تین طلاق بل: یہ جرمِ بے گناہی کا کیس ہے

تحریر:کالیسورَم راج

(وکیل سپریم کورٹ آف انڈیا)

ترجمانی:نایاب حسن قاسمی

واشنگٹن یونیورسٹی لاریویو(Washington University Law Review )میں شائع شدہ ایک مضمون (1979)میں مارٹن آرگارڈنر(Martin R. Gardner )نے ایک سوال اٹھایاتھا کہ کیاکسی قانون سازی کے پس پردہ پایاجانے والا غیر دستوری جذبہ عدمِ دستوریت(unconstitutionality) کے لیے کافی ہوسکتاہے؟اس پیچیدہ سوال کو حل کرنے کے لیے انھوں نے امریکی دستور کی اساس میں پائے جانے والے مذہبی جذبات کے ضمن میں کہا کہ یہ دعویٰ کرنا کہ مذہبی جذبات کسی قانون کو بے اثر کرنے کا جواز فراہم کرتے ہیں ،یہ ایک پیچیدہ اور وسیع پیمانے پرمحض فرض کی ہوئی بات ہے،ہاں البتہ انھوں نے فرقہ وارانہ جذبات کو اس سلسلے میں اہم قرار دیاہے،جس میں کسی قانون یا دستور کو بے اثرکرنے کا کوئی جمہوری مقصدنہ ہو۔

تین طلاق بل(Protection of Rights on Marriage) 2018ء کے مشمولات واضح طورپر فرقہ وارانہ تعصب پر مبنی ہیں اور اس کے ذریعے سائرہ بانوکیس(2017)میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کرکے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس بل کے مقاصدواسباب کو بیان کرتے ہوئے وزیرقانون روی شنکر پرسادنے کہاکہ سائرہ بانوکیس میں طلاقِ بدعت(ایک نشست کی تین طلاق)کو سپریم کورٹ کے ذریعے بے اثر قراردیے جانے کے باوجودایسی رپورٹس آرہی ہیں کہ لوگ اس قسم کی طلاق دے رہے ہیں ،انھوں نے اس بل کو’’ سپریم کورٹ کے فیصلے کو مؤثربنانے اور غیر قانونی طلاق کی متاثرہ خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے تدارک‘‘ کی مثال قراردیا،انھوں نے اس بات کی بھی دہائی دی کہ’’بعض مسلمان سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود اس قسم کے عمل سے باز نہیں آئے‘‘۔

یہ بل عوامی ایجنڈے کے ساتھ ایک فریب آمیزوغیرمنصفانہ دستوری اقدام کا کلاسک کیس ہے،جس پر ہندوستان جیسے ملک میں نہایت غیر معمولی ومؤثرعدالتی وقانونی تحقیق کی ضرورت تھی۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ سائرہ بانو کے کیس میں سپریم کورٹ کے علامتی فیصلے میں ججوں کی بنچ کی اکثریت نے یکبارگی تین طلاق کو غیر دستوری قراردیتے ہوئے بے اثرقراردے دیاتھا،جس کا سیدھاسااثر یہ ہوگا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو اس قسم کی طلاق دیتا ہے،تواس سے نکاح پر کوئی فرق نہیں پڑے گا،میاں بیوی کا رشتہ باقی رہے گااوراس تین طلاق کا قانون کے مطابق کوئی اثر نہیں ہوگا؛لہذا اس حقیقت کے باوجود حکومت کی طرف سے تین طلاق بل لانا ایک ایسے عمل کو جرائم کی فہرست میں ڈالنے کی کوشش ہے،جو قانون کی نظر میں معتبر ہی نہیں ہے،اس کا خارج میں کوئی اثر ہی نہیں ہے،ایک سوِل غلطی کی وجہ سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو ڈھال بناکر تین سال جیل کی بالکل غیر منطقی و غیر متعلق سزادینا یہ ایک غیر اخلاق اقدام ہے اور کسی عمل کو جرائم کی فہرست میں ڈالنے کے بنیادی اصول کے بھی خلاف ہے۔2018ء میں ہی عدالتِ عظمیٰ نے ہم جنس پرستی(نوتیج سنگھ ورسزیونین آف انڈیا) اور زنا(جوزف شائن ورسزیونین آف انڈیا)کے مقدمات میں اپنے فیصلوں کے ذریعے خلافِ قیاس اس تصور کو فروغ دیاہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ سائرہ بانو کے کیس میں ججوں کی بنچ کی اکثریت کے ذریعے جو فیصلہ دیاگیاہے،اس میں کہیں حکومت یا پارلیمنٹ کو یہ ہدایت نہیں دی گئی ہے کہ وہ تین طلاق کو کرمنلائز کردے یااپنی جانب سے کورٹ کے فیصلے کو مؤثر بنانے کی کوشش کرے،جیسا کہ اس بل کے بین السطور سے سمجھ میں آتاہے۔حکومت یا پارلیمنٹ کو اس سلسلے میں کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے؛کیوں کہ کورٹ کا فیصلہ خود مؤثرہے،جب سپریم کورٹ کے فیصلے کے ذریعے تین طلاق کے عمل کو باطل قراردے دیاگیا،تواس فیصلے میں سزادینے کی تجویز یا تائید کیسے ہوسکتی ہے؟الغرض سائرہ بانو کیس میں کورٹ نے جو فیصلہ دیاہے، حکومت اس کی غلط تعبیر و تشریح کے ذریعے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

تین طلاق اور جہیز میں مشابہت تلاش کرنا اور دونوں کو یکساں طورپر جرم قرار دینا بھی غیر معقول بات ہے۔جہیز کے معاملے میں حقیقی معنوں میں ایک عمل اور اس کا اثر پایاجارہاہے،جبکہ تین طلاق کو جب عدالت عظمیٰ نے باطل اور غیر دستوری قراردے دیا،تواسے کیسے جرم قراردیا جاسکتاہے؛کیوں کہ کورٹ کے فیصلے کے مطابق توکوئی عمل پایاہی نہیں گیا۔ اس بل کے ذریعے ایک ایسے عمل کو مؤثر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے،جسے سپریم کورٹ نے بے اثر قرار دے دیا اور اپنے بنیادی موضوع و مقصد میں ہی یہ بل مصنوعی ،فرضی،غلط؛بلکہ مسلمانوں کے لیے حقارت آمیزہے اور ہندوستان کاایک ٹھوس دستوری اصول ہے کہ جب سیاست دستور پر تسلط اختیار کرنے لگے اور کسی بھی قانون سازی میں معمولی سی بدنیتی کا بھی دخل ہو،تو اس قانون سازی پر نظرِ ثانی ضروری ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ تین طلاق کو جرم کے خانے میں ڈالنے سے چالاک اور ہوشیار قسم کے شوہر طلاق کے دوسرے طریقے بھی تواختیار کرسکتے ہیں ،جو اس بل کی زد سے محفوظ ہوں یا پھر وہ بغیر طلاق دیے ہی چپ چاپ اپنی بیوی کو چھوڑ بھی سکتے ہیں۔ الغرض یہ بل مسلم خواتین کے مفادات کا تحفظ نہیں کرتاہے اورایک مخصوص فرقے میں پائی جانے والی مخصوص قسم کی طلاق پر اس فرقے کے مردوں کو سزادے کر مرکزی حکومت ہندوستانی دستور کے دواہم اصولوں (قانون کی نظر میں تمام شہریوں کی برابری اور سیکولرزم) کو سبوتاژکرنا چاہتی ہے۔

(اصل انگریزی مضمون 4جنوری کو روزنامہ دی ہندومیں شائع ہواہے)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔