تین طلاق قضیہ: کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ

ڈاکٹر جہاں گیر حسن مصباحی

مرکزی حکومت پچھلے 2014سے مسلم معاملات کے حل میں بڑی دلچسپی لےرہی ہے اور بالخصوص مسلم عورتوں کے مسائل کے حل میں تو خطرناک حد تک اپنی شمولیت کا احساس کرارہی ہے۔ اس کے برخلاف موب لنچنگ میں دن دھاڑےاور سرعام مسلمانوں کوقتل کردیاجارہا ہے جس وجہ سے بےشمارمسلم عورتیں اپنے شوہروں سے ہاتھ دھوبیٹھی ہیں، اور اُن کے بچے بےسہاراو یتیم ہونےکا غم جھیل رہے ہیں، لیکن مرکزی حکومت کواِس بات کی بالکل پرواہ نہیں ہے۔

آج جس ہندو-مسلم نوجوانوں کے کاندھوں پر ملک وملت کو ترقی دینےاور اُس کی معاشی طاقت و قوت کو بڑھانے کی ایک بڑی ذمہ داری ہے، تو بجائےاس کے کہ ترقیات کے حوالے سے اُن کا حوصلہ مضبوط کیا جائے، اُن کےجذبات کو مہمیز کیا جائے اور اِس کے لیے حالات کو سازگار بنائےجائیں، اُن نوجوانوں کے دلوں میں نفرت کا صور پھونکا جارہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ نہ صرف ہندو-مسلم نوجوانوں کی زندگیاں اوراُن کا مستقبل تباہ و برباد ہورہا ہےبلکہ ملک و ملت کی ترقی کی راہیں بھی مسدود ہورہی ہیں، اس پہلو پر سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کے بجائے کچھ مفاد پرست لیڈران بھرے ایوان میں یہ چٹکلہ بازی کرتے نظر آتے ہیں کہ اگر نوکریاں نہیں ملتیں تو بیکار بیٹھنے سے بہتر ہے کہ نوجوان پکوڑے بنائے اور بیچے۔ ’’شرم ہم کو مگر نہیں آتی‘‘۔ آج ہندوستان میں معاشی حالت جس قدر تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے کہ اگر اس تعلق سے مناسب اقدام نہ کیے گئے تووہ دن دور نہیں کہ کسانوں کے ساتھ ساتھ مستقبل قریب میں ملک کے تاجران بھی خودکُشی کی راہ پر چل نکلیں گے اور اُس وقت ہندوستان کوجس بربادی سے گزرنا ہوگا وہ ہم سبھی جانتے ہیں۔ بالخصوص پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں جو خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے اس نے سب کو متفکر بنادیا ہے۔

تقریباًہرہندوستانی کو یہ بات یادہوگی کہ2012 میں بھاجپاوالوں نےپیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ(70-75) کو لے کر کافی ہنگامہ کیاتھا اوراِس کی وجہ سے کانگریس حکومت کو نااہلی بھی قراردے دیا تھا،اور آج جب کہ یہ حکومت خود اُسی جال (84-90)میں پھنس گئی ہے تو اپنی ناکامی اور نااہلی کا ٹھیکرا بین الاقوامی بازارمیں کچے تیل کے سرپھوڑ رہی ہے،اور اُس کا اصل سبب روپے کے گرتے دام کو قرار دے رہی ہے۔ اسی کو کہتے ہیں : ’’چت بھی اپنی پٹ بھی‘‘، بیوقوف تو بیچاری پبلک ہے۔ حالاں کہ مرکزی حکومت اگر چاہتی تو پیٹرول اور ڈیزل پرجوناقابل برداشت ٹیکس نافذہےاُس میں کافی حد تک تخفیف کرسکتی تھی اور عوام الناس کو راحت پہنچانے میں اہم کردار ادا کرسکتی تھی،پھراگر اِیمانداری کی بات کی جائے تو حکومت اگرپٹرول اور ڈیزل کو بھی GST کے دائرے میں لادیتی تواس کی قیمتوں میں 45-40 روپےتک کی تخفیف ہوجاتی۔ ایکRTI کے مطابق مرکزی حکومت تقریباً پندرہ ملکوں کو 34/روپے اور اُنتیس ملکوں کو37 /روپے فی لیٹرپیٹرول اور ڈیزل فراہم کررہی ہے، جن ممالک میں امریکا، انگلینڈ، عراق،اسرائیل،جورڈن، آسٹریلیا، ہانگ کانگ، سنگاپور، ساؤتھ افریقہ، ماریشش، ملیشیا، یو. اے. ای. وغیرہ شامل ہیں۔ اس سوال یہ ہے کہ تیل قیمت میں تخفیف کی قدرت رکھنے کے باوجوداس حکومت نے تخفیف کیوں نہیں کیا؟؟اور اگرمختلف ملکوں کو کم قیمت پر تیل فراہم کراسکتی ہے تو ہندوستانیوں کو کیوں نہیں ؟؟؟

آج ہندوستان کی ایک اور سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ جس سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کو ترقی دینا چاہیے اور اُس کے فوائد کوعام کرنے کے لیے مناسب اقدام کیے جانےچاہیے، اُس کی جگہ اَب پبلک اداروں کو سپورٹ کیا جارہا ہے، بلکہ پبلک اداروں کو فروغ دینے کے لیے سرکاری و نیم سرکاری اداروں پر تالے بھی لگوائے جارہے ہیں۔ مثلاً:BSNLفون سروس کو کیسے بڑھایا جائے حکومت کواِس کی کوئی فکر نہیں، مگر ’’جیوفون سروس‘‘کیسے گھر گھر پہنچ جائے اُس کی بڑی فکر رہتی ہے۔ ارے حد تو یہ ہے کہ جوپبلک ارادہ ابھی کاغذی دنیا سے باہر نہیں آیا ہےاُس کو بھی یہ حکومت دنیا کا بیسٹ ادارہ قرار دے دیتی ہے۔

اگرہندوستانی عورتوں کے مسائل کی بات ہے تواِس تعلق سےبھی حکومت نے کوئی معقول قدم نہیں اٹھایا ہے، اور یہ بات تمام ہندوستانیوں کی پیشانی پر ایک بدنماداغ ہے کہ جولوگ دن میں عورتوں کے تحفظ کی بات کرتے ہیں، برسراسٹتج اور سرعام اجلاس میں اُنھیں اپنی مائیں اور بہنیں کہتے نہیں تھکتے، لیکن رات میں اُنھیں کی عصمت کو تار تار کردیتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ ایسے مجرمین کو کیفردار تک پہنچانے کے بجائےحکومت اُن کی پشت پناہی بھی کرتی ہے۔ مظفر پور، اُناؤ، گورکھپوروغیرہ میں رونمااِنسانیت سوز عصمت دری کے حادثات اس کے واضح ثبوت ہیں۔ اگر حکومت عورتوں (مسلم/غیرمسلم)کے تعلق سے واقعی اپنی نیت میں سچی ہے تو پہلے مظفر پور، اُناؤ، گورکھپوروغیرہ میں یا اس طرح کے دیگر حادثے کی شکار ہندوستانی عورتوں کو اِنصاف دلائے اور اُن کے مجرمین کو سزائے موت نہ سہی،کم سےکم عمر قید کی سزاتو ضرور دلوائے۔

اب رہ گئی تین طلاق کی بات تو اِس میں دورائے نہیں کہ تین طلاق کے غلط استعمال پر واقعی بندش لگنی چاہیے اورمسلم عورتوں کو ہورہے نقصان کی پوری پوری بھرپائی بھی ہونی چاہیے، اس معاملے میں ہرقدم پراور ہمیشہ تمام مسلمان حکومت کے ساتھ ہیں، لیکن دوسری طرف اس پر بھی نظر ہونی چاہیے کہ حکومت کے اس جلدبازقدم سے کہیں دیگرسیاسی وسماجی مسائل تو نہیں اُٹھ کھڑے ہوں گے؟اِس تعلق سے حکومت کو بڑی سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے تھا لیکن’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘۔ تین طلاق مخالف کے تعلق سے مرکزی حکومت کی ایمانداری کا جنازہ اِس غیر قانونی اورغیراخلاقی رویےکے باعث بھی نکل جاتا ہےکہ اُس نےراجیہ سبھا میں اس قانون کو پاس کرانا ضروری نہیں سمجھا،یہ بھی قابل غور پہلو ہے۔ پھرتین طلاق مخالف قانون کے پش منظر میں اگرمسٹر مودی کا گجرات کے ایک مسلم بوہری پروگرام میں شریک ہونا اور اُس کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کا اظہار، اور RSSکے صدر بھاگوت کے اِس بیان’’مسلمان کے بغیر ہندوتو نہیں ‘‘ کو دیکھا جائےتو یہ مطلع اور بھی صاف ہوجاتا ہے کہ 2014 میں جس مسلمان کوکسی لائق نہیں سمجھاگیا اب وہی مسلمان حکومت کی نظر میں بڑا لائق ہوگیاہے؟اصل وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے بغیر2019 میں سیاسی اور انتخابی دریا کو پار کرناحکومت کے لیےایک مشکل امر ہوگیا ہے۔

بڑی ہنسی آتی ہے جب والیانِ حکومت تین طلاق مخالف قانون کو نافذ کرنے کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ دنیا کے 22؍ مسلم ممالک میں تین طلاق کو غیرقانونی کی حیثیت حاصل ہے، ہاہاہا! جوحکومت مسلم مخالف بنیاد پر کھڑی ہے، جس کے عہد میں مسلم کےکھانے پینے پر جبراً پابندی لگائی جارہی ہے اورمذہبی فرائض کی ادائیگی میں بزوررخنہ اندازی کی جارہی ہے کہ بیف کی قربانی کوتو چھوڑدیجیے، بکرے کی بھی قربانی نہیں ہونے دی جارہی ہے اورجس حکومت کے لیڈران ہندوستانی مسلمان کو اپنی آنکھ کا کانٹا سمجھتے ہیں آج وہی حکومت مسلم ممالک کو اپنا رول ماڈل مان رہی ہے؟؟جناب والیان حکومت! مسلم ممالک میں تو زناکاروں کی سزا پھانسی ہے اور چوروں کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے، پھر محض مسلم عورتوں کے مفاد کا خیال ہی کیوں ہے آپ کو؟ کیوں نہ آپ پوری ہندوستانی برادری(مسلم/غیرمسلم) کے مفادکی بات کریں کہ اِن مسلم ممالک کواپنارول ماڈل بنائیں اورہندوستان میں بھی زناکاروں کےلیے پھانسی کی سزا،اور چوروں کے لیے ہاتھ کاٹنے کی سزا نافذ کردیں ؟؟

اگر بات کی جائے اسلامی نظریے کی توایک ساتھ تین طلاق دینے کو آپ کیا جرم قرار دیں گے، اس کو خود خالق کائنات نےایک ساتھ تین طلاق دینےکو’’ ابغض المباحات‘‘ (جائز اعمال میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ عمل ) قرار دیا ہے، اور یہ بھی یقینی ہے کہ جو اللہ کی نافرمانی کرےگا وہ یقیناً سزا کا مستحق ہوگا،اورسماجی لحاظ سے دیکھیے توایک معززومکرم مرد کےلیےاس سےبڑی بےعزتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ محض تین طلاق کی وجہ سے اُس کی برسوں کی عزت خاک میں مل جاتی ہے، اورنہ چاہتے ہوئے بھی اُسے اپنی عزت سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، اور قابل قبرت بات یہ بھی ہے کہ اپنی عزت گنوادینے والا شخص سماج میں باحیثیت اور بارُعب ہونے کے باوجود کچھ نہیں کرسکتا، کیوں کہ تین طلاق کی کلہاڑی سے اُس نے خود اپنا ہاتھ کاٹ رکھاہے۔ ایک حساس اور باعزت مرد کے لیے کیایہ کسی سزا سے کم ہے؟؟

بالآخر تمام ہندوستانیوں کوبالعموم اور ہندوستانی مسلمانوں کو بالخصوص یہ بات ہرگزنہیں بھولنا چاہیے کہ الیکشن قریب ہے۔ مرکزی حکومت کی ہوا نکل رہی ہے، اورسیاست میں اپنی ناتجربہ کاری کے سبب حکومت آج چاروں شانے چت ہے،اس لیے یہ حکومت تین طلاق مخالف قانون نافذکرنےکی آڑمیں ایک بار پھر تمام ہندوستانیوں کے جذبات سے کھیلنا چاہتی ہے،اورملک میں روز بروزپیٹرول-ڈیزل کی بڑھتی ہوئی قیمت،روزمرہ کے سامانوں کا آسمان چھوتا دام،بےروزگاری کی کثرت، تجارتی مشکلات، کسانوں کے مسائل اور عورتوں کے ساتھ زورزبردستی اور زناکاری جیسی باتوں سے عوام کی تو جہ بھٹکادینا چاہتی ہے، اور تین طلاق مخالف قانون کے پس پردہ ایک تیر سے دوشکار کرنا چاہتی ہے کہ ایک طرف مسلمانوں کی ووٹنگ ہمدردی بھی حاصل ہوجائے، اوردوسری طرف ہندو برداری بھی خوش ہوجائے اوراُن کا ووٹ حسب سابق حکومت ہی کو ملے۔ اس کا قانون کے نفاذ کاایک نمایاں پہلو یہ بھی ہےکہ تین طلاق مسلمانوں کا ایک اہم مسئلہ ہے، اور یہ کافی حد تک مسلمانوں کے دینی جذبات سے وابستہ ہے، توممکن ہے کہ حکومت کی یہ نیت ہوکہ تین طلاق مخالف قانون لانے سے مسلمانوں کے جذبات لامحالہ مجروح ہوں گے، نتیجتاًکچھ پُرجوش مسلمان مخالفت میں سڑکوں پر نکل بھی آئیں گے اور ہنگامی جلسہ -جلوس بھی کریں گے،جس کا فائدہ یوں اٹھایا جائے کہ پوری ہندوبرادری کو مسلمانوں کا خوف دلاکر حکومت کے حق میں لام بند کرلیاجائے۔

 غرض کہ حکومت کےجو بھی ارادے ہوں لیکن اتنا تو طے ہے کہ یہ مسلم عورتوں کے حق میں ہے اور نہ ہندوبرادری کے حق میں۔ اس کا ایک ہی مقصد ہے کہ کرسی کیسے برقرار رکھی جائے، بس۔ سیاست کےشکاریوں نے تو اپنا جال بچھانا شروع کردیا ہے کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم ہندوستانی (مسلم/غیرمسلم)اُن کے جال میں پھنستے ہیں یا اُن کا جال ہی لےکر اُڑ جاتے ہیں، یہ تو 2019 کا انتخاب ہی بتائےگا۔ (ایڈیٹر ماہنامہ خضرراہ، الہ آباد)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔