کتنے بے تاب، مضمحل، مجبور

افتخار راغبؔ

 کتنے بے تاب، مضمحل، مجبور

دل کے ہاتھوں ہیں اہلِ دل مجبور

دل کا آنا ہے کیا بلا مت پوچھ

دل سے ہو جانا مستقل مجبور

جانے کب صبر کا صلہ پائیں

رکھتے جاتے ہیں دل پہ سِل مجبور

دل کی مجبوریاں سمجھنے کو

جانے کب ہو وہ سنگ دل مجبور

سرخ رو ہوگا ایک دن راغبؔ

لاکھ ہو قلبِ معتدل مجبور

تبصرے بند ہیں۔