حجاب کے فیصلے میں اسباقِ عبرت

ڈاکٹر سلیم خان

حجاب کے معاملے میں کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ نہایت حوصلہ شکن ہونے کے باوجود  غیرمتوقع  نہیں ہے۔اس کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا جانا چاہیے اور کیا جائے گا لیکن وہاں بھی ممکن ہے  اسی قسم کا فیصلہ آئے کیونکہ سبری مالا کے سلسلے میں عدلیہ کا یہی موقف تھا۔  ایسا بھی نہیں ہے کہ عدالت کے سارے فیصلے مسلمانوں کے خلاف  آتے ہیں اس لیے انہیں عدالت سے رجوع ہی نہیں کرنا چاہیے۔ اس فیصلے سے ایک دن قبل دہلی کی سابق کونسلر عشرت جہاں کو دہلی کی  نچلی عدالت نے  یو اے پی اے جیسے معاملے میں ضمانت دے دی۔  اس سے پہلے یہ ہائی کورٹ میں ہوا تھا اب اس سے نیچے ہوگیا۔ مسلمان اگر منفی  سوچ کے سبب  عدالت سے رجوع نہ کرتے تو نہ جانے کب تک عشرت جہاں کو جیل  کی سلاخوں کے پیچھے رہنا پڑتا۔

اس فیصلے والےدن عدالت عظمیٰ نے  کیرالا ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے ملی  چینل میڈیا ون پر پابندی کو اٹھا کر اگلی سماعت کی تاریخ دی۔  مرکزی حکومت کی زبردست دھاندلی کے خلاف یہ ایک شدید پھٹکار تھی۔ اس طرح یہ بات بھی سامنے آئی کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں مسترد بھی ہوسکتا ہے۔ حجاب کے فیصلے کا بھی ممکن ہے یہی حشر ہو۔ اسی طرح پچھلے دنوں  سپریم کورٹ نے اترپردیش میں سی اے اے کے خلاف  احتجاج کرنے  والوں سے وصول کیے جانے والے جرمانہ کو واپس کرنے کا تاریخی فیصلہ دیا۔ ہادیہ کے معاملے میں بھی  عدالت عظمیٰ کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں تھا۔  اس لیے ہمیں یہ  فرق کرنا  ہوگا  کہ کن معاملات  کو لے کر عدالت میں جایا جائے اور کسے عدالت سے باہر گفت و شنید اور مزاحمت و احتجاج سے حل کرنے کی کوشش کی جائے؟

کرناٹک  کی عدالت عالیہ کا فیصلہ  تین طلاق اور پھر بابری مسجد کے فیصلے سے بھی بدتر ہے۔ تین طلاق کے فیصلے میں اختلاف تھا۔  سکھ چیف جسٹس کی رائے تھی کہ پرسنل لاء میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے لیکن انہوں نے حکومت کو قانون بنانے کی ہدایت دے دی۔ اس کا فائدہ اٹھا کر سرکار نے سیاسی فائدہ اٹھانے کی خاطر پرسنل لا میں مداخلت کرنے والا قانون و ضع کردیا۔ چیف جسٹس کو مسلم جج کی تائید حاصل تھی۔ عیسائی جج کا موقف تھا کہ ایک نشست میں تین طلاق اسلام کے منافی ہے اس لیے وہ اس کے خلاف ہیں یعنی اگر  طلاق بدع اسلام کے خلاف نہیں ہوتی تو وہ اس کی مخالفت نہیں کرتے۔ انہوں کسی شرعی معاملے کے اسلامی ہونے یا نہ ہونے کی ذمہ داری اپنے سر لے کر طلاق ثلاثہ کی مخالفت کردی  جو مناسب نہیں تھا۔ پارسی جج کے نزدیک یہ ظالمانہ  طریقہ ہے اس سے خواتین کی حق تلفی ہوتی ہے۔ غالباً ہندو جج نے ان کی تائید کی اس طرح اکثریت خلاف ہوگئی   تھی اور دو کے مقابلے تین کی حمایت سے وہ فیصلہ ہوگیا جو مسلمانوں  اور اسلام کے خلاف تھا۔ معاشرے  میں چونکہ طلاق کی شرح بہت کم ہے اور اس میں سے بھی سارے لوگ یکمشت تین طلاق نہیں دیتے اور جو دیتے بھی ہیں ان کے خلاف ہر کوئی عدالت میں نہیں جاتا اس لیے اس کے بہت زیادہ اثرات نہیں پڑے۔

بابری مسجد کا فیصلہ متفقہ تھا  نیزاس میں مسلمانوں کے تینوں موقف کو درست تسلیم کیا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے یہ مانا تھا کہ  کسی مندر کو مسمار کرکے بابری مسجد تعمیر نہیں ہوئی تھی یعنی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کیا جانے والا پروپگنڈہ غلط تھا۔ بابری مسجد کے اندر مورتیوں کو رکھنے کو عدالت نے غلط قرار دیا تھا اور بابری مسجد کی شہادت کی  بھی واضح  مذمت کی  گئی تھی  لیکن چونکہ ان جرائم کا ارتکاب کرنے والے اقتدار میں تھے اس لیے انہیں کوئی سزا نہیں سنائی گئی۔ اس سے عدالت کا وقار خود اس کے قدموں تلے پامال ہوا۔ ان حقائق کو تسلیم کرنے کے باوجود اپنےخصوصی اختیارات کا استعمال کرکے عدلیہ نے انصاف کو سولی چڑھاتے ہوئے بابری مسجد کی خطۂ ارضی  مندر کے لیے دے دی ۔ اس لیے ساری دنیا میں اس پر تنقید ہوئی۔ حجاب کے معاملے عدالت نے انتظامیہ کے یونیفارم بنانے کا اختیار دے کر طالبات  کی حق تلفی کی۔ اسلام کی خودساختہ توضیح کرکے انصاف کی دھجیاں اڑا ئیں اس سے آگے بڑھ کر عدلیہ نے حکومت کی ساری  دھاندلی پر مہر ثبت کرکے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا۔ اس لیے یہ فیصلہ پہلے دونوں  سے گیا گزرا ہے۔

ایک سوال یہ ہے ایسے فیصلوں کے باوجود مسلمان ہر بات کے لیے عدالت کی جانب کیوں لپکتے ہیں؟ اس کی وجہ چند مفروضات ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ سب سے پہلا مفروضہ یہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور یہ نظریہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے دین کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی دیتا ہے۔ یہ سراسر خوش فہمی ہے۔ سیکولرزم دراصلبےدینی کا  دوسرا نام ہے۔ یہ زندگی کے ہر شعبے سے مذہب کو نکال باہر کرنا چاہتا ہے۔ سیاستدان اپنے مفاد کی خاطر جو مذہبی  دکھاوا کرتے ہیں ان کا دینداری سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ وہ تو عوام کو بہلا پھسلا  ان کے ووٹ کی خاطر کیا جانے والا پاکھنڈ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے مودی جی احمدآباد کے بہت سارے چھوٹے موٹے مندروں کو سڑک کی توسیع کے لیے راتوں رات ہٹا دیتے ہیں اور وزیر اعظم  بن جانے کے بعد کاشی کاریڈور کے نام پر کئی قدیم مندروں کو نگل لیا جاتا ہے۔ سیکولرزم کی جائے پیدائش فرانس میں بھی سیکولر حکومت حجاب کی اسی طرح مخالفت کرتی ہے جیسے بنگلور کی عدالت عالیہ میں ہوتا ہے۔ اس لیے سیکولرزم کی بنیاد پر مذہبی حقوق کو یقینی بنانے کے بجائے اس کے متبادل ’لااکرہ فی الدین‘ کی دعوت پیش کرنی چاہیے۔ اس کے بغیر مذہبی آزادی کا احترام ناممکن ہے۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے مسلمان سمیت  ملک کے لوگوں نے جمہوری دستور سے بھی بیجا توقعات وابستہ کررکھی ہیں۔ وہ امید کرتے ہیں کہ اس کے طفیل  عدالت ان کی دادرسی کرے گی۔ سب سے پہلی بات تو ملک عدالتی نظام اس قدر پیچیدہ اور مہنگا ہے کہ عام آدمی اس سے استفادہ کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ جو لوگ وسائل کا اہتمام کرکے اوپری  عدالت میں پہنچ بھی جانتے ہیں  ان کو انصاف اسی صورت میں ملتا ہے کہ جب اہل اقتدار کے سیاسی مفاد سے براہِ راست طور پر ٹکراتا نہ ہو۔ عدلیہ اگر اپنے جسٹس لویا کو انصاف دینے میں ناکام ہوجاتی ہو تو کسی ہما شما کی کیا بساطَ؟ صدیق کپن اور عمر خالد جیسے بے شمار لوگوں کے ساتھ بھیما کورے گاوں کے نام پر کئی غیر مسلم دانشور  اور سنجیو بھٹ جیسے دلیر افسر جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیئے گئے ہیں۔ جمہوری نظام میں ہر فرد کا ایک ووٹ ضرور ہوتا ہے مگر جب عوام کسی کو اپنا نمائندہ بنادیتے ہیں تو  گویاان کی اکثریت کے ہاتھوں میں لاٹھی تھما دی جاتی ہے اور وہ اس لاٹھی سے اقلیت کی بھینس کو ہانکا جاتاہے۔ یہ سلوک نہ صرف مذہبی اقلیت بلکہ نظریاتی  مخالف اور سیاسی  حریف کے ساتھ بھی ہوتا  ہے۔ مرکز میں اگر بی جے پی کی حکومت نہیں ہوتی تو نہ صرف بنگلور عدالت کا یہ فیصلہ نہ ہوتا بلکہ انل دیشمکھ، نواب ملک اورلالو یادو جیل سے باہر ہوتے۔

الہامی ہدایت سے بے نیاز ہوکر جب بھی آئین بنایا جاتا ہے یا اس میں ترمیم کی جاتی ہے تو اس میں اہل اقتدار اپنا مفاد رکھ ہی لیتے ہیں۔ اسی لیے سارے  قوانین کا الٰہی ہدایت  کا تابع ہونا ضروری ہے کیونکہ وہی حالم اور محکوم کے درمیان عدل و توازن قائم کر سکتا ہے۔ اس کے علی الرغم اگر آئین میں بہت کچھ لکھا ہو تب بھی اس کی تشریح کرنے والوں کو اپنے جیل جانے کا خوف یا اقتدار لا لچ  بہت کچھ کروا دیتا ہے۔ سابق چیف   جسٹس رنجن گوگوئی پر ملازمہ کے الزام نے جیل جانے کا دباو بنایا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ وہ خود اپنے اوپر لگائے جانے والے الزام کے منصف بن بیٹھے لیکن انہیں ایسا کرنے سے کوئی قانون روک نہیں سکا۔ اس کے بعد حکومت نے انہیں بچاکر ایوان بالا کی رکنیت  سے نوازنے  کا لالچ دت کراپنا من مانا فیصلہ کروا لیا۔ انہوں نے ازخود اپنی کتاب میں اس ناعاقبت اندیش فیصلے کے بعد جشن منانے کا اعتراف کیا ہے۔ وہ تقریب دراصل جیل سے بچنے اور انعام پانے کی خوشی میں تھی اس لیے آئینی تحفظات پر بیجا انحصار اس طرح کی مایوسی کو جنم دیتا ہے جیسا کے حجاب سے متعلق فیصلے کے بعد سامنے آئی۔ سابق چیف  جسٹس  رنجن گوگوئی جیسے لوگوں کے سبب لاحق   یہ خطرہ تمام دستوری تحفظات کو  یکلخت نگل  سکتا ہے۔

آخری سوال  یہ ہے کہ  حجاب جیسے مسائل کا عملی حل کیا ہے؟   ایک زمانے میں ملک کے اندر تعلیمی بیداری بہت کم تھی اس لیے چند اداروں سے کام چل گیا لیکن اب اس میں بہت زیادہ اضافہ ہوچکا۔ فی الحال  تعلیمی اداروں کی ملی ضرورت بہت بڑھ گئی  ہے۔  اس لیے بہت سارے معیاری ادارے درکار ہیں۔ پہلے مسلم  طالبات حجاب سے بے نیاز تھیں اب اس کا اہتمام کرنے لگی ہیں۔ الحمدللہ یہ خوش آئند بات ہے لیکن اس کے بہت سارے تقاضے ہیں۔  اس فیصلے کے روُ سے انتظامیہ اپنے ادارے میں یونیفارم طے کرسکتا ہے۔ ہم اپنے ادارے میں غیر مسلم طالبات کو بھی  برقع پہنا سکتے ہیں بشرطیکہ ہمارے  یہاں معیار تعلیم ایسا معیاری ہو کہ وہ اس میں داخلہ لینے پر فخر محسوس کریں۔ امت  اپنے ادارے دیگر مذاہب کی طالبات کو مذہبی آزادی دے کر ایک مثال قائم کرسکتے ہیں اور ان سے برابری کی بنیاد پر عدالت میں جائے بغیر یا سڑکوں پر اترے بنا اپنا حق منوا سکتے ہیں۔

 غیر مسلم  یہ محسوس کریں کہ اگر انہوں نے مسلم طالبات کے حقوق کا احترام نہیں کیا تو ملی اداروں میں ان کی طالبات کا بھی خسارہ ہوگا تو ان کی نقطۂ نظر  بدلے گا۔ ایسے مواقع پر سچر ّ کمیشن کا حوالہ دے کر مسلمانوں کی معاشی پسماندگی کا رونا رونے والوں کو  مسلمانوں کی شادیوں میں جو فضول خرچی کا مشاہدہ کرنا چاہیے۔اب  وقت آگیا ہے عدالت کے ذریعہ اپنے حقوق کی بحالی کے ساتھ ہم خود بھی اپنی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے فضول خرچ کم کریں اور اپنے آپ کو جس حد تک ممکن ہوسکے تعلیمی اور دیگر میدانوں میں خودکفیل بنائیں۔ اس طرح سارے مسائل نہ سہی  بیشتر مسائل حل ہوجائیں گے ان شاء اللہ۔ حجاب کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جانا چاہیے۔ بعید نہیں کہ وہاں کامیابی ہاتھ آجائے اور نہ بھی آئے تو زندگی کی جدو جہد میں کبھی کامیابی تو کبھی ناکامی ہاتھ آتی ہے۔ مومن ہر دو حالت میں مطمئن رہتا ہے کبھی صبر تو کبھی شکر کرکے مالک حقیقی کی  خوشنودی حاصل کرتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔