تو ہائے گل پکار میں چلائوں ہائے دل

کلیم الحفیظ

 ڈاکٹرکی ایک غلطی انسان کو موت کے منھ میں دھکیل دیتی ہے،جج کی ایک غلطی پھانسی کے تختے پر پہنچا دیتی ہے لیکن ووٹروں کی ایک غلطی کئی نسلوں تک تکلیف دیتی ہے۔ سوئے اتفاق بھارت میں آزادی کے بعد سے یہی کچھ ہورہا تھا اور اس بار بھی وہی ہوا۔ مسلمانوں نے ماضی کے تجربات سے کچھ نہیں سیکھاوہ ایک بار پھر ان نام نہاد سیکولرپارٹیوں کی عزت  بچانے کے لیے جان پر کھیل گئے جو پارٹیاں مسلسل مسلمانوں کی عزت و آبرو سے کھیلتی رہی ہیں۔ اس حقیقت سے کس کو انکار ہے کہ ہماری موجودہ پسماندگی کی اصل ذمہ دار کانگریس ہے۔ اس کے باوجود مسلمان کانگریس کا جنازہ اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ صرف اس لیے کہ ان کے آباء و اجداد کانگریسی تھے۔ کون نہیں جانتا کہ مظفر دنگوں سمیت سینکڑوں فرقہ وارانہ فسادات میں سماج وادی پارٹی کا ہاتھ رہا ہے، لیکن مسلمان اسی کے پیچھے نیت باندھے کھڑے ہیں، بی ایس پی اور راشٹریہ لوک دل کے بی جے پی پریم سے کون ناواقف ہے، مگر مسلمان کروڑوں روپے کا ٹکٹ بھی بی ایس پی سے خرید رہا ہے،کروڑوں روپے خرچ بھی کررہا ہے اور اس کے باجود بہن جی کی گالیاں بھی کھارہا ہے۔

الیکشن کے رذلٹ اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ پہلے مرحلے میں مغربی اتر پردیش کے ان علاقوں میں انتخابات ہوئے جہاں جاٹ ووٹ اثر انداز ہوتا ہے۔ وہاں 58سیٹوں میں سے صرف 12سیٹیں مہا گٹھ بندھن کے حصے میں آئیں۔ اسی طرح یادو بیلٹ میں جب الیکشن ہوا تو 35میں سے 23سیٹیں بی جے پی نے جیت لیں۔ آخر جاٹ اور یادو نے اپنی پارٹیوں کو ووٹ کیوں نہیں دیا۔ صرف مسلم علاقوں میں گٹھ بندھن کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی۔ اس لیے کہ 83فیصد مسلم ووٹ اسے حاصل ہوا۔ بہوجن سماج پارٹی جس نے اپنی ہار کا ٹھیکرا مسلمانوں پر پھوڑا ہے۔ اسے 12فیصدووٹ حاصل ہوئے جب کہ خود اس کا اپنا 40فیصد جاٹو ووٹ اس سے دور چلاگیا۔ آخر ہاتھی کا نشان دیکھنے والی آنکھیں کمل کا پھول کیسے دیکھنے لگیں۔ پوری انتخابی مہم میں بہن جی کہیں بھی الیکشن لڑتے دکھائی نہیں دیں، جس طرح نتیجوں کے بعد ان پر سے  اور ستیش مشرا پر سے بعض مقدمات اٹھائے گئے اور سیاسی گلیاروں میں جس طرح ان کے لیے  صدر جمہوریہ بننے کی افواہیں گردش کررہی ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ بہن جی نے بی جے پی سے ماقبل الیکشن ہی اگریمنٹ کرلیا تھا۔

نتیجوں کے بعد مجلس اتحاد المسلمین پر وہی الزام لگایا گیا جو بہار میں لگایا گیا تھا کہ اس کی وجہ سے بی جے پی کی حکومت بنی ہے۔ الزام لگانے والوں میں بڑے بڑے دانشور شامل ہیں، بلکہ ایک معروف اسلامی جماعت کے ایک اسکالر نے بھی یہی الزام لگایا ہے۔ یہ الزام سراسر بد دیانتی پر مبنی ہے۔ مجلس نے کل 94سیٹوں پر حصہ لیا۔ کسی جگہ کامیاب نہیں ہوئی،اس کو پانچ لاکھ سے بھی کم ووٹ حاصل ہوا۔ جب کہ ہار جیت کا فاصلہ تقریبا ایک کروڑ ووٹوں کے آس پاس ہے۔ اگر مجلس کے سارے ووٹ سماج وادی کو دے دیے جائیں تو اس کو سات سیٹوں کا فائدہ ہوسکتا ہے۔ مجلس کی 94سیٹوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف سات سیٹیں ایسی ہیں جہاں مجلس کو اتنا ووٹ ملا کہ جتنے ووٹوں سے گٹھ بندھن کا امیدوار ہارا ہے۔ اس میں بجنور، مراداباد شہر،نکوڑ،کرسی،سلطان پور،شاہ گنج اور اورئی کی سیٹیں شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ باقی کی 271سیٹوں پر کس کی وجہ سے گٹھ بندھن کو شکست ہوئی ؟ یہ اعداو شمار بھی پیش کیے جانے چاہئیں۔

سو سے زائد سیٹیں وہ ہیں جہاں کانگریس نے اتنا ووٹ حاصل کیاکہ اگر وہ گٹھ بندھن کو مل جاتا تو گٹھ بندھن کو فتح مل جاتی۔ کئی درجن سیٹوں پریہی حال بی ایس پی کا رہا۔ کئی مقامات پر یہ کردار عام آدمی پارٹی نے ادا کیا۔ لیکن کوئی ان پارٹیوں کو ووٹ کٹوا نہیں کہہ رہا ہے، آخر نام نہاد سیکولر پارٹیوں  سے کوئی نہیں پوچھتا کہ ان کے اپنے ووٹروں نے غداری کیوں کی۔ صرف ایک مجلس ہے جس پراپنے بھی اور بیگانے بھی کرم فرمائیاں کررہے ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ ملک کا ہر طبقہ اپنی پارٹی بنائے،اور الیکشن میں حصہ لے تو کوئی بات نہیں صرف مسلمانوں پر یہ پابندی ہے کہ وہ نہ اپنی پارٹی بنائیں اور نہ حصہ لیں۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ باقی کی تین ریاستوں اترا کھنڈ، منی پور اور گوا میں بی جے پی کیوں جیت گئی  پنجاب میں کانگریس کیوں ہار گئی ؟وہاں تو مجلس نہیں تھی، وہاں کے بارے میں دانشور کیا فرمائیں گے؟دراصل ہمارے دانشور احساس کمتری کا شکار ہیں، یہ قلم کے سپاہی ہیں جو ٹھنڈی چھائوں میں بیٹھ کر اس شخص پر تبصرے کررہے ہیں جس نے مکمل 42دن اپنے گھر کا منھ نہیں دیکھا اور مستقل ایک جگہ سے دوسری جگہ اذان لگانے جاتا رہا۔ وہ مستقل آواز دیتا رہا کہ اے مسلمانوں تم سب مل کر بھی بی جے پی کو نہیں ہرا سکتے،نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے جال میں نہ پھنسو، وہ آگاہ کرتا رہا کہ ان سیکولر پارٹیوں کا اپنا ووٹ بھی ان کے پاس نہیں ہے، لیکن اس کی آواز پر کان نہیں دھرا گیا اور ایسا لگا جیسے ساری قوم ضد میں بہری ہوگئی ہے۔ ایک دانشور کا الزام ہے کہ اویسی صاحب کا لہجہ اور طرز بیان بی جے پی کو تقویت دیتا ہے۔ کیا حق بات کہنا، اپنا حق طلب کرنا،منافقوں کی منافقت اجاگر کرنا فرقہ واریت ہے ؟کیا ہمارے دانشور چاہتے ہیں کہ ہم درد پر آہ بھی نہ کریں ؟کیا وہ خود اس کا حوصلہ رکھتے ہیں کہ ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں سے سوال کریں جن کی ہمدردی میں وہ اویسی صاحب پر الزامات لگارہے ہیں ؟کیا یہ دانشور اتنی بیباکی اور جرأت دکھائیں گے جتنی ایک دین کا شیر دکھا رہا ہے؟کیا جمہوری نظام میں چینخے چلائے بغیر کوئی حق کسی کو ملا ہے؟ہمارے دانشور خود بھی نہیں بولیں گے۔ ان کے منتخب کردہ ارکان بھی چپی سادھ لیں گے تو آخر مسلمانوں کے مسائل ایوانوں میں کون اٹھائے گا؟کیا اب تک اویسی صاحب نے ایوانوں اور میدانوں میں جو ایشوز اٹھائے ہیں وہ غیر ضروری یا بے وقت تھے؟مزے کی بات یہ ہے کہ ان دانشوروں کے پاس تبصرے ہیں کوئی حل نہیں ہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ سارے مسلمان بے زبان بکریوں کی طرح ہر وقت قربان ہونے کو تیار رہیں۔

ملک کے حالیہ انتخابی نتائج بی جے پی کے حق میں تو بہتر ہیں لیکن ملک کی جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ جس طرح سے پنجاب اور یوپی میں کانگریس کو شکست ہوئی ہے وہ انتخابی جمہوریت کی صحت کے لیے ضرر رساں ہے۔ اتر پردیش میں جس طرح بی ایس پی کا صفایا ہوا ہے وہ تاریک مستقبل کا اشارہ ہے۔ ایک ایسی پارٹی جس کا اپنا ووٹ بنک ہو،جو چار بار ریاست میں حکومت بنا چکی ہو اس کا ختم ہوجانا کوئی نیک فال نہیں ہے۔ کسی بھی جمہوریت کے لیے ضروری ہے کہ وہاں تمام طبقات کی نمائندہ حکومت ہو۔ اترپردیش کے نتائج 80بنام 20کا واضح ثبوت ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ملک جمہوریت کے بجائے بہوسنکھیک واد کی راہ پر گامزن ہے،آئین کے بجائے جذبات اور آستھا کے راستے پر چل پڑا ہے۔ دوران الیکشن بی جے پی نے اقلیت مخالف جن ایشوز کو اٹھایا ہے منتخب نمائندے ان کی تکمیل کے پابند ہیں چاہے وہ غیر آئینی ہی کیوں نہ ہوں، جس کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے کہ نتائج کے بعد بی جے پی کے ایک ایم ایل اے نے اپنے حلقہ انتخاب میں گوشت کی خریدو فروخت پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے اور کچھ بھگوادھاریوں نے مسجد سے زبردستی لائوڈسپیکر اتارنے کی دھکمیاں دی ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ نام نہاد پارٹیاں حسب معمول خاموش ہیں اور ان کے مسلم ایم ایل اے اپنی زبان بند رکھنے پر مجبور ہیں۔

جو کچھ ہونا تھا ہوگیا۔ سانپ چلا گیا اب لکیر پیٹنے سے کیا فائدہ، جس طرح کسی مردے کو ساری دنیا زندہ نہیں کرسکتی اسی طرح ان نتائج کو بھی آئندہ پانچ سال پہلے تک بدلا نہیں جاسکتا اس لیے سوائے صبر کے اور کوئی چارہ نہیں۔ البتہ ملک کی مختلف ریاستوں میں انتخابات کا سلسلہ چلتا رہے گااور عوام کے سامنے اپنی پسند کی حکومت بنانے کا موقع آتا رہے گا اس لیے مسلمانوں کوکوئی صاف پالیسی اپنانا چاہیے۔ اگر کسی مسلم سیاسی پارٹی کا وجود نامناسب ہے تو دانشوروں کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ مسلمانوں کی سیاسی یتیمی دور کرنے کا ان کے پاس کیا فارمولہ ہے۔ میرے نزدیک مسلم سیاسی قیادت کا نہ ہونا نہ صرف مسلمانوں کی موت ہے بلکہ جمہوریت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں ہر ریاست میں ایک ایسی مسلم سیاسی قیادت ضرور ہو جو ملک کے موجودہ آئین کے تحفظ کے لیے عملی جدو جہد کرے۔ مسلمانوں کے لیے میرا یہ پیغام ہے کہ وہ متحدہوکر اپنی قیادت کو مستحکم اور مضبوط کریں، دوسروں کی غلامی کا طوق گردن سے اور بی جے پی کا خوف دل سے نکال دیں۔ ایک دوسرے کوالزام دینے کے بجائے کوئی مشترکہ لائحہ ٔ عمل بنائیں۔

آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں

تو ہائے گل پکار میں چلائوں ہائے دل

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔