتماد کرنے، نفسانی لذائذ میں مگن ہونے، اطاعت و فرمانبرداری میں کوتاہی کرنے، جاہ و حشمت پر فخر و ناز کرنے، اسباب پر کلی بھروسہ کرنے حد درجہ اجتناب کرے چونکہ یہ تمام اعمال توکل کے منافی ہیں۔ انسان جب یہ جان لیتا ہے کہ دنیا کی کوئی چیز نہ اسے نفع پہنچاسکتی ہے اور نہ نقصان، نہ کچھ دے سکتی ہے اور نہ کچھ چھین سکتی ہے تب وہ روحِ توکل سے آشنا ہوجاتا ہے۔جب بندہ مومن کی فکر و روح میں توکل کے یہ معنی و مفہوم نفوذ کرجاتے ہیں تو وہ کہہ اٹھتا ہے و افوض امری الی اللہ۔ لیکن افسوس صد افسوس ان حقائق کو جاننے کے باوجود مسلم معاشرے میں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو موقتی منصب و عہدہ، قوت و طاقت، اثر و رسوخ، اقتدار اور اختیار حاصل ہوجانے پر اپنی من مانی کرنے لگتے ہیں اور سمجھتے ہیں وہ جو چاہتے ہیں کرسکتے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ قوت و اقتدار انہیں ظالموں کا ساتھ دینے اور مظلوم کے حقوق تلف کرنے کے لیے نہیں دیا گیا بلکہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے ان کے لیے آزمائش و امتحان ہے اگر وہ قوت و طاقت کا صحیح استعمال کریں گے تو ان کی دنیا و آخرت سنور جائے گی اور اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق اس کا غلط استعمال کریں گے تو موقتی خوشیوں انہیں ضرور مل جائیں گی لیکن ان کی اس بد عملی کی نحوست سے ان کی دنیا و عقبی دونوں ہی تباہ و تاراج ہوجاتے ہیں۔ تاریخ انسانیت شاہد ہے کہ جب جب انسان اپنے اختیار و اقتدار کا غلط استعمال کیا ہے انسانی معاشرہ اضطراب و بے چینی کا شکار ہوا ہے اور جب بندہ اپنے اثر و رسوخ کا صحیح استعمال کیا ہے تو انسانی معاشرہ میں ہر سو امن و خوشحالی پھیلی ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ؓکا قول مبارک ہے کفر کا نظام چل سکتا ہے مگر ظلم کا نظام نہیں۔ اثر و رسوخ، منصب و عہدے اور قوت و طاقت کے نشہ میں چورہوجانا توکل اور مومنانہ کردار کے بالکل مغائر ہے چونکہ ہمیں تو یہ تعلیم دی گئی کہ تمام ظاہری اسباب و ذرائع اور وسائل ہونے کے باوجود تمام قدرتوں سے بالاتر اللہ تعالی کی ناقابل شکست قدرت پر یقین کرنا چاہیے جو ہر عجز و نقص سے منزہ و پاک ہے۔ جب انسان سامان و مال اور دیگر اسباب و ذرائع پر اعتماد کرنا چھوڑ دیتا تو اسے نہ صرف توکل کی دولت مل جاتی ہے بلکہ اسے ذہنی سکون اور قلبی اطمینان بھی مل جاتا ہے اب نہ خوشحالی اس کے انداز کو تبدیل کرتی ہے اور نہ بدحالی۔ انسان کو حاصل ہونے والی یہ کیفیت خوشحال زندگی گزارنے کے لیے از حد ضروری ہے۔ جب ایسے افراد کی معاشرہ میں کثرت ہوجاتی ہے تو معاشرہ خو د بہ خود خوشحال بن جاتا ہے۔علاوہ ازیں جس شخص کو توکل کی دولت مل جاتی ہے اس کے لیے زمانے کے تمام مشاکل و مسائل، شدت و خطرات، مصائب و آلام، حوادثات اور باطل طاقتوں کا مقابلہ کرنا بھی بہت آسان ہوجاتا ہے۔ پھر دنیا کی ہمت نہیں ہوتی کہ اسے ہجومی تشدد، سنگین دفعات کے تحت گرفتار و ہراساں کرنے، ملک سے غداری کے مقدمات دائر کرنے، جائیدادیں قرق کرنے جیسے کاررائیوں سے ڈراسکے چونکہ توکل صرف بھروسہ کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ اس سے اللہ تعالی کی وحدانیت پر یقینِ محکم رکھنے کا اظہار بھی ہوتا ہے۔

تاریخ اسلام اور سیر کی کتب میں یہ واقعہ درج ہے کہ ابو نعیم ثقفی نے ابو سفیان کی جانب سے اعلان کردہ دس اونٹ کا انعام پانے کی لالچ میں مدینہ طیبہ میں مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنے کے لیے یہ پروپگنڈہ شروع کردیا کہ اس بار ابو سفیان پوری تیاری کے ساتھ بدر کی طرف آرہا ہے اگر تم اپنی جان و مال کی حفاظت چاہتے ہو تو بدر جانے کا ارادہ ترک کردو ورنہ تم میں سے کوئی نہیں بچے گا۔مسلمانوں نے ہٹ دھرم مخالفین اسلام کی دھمکیوں، وسوسوں، ذہنی دبائو اور ان کی طرف سے پہنچائی جانے والی ممکنہ اذیتوں اور ظلم و ستم کی کارروائیوں سے مرعوب ہوئے بغیر محض اللہ تعالی کی کمال ِ قدرت پر بھروسہ کرتے ہوئے بدر کی طرف روانہ ہوئے تو اللہ تعالی نے انہیں ایسی روحانی طاقت عطا فرمایا جس کے سبب وہ نہ صرف مشکلات پر غلبہ پانے میں کامیاب ہوئے بلکہ شاداں و فرحاں، صحیح و سلامت مدینہ طیبہ کو مراجعت فرما بھی ہوئے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جب بندہ قادر و توانا پروردگار پر مکمل اعتماد رکھتا ہے تو اللہ تعالی اسے اپنی حمایت کے زیر سایہ لے لیتا ہے اور وہ دنیا و ما فیھا کے مقابلے میں بندہ کے لیے کافی ہوجاتا ہے چونکہ اس کی تائید و نصرت کے سامنے دنیا کی تمام قدرتیں ہیچ ہیں۔

قرآن مجید میں سات مقامات ایسے ہیں جہاں مومنین کو اللہ تعالی پر توکل کرنے کی تلقین و تاکید کی گئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان و توکل لازم و ملزوم ہیں رب کائنات کی ذات پر جتنا توکل زیادہ ہوگا بندہ کی پامردی، استقامت اور ایمانی حرارت میں اتنا ہی اضافہ ہوگا اور جب لوگ توکل کے ساتھ صراط مستقیم پر گامزن ہوجاتے ہیں تو معاشرے میں خوشحالی آجاتی ہے اس کے برعکس جب انسان استقلال و اعتماد سے عاری ہوجاتا ہے تو لازماً اس کا نتیجہ ایمان کی کمزوری میں ظاہر ہوتا ہے اور جن کا ایمان کمزور پڑجاتا ہے ان پر دنیا، شیطان اور نفس کا غلبہ اور تسلط ہوجاتا ہے اور اس کی ذات پورے انسانی معاشرے کے لیے تباہی و بربادی کا سبب بن جاتی ہے۔انسان اصولی طور پر ایک کمزور مخلوق ہے جو اپنی فطری کمزوریوں کے باعث بہت سارے معاملات میں قوت شناخت کھو بیٹھتی ہے یہی وجہ ہے کہ انسان اکثر دنیا کی فریب کاریوں اور پیچیدگیوں کا صحیح ادراک کرنے، شیطان کی دشمنیوں اور منصوبوں سے واقف ہونے اور شہوانی خواہشات و نفسانی ہوا و ہوس کے طوفان سے مقابلہ کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے۔ دنیا، شیطان اور نفس کے دام فریب میں پھنسنے کا ہی نتیجہ ہے کہ انسان وہم کی تاریکیوں و بے راہ رویوں میں سرگرداں رہتا ہے نتیجتاً وہ ان کی فتنہ انگیزیوں کا شکار ہوکرقرآنی ہدایات سے منحرف ہوجاتا ہے اس طرح وہ دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں جہنم کا حقدار بن جاتا ہے لیکن جب صاحب ایمان اپنے تمام امور تما م قدرتوں اور قوتوں کے سرچشمے یعنی قادر مطلق کے سپرد کردیتا ہے تو وہ ذات اس کے لیے تمام مشکلات کے حل کے لیے کافی ہوجاتی ہے چونکہ تمام طاقتیں اور کامیابیاں اسی کی طرف سے ہیں۔

قرآن مجید واضح الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ شیطان کا زور ان نفوس قدسیہ پر نہیں ہوتا جو صدق دل سے ایمان لاتے ہیں اور عملی دنیا میں مسبب الاسباب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ جو بندہ مومن اللہ تعالی کی ذات پر کامل بھروسہ رکھتا ہے اللہ تعالی اسے ہمیشہ اپنے لطف و مہربانی کے سایہ میں رکھتا ہے جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ شیطان کے مکر و فریب اور راہ ہدایت سے بھٹکانے کے لیے شیطان کے استعمال کیے جانے والے مختلف ہتھکنڈوں سے محفوظ و مامون ہوجاتا ہے۔ باالفاظ دیگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو قادر مطلق پر کامل بھروسہ رکھتا ہے اس کا دامن گناہوں کی آلودگیوں سے پاک اور نیکیوں سے بھر جاتا ہے۔ ایسی مبارک ہستیوں کے وجود کی برکتوں سے انسانی معاشرے میں ہر سو خوشحالی پھیل جاتی ہے۔اس کے برعکس جس کے توکل میں کمی ہوتی ہے وہ آسانی سے شیطان کے دام فریب میں پھنس جاتا ہے، نیکیوں سے دور، گناہوں کے ارتکاب پر جری ہوجاتا ہے اور اس کا وجود پورے انسانی معاشرے کے لیے عبرت کا نشان بن جاتا ہے۔ توکل کے حوالے سے خانقاہی نظام کا جائزہ لیا جائے تو وہاں کی صورتحال تو مز ید ابتر ہے چونکہ بیشتر خانقاہوں پر ایسے لوگوں کا قبضہ و تسلط ہے جو تصوف کی مبادیات سے بھی ناواقف ہیں۔ یہی نام نہاد اور جعلی پیراپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے سستی و کاہلی کا شکار ہوکر یہ کہتے ہیں کہ مجھے اللہ کی ذات پر بھروسہ ہے۔ ایسے باطل خیال کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق ہے۔امام جعفر صادقؓ فرماتے ہیں جو شخص کسب معاش کے لیے سعی و کوشش اور جد وجہد نہیں کرتا اس کی دعائیں شرف قبولیت سے محروم ہوجاتی ہیں۔ جس شخص کی دعائیں بارگاہ خداوندی قبول نہ ہوں وہ اللہ کا محبوب اور ولی کیسے بن سکتا ہے۔

صوفی بزرگ شعرانیؒ سے کسی نے سوال کیا کہ عباد یعنی عبادت گزار بندے بہتر ہیں یا صناع یعنی صنعت کار حضرات آپ نے جواب دیا صنعت کار عباد سے بہتر ہے چونکہ عبادت گزار بندوں کی عبادت کا فائدہ ان کی ذات تک محدود رہتا ہے جبکہ صنعت کاروں کی کاوشوں کا فائدہ ان کی ذات کے علاوہ مخلوق خداوندی کو پہنچتا ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صوفی وہ نہیں جو گوشہ نشین ہوکر عبادت میں مصروف رہے بلکہ حقیقی صوفی وہ ہے جو محنت و مشقت کے امور انجام دینے کے ساتھ رب کائنات کی اطاعت و فرمانبرداری میں مصروف رہتا ہے۔صوفیا کرام ایک طرف اللہ تعالی کی قدرت و رحمت اور اس کی جانب سے مقرر کردہ مقدرات پر کامل بھروسہ رکھتے ہیں تو دوسری طرف سخت محنت و مشقت کرنے میں اسوہ مصطفیؐ کی پیروی کرتے ہیں۔ اسباب و تدابیر کو اختیار کیے بغیر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا، زانو پر زانو ڈالے بیروزگاری میں زندگی بسر کرنا، گوشہ تنہائی اختیار کرنا اور یہ کہنا کہ میرا سہارا اللہ تعالی ہے یہ سراسر اسلام کے تصورِ توکل کے خلاف ہے۔ کیونکہ توکل کے اصل معنی انسان حتی المقدور جد و جہد کرے اور اس کے نتیجے کے حصول کے لیے اللہ تعالی کی ذات پر کامل بھروسہ کرے۔ نام نہاد اور جعلی پیر نہ کوئی ملازمت کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کاروبار سے منسلک ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر توکل کیے ہوئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کی اسبابِ زندگی کی فراہمی کی ذمہ داری مریدین پر ہوتی ہے اس طرح یہ لوگ توکل کی آڑ میں خود اپنی صلاحیتوں کو غارت کررہے ہیں اور انسانی وقار کو مجروح کررہے ہیں اگر یہ چاہیں تو اپنی توانائیوں کا صحیح استعمال کرتے ہوئے خود بھی مالی طور پر خود کفیل بن سکتے ہیں اور دوسروں کو ملازمت دیکر بیروزگاری کے مسئلہ کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن مفت خوری نے ان کی تمام صلاحیوں کو ناکارہ بنادیا ہے۔ ایسے حضرات مریدوں پر مالی بوجھ بنے ہوئے ہوتے ہیں نہ جانے کتنے مریدین ایسے ہیں جو اپنے جعلی پیر کی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے اپنے گھر والوں کی خوشیوں کا گلا گھونٹ رہے ہوں گے، کتنے مریدین ایسے ہوں گے جو اپنے جعلی پیروں کی فرمائشیں پوری کرنے کے لیے حرام طریقے سے پیسہ کمانے پر مجبور ہورہے ہوں گے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو معاشرے کو بدحالی کی طرف ڈھکیل رہی ہے۔

توکل کے حقیقی مفہوم کو عام کرنے اور انسانی معاشرے کو خوشحال بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان ایسے نام نہاد اور جعلی پیروں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں جو ہر مسلمان کا اخلاقی و مذہبی فریضہ ہے۔آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآن ﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔