دلوں کو جوڑیں

مفتی محمد عارف باللہ القاسمی

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو تمہیں کاٹے تم اسے جوڑو، جو تم پر ظلم کرے تم اسے معاف کرو اور جو تمہارے ساتھ برا سلوک کرےتم اس کے ساتھ تم اچھا سلوک کرو۔

اس حدیث مبارکہ میں نبی اکرم ﷺ نے اتحاد واتفاق اور اخوت ومحبت کو بام عروج تک پہونچانے کا قیمتی نسخہ عطا فرمایا ہے جسے اختیار کرلیا جائے تو معاشرہ امن ومحبت کا گہوارا بن جائے اور نفرتیں اور کدورتیں ختم ہوجائیں۔

توڑنے کا کام تو بہت آسان ہوتا ہے، لیکن انسانی اخلاق کا کمال یہ ہے کہ ٹوتے ہوئے تعلقات کو جوڑے اور بچھڑے ہوئے لوگوں کو ملائے۔

تعلقات میں کشیدگی عام طور پر ظلم وزیادتی، کج اخلاقی، بدزبانی اور سخت کلامی سے پیدا ہوتی ہے اور یہ چیزیں اسلام میں انتہائی ناپسندیدہ ہیں۔

نبی اکرم ﷺ کی صفات عالیہ میں سے ایک اہم صفت قرآن کریم میں اللہ نے یہ بیان فرمائی ہے:

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ  (آل عمران: ۱۵۹)

’’پھر اللہ کی رحمت کے سبب آپ ان کے لئے نرم ہوگئے اور اگر آپ تند خو  اور سخت دل ہوتے تو البتہ آپ کے گرد سے یہ لوگ بھاگ جاتے ‘‘

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ سخت کلامی اور کج خلقی جب کسی انسان میں پیدا ہوتی ہے تولوگ اس سے دور ہوجاتے ہیں اور لوگوں کو قریب کرنے کے لئے، ان کے دلوں میں اپنی عظمت ومحبت پیدا کرنے لئے اور اپنی ذات سے انہیں جوڑنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ سخت کلامی اور کج خلقی سے مکمل طور پر اجتناب کیا جائے، حضرت مفتی شفیع صاحب ؒ لکھتے ہیں:

’’جب اللہ تعالی کے محبوب رسول کی سختی برداشت نہیں ہوسکتی تو پھر کس کی مجال ہے کہ وہ تشدد اور کج خلقی کے ساتھ خلق اللہ کو اپنے گرد جمع کرسکے اور ان کی اصلاح کا فریضہ انجام دے سکے‘‘ (معارف القرآن : آل عمران: ۱۵۹)

اس سےمعلوم ہوا کہ تشدد اور کج خلقی کو چھوڑ کر خوش کلامی اور نرم خوئی سے ہی دلوں کو فتح کیا جاسکتا ہے اور لوگوں کو اپنے گرد جمع کیا جاسکتا ہے۔

خوش کلامی کے حوالے سے حکیم لقمان کی وصیت بہت معروف ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے سے فرمایا :

’’ انسانی دل ایک کھیت کی مانند ہے، اس میں تم اچھی باتوں کی بیچ ڈالو، اگر سارے پودے نہ بھی نکلیں تو بھی کچھ تو ضرور نکلیں گے‘‘۔

یعنی دل میں ان باتوں کا کچھ نہ کچھ اثر ہوگا اور اس کے کچھ نہ کچھ اچھے اثرات مرتب ہونگے اور کچھ نہ کچھ فوائد حاصل ہوں گے۔

اس وقت عالمی سطح پر اتحاد کی فضاقائم کرنے کی صدائیں بلند ہورہی ہیں حتی کہ بین مذاہب اتحاد کی کوششیں بھی ہورہی ہیں تاکہ اس اتحاد کی قوت سے انسانیت کے دشمنوں کو زیر کیا جاسکے، وطن عزیز ہندوستان میں اس کی اور بھی زیادہ ضرورت محسوس کی جارہی ہے، اسی لئے امت مسلمہ کے ارباب حل وعقداور علماء اور دانشوران اس بات کی پیہم کوششیں کررہے ہیں کہ سنجیدہ غیر مسلم برادران وطن سے تعلقات کو بہتر بناکر متحدہ پلیٹ فارم پر سب کو جمع کیا جائے تاکہ ملک وملت کو درپیش خطرات سے مقابلہ کیا جاسکے، اور بڑھتی ہوئی نفرت، فرقہ پرستی،اور بدامنی کو ختم کرکے امن وآشتی اور انس ومحبت کو ملک میں فروغ دیا جائے ؛ تاکہ امن ومحبت کی فضا میں تمام باشندگان کو اپنی صلاحتیں ملک کی تعمیر وترقی میں لگانے کا موقع ملے اور پھر یہ ملک ترقیات کے بام عروج پر پہونچ کر نقشہ ٔ عالم میں ایک متمدن،ترقی یافتہ اور طاقتور ملک کی حیثیت سے امتیازی مقام حاصل کرسکے۔

یاد رکھیں  کہ موجودہ دور’’ حلف الفضول‘‘ کے اعادہ کا دور ہے کہ باہم مل کر ظالم کی طاقت کو کمزور کیا جائے، اورحکمت ومصلحت کے تقاضوں کی تکمیل کرکے، اسلام کے اعلی اخلاقی اقدار کا مظاہرہ اور اس کی انسانیت کی فلاح وبہبود کی ضامن آفاقی تعلیمات کو عام کرکے اور حسب مواقع غلط فہمیوں کے ازالے کی کوشش کرکے دشمن کو دوست بنانے کی تدبیریں کی جائیں۔

لیکن اسی کے ساتھ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ اتحاد ومحبت کی فضا قائم کرنے کی ان کوششوں کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے احوال بھی پیدا ہوجارہے ہیں کہ اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی صلاحیت کے فقدان کی وجہ سےبعض افراد ملت کے عاجلانہ رد عمل، نامناسب انداز اور چبھتے ہوئے تبصرے اور اخباری بیانات خود اپنی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کا ذریعہ بن جارہے ہیںاور برادران وطن کے سنجیدہ افراد دور ہوجارہےہیں جو یقینا نقصان دہ ہے ؛ کیونکہ اپنی صفوں میں انتشارواختلاف اور سنجیدہ برادران وطن کو دور کرنا درحقیقت غیر سنجیدہ افراد کا تعاون ہے، حالانکہ بہتر طریقہ ہے کہ نفرت کا جواب محبت کے الفاظ وانداز میں حقائق ودلائل کے ذریعہ اس طرح دیا جائے کہ وہ بات دل کو زخمی کرنے کے بجائے دل کو چھوکر مائل کرنے والی ہو، اس کی ایک بہتر مثال حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت مدظلہ العالی کا وہ مدلل مضمون ہے جو انہوں نے اس ایک غیرمسلم خاتون کے اسلام مخالف بیان کے جواب میںتحریر فرمایا، جو دل کو اپیل کرنے والے عنوان سے شروع ہوتا ہے، مولانا نے اس نفرت کرنے والی خاتون کو اس عنوان سے مخاطب کیا:’’ اچاریہ کلپنا بہن کی خدمت میں‘‘۔

اس کے برخلاف اس وقت کو یاد کریں جب حضرت مولانا سلمان حسینی ندوی مدظلہ نے طلاق ثلاثہ اور بابری مسجد کےحوالے سے اپنی رائے رکھی،تو اس وقت ان کے بارے میں کیسے کیسے تبصرےہوئے اور شوشل میڈیا پر کیسے کیسے نامناسب الفاظ بولے گئے،جو یقینا ایک عالم کے لئے مناسب نہیں تھے، چہ جائے کہ ایک ایسے عالم کے حوالے سے ایسی باتیں کہی جائیںجس کی علمی قابلیت، اخلاص وللہیت،اور امت کے مسائل کے حوالے سے جن کی دردمندی محتاج بیان نہیں۔ پھر کیا تھا، دشمن طاقتوں کو مسلم پرسنل لاءکے خلاف مولانا کو استعمال کرتے ہوئے بولنے کا موقع بھی مل گیا اور امت مسلمہ کی ترجمانی کرنے والی اس تنظیم کی عظمت داؤ پر لگ گئی، اور اس کی قیادت کرنے والے امت کے مخلص اکابرین پر بھی زبان طعن دراز ہونے لگی۔اور پھر اسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے موقع کی تلاش کرنے والے دشمن دشمنی نکالنے کی راہ پر چل پڑے، جس کی مثال مسلم پرسنل لاء کے خلاف وسیم رضوی کا وزیر اعظم ہند کے نام لکھا ہوا مکتوب ہے۔

اس موقع پر مولانا اگر امت مسلمہ کی اجماعی رائے کی قدر کرتے یا اختلاف کی صورت میں ہمارے اکابرین (اور بالخصوص وہ اکابرین جن کی باتوں کی مولانا قدر کرتے ہیں)ان کے بیان کی تردید اخبارات یا میڈیا کے ذریعہ کرنے کے بجائے ان سے شخصی ملاقات اور دلائل وحالات کی روشنی میں بالمشافہ بات چیت اور افہام وتفہیم کے ذریعہ کرتےاور اس پر سخت لہجہ اختیار کرکےان کو رکنیت سے علاحدہ کرنے سے گریز کرتے تو گھر کی بات باہر نہ آتی اور شاید بات اس حد تک نہ بڑھتی۔

غور کیجئے کہ حضرت ابوبکر صدیق کے عہد خلافت میں فتنہ ارتداد پیدا ہوا، نیزبعض قبائل عرب نے زکوۃ کی فرضیت کا انکار کیا تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ ان سے جنگ کرنے پر آمادہ ہوگئے،ادھر حضرت عمر ؓ کو جنگ کرنے کی رائے سے اتفاق نہیں تھا،لیکن جب حضرت عمر ؓ نے اس اختلاف کے ساتھ حضرت ابوبکر ؓ سے ملاقات کی اور مل بیٹھ کر اس موضوع پر ان سے تبادلہ ٔخیال کیا تو اختلاف ختم ہوگیا اور حضرت عمر ؓ کو حضرت ابوبکر ؓ کی رائے سے اتفاق ہوگیا۔(مسلم شریف)

اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ کسی مسئلہ میں اختلاف ہوجائے تو اس کو طول دینے کے بجائے بات چیت کرکے اسے ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

تبلیغی جماعت نے تن من دھن سے دعوت دین کا فریضہ ادا کرنے کا مسلمانوں میں شعور بیدار کیا، اور الحمد اللہ حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ واسعۃ کی قوت اخلاص سے یہ کام پورے عالم میں پھیل گیا، لیکن ادھر چند سالوں سے جوحالات پیدا ہوئے ہیں وہ کس قدر تکلیف دہ ہیںاور نقصان دہ بھی کہ عروس البلاد ممبی کی بعض مسجدوں میں اس کا م کو بند کردیا گیا تو بہت سے علاقوں میںمسجدیں تقسیم ہوگئیں، اور بہت سی جگہوں پر ان احباب کے درمیان مارپیٹ کی نوبت آئی جو کبھی ایک فکر کے ساتھ امت کے درمیا ن ایک ساتھ گشت کرتے اور ایک پلیٹ میں کھاتے دکھ رہے تھے، یہ سارے حالات ضد، اور ایک دوسرے کے خلاف کیچڑ اچھالنے اور اخباری اور شوشل میڈیا پر نشر ہونے والے نامناسب پوسٹ کی وجہ سے پیدا ہوئے، اور بعض احباب کی مفاد پرستی نے امت کے ایک عظیم کام کو خطرات کے حوالے کردیا، کاش کہ جانبین کے افراد بند کمرے میں باہمی بات چیت کی راہ اختیار کرتے اور ایک دوسرے کے ماضی کو ذہن میں رکھ کرمستقبل کا لائحہ عمل طے کرتے، اور اپنے بڑے اکابرین کو ثالث مان کران کے فیصلہ کو جانبین تسلیم کرتے، لیکن یہ تو ہوا نہیں، البتہ دلوں کو دور کرنے والے کام بہت ہوئے، حتی کہ اپنی عظیم اسلامی علمی شخصیتوں کی عظمت وبزرگی کو بھی تار تار کردیا گیا، جس کابراانجام اب دکھنا شروع ہوچکا ہے، اوراگر اب بھی اس حوالے سے مثبت کوششیں نہیں ہوئیں تو مستقبل اور بھی سنگین ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔خدا کرے کہ مصالحت کی کوئی صورت پید ا ہوجائے، دل جڑجائیں اورپہلے کی طرح ایک فکر کے ساتھ سب اس عظیم اصلاحی تحریک میں شریک ہوجائیں، وما ذلک علی اللہ بعزیر وما توفیقی الا باللہ۔

حالیہ دنوں میں حضرت مفتی سعید صاحب مدظلہ العالی شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند نے تعزیتی سمینار میں شرکت سے گریز کیا اوران کی رائے اس سلسلہ میں یہ ہے کہ یہ بھی ممنوع ماتم اور نوحہ کے زمرہ میں ہے جسے فروغ نہیں دینا چاہئے، جبکہ بہت سے اکابر کو مفتی سعید صاحب کی اس رائے سے اختلاف ہے، اس حد تک کوئی تعجب کی بات نہیں، ہماری فقہی تاریخ اس سے بھر ی پڑی ہے کہ بہت سے مسائل میں حضرات ائمہ وفقہاء کے مابین اختلاف ہے، جو آج تک کتابوں میں منقول ہے اور علمی دلائل اور اعتراض وجواب کے ساتھ مدلل لکھا پڑھا جارہا ہے، لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے کہ اس علمی اور محض اتباع شریعت کے جذبہ پر مبنی اختلاف کوشوشل میڈیا پر الٹے سیدھے تبصروں کے ساتھ پیش کیا گیااور ایک علمی افہام وتفہیم کی مجلس منعقد کرکے ایک دوسرے کی رائے سننے سمجھنے اور قبول کرنے کے بجائے تحریری جوابا جوابی کا سلسلہ شروع کردیا گیا، اور پھربعض حضرات کی ایسی تحریریں پڑھنے کو ملیں جو اس علمی مسئلہ پر استہزاء اور تمسخر کے زہر سے مسموم تھیں، حتی کہ ہمارے بعض اساتذہ ایک دوسرے کے علمی فہم پررکیک تبصرہ کرتے ہوئے دکھے، اس سے سوائے دل آزاری اور دوری کے اور کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ اور اس سلسلہ میں ان حضرات کے قریبی لوگوں اور خاص شاگردوں کا رول بھی بہت ہی افسوسناک ہے کہ وہ ان حضرات کے مابین ہونے والی مراسلت کو بلاوجہ شوشل میڈیا پر نشر کردے رہے ہیں، جو یقینا نامناسب ہے اور اسی سے نامناسب تبصرے کے دروازے کھل رہے ہیں۔

یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ بہت سی باتیں ہمارے سخت لہجہ، سخت کلامی، دل کو مجروج کرنے والے اخباری بیانات اورپھران پر میڈیا کی خصوصی عنایتوں کی وجہ سے بگاڑ کی اس حد تک پہونچ جاتی ہیں کہ اپنے غیر اور دوست دشمن بن جاتے ہیں۔ آج کل ایک بات عام ہوگئی ہے کہ معمولی موقع ملتے ہی کسی پر تنقیدوں اور اس کی شخصیت پر جرح میں ہم مصروف ہوجاتے ہیں جس سے جڑے ہوئےدل ٹوٹ جاتےہیں اور پوری امت کو اس کا نقصان ہوتا ہے، مثلا جب مولانا اسرارالحق صاحب اور مولانا بدرالدین اجمل پارلیمنٹ میں مسئلہ طلاق پر بحث میں کسی مجبوری کی وجہ سے حاضر نہ ہوسکے تو ماضی میں امت مسلمہ کے لئے ان کی خدمات اور ان کی مخلصانہ قربانیوں کو مکمل طور پرنظر انداز کرتے ہوئے ان پر غلط انداز میں تبصرے شروع ہوگئے، ظاہر سی بات ہے کہ یہ ان حضرات کی بے لوث خدمات کی ناشکری اور اپنے قائدین کی ناقدری اور دلوں کو اذیت پہونچانے والی بات ہے۔ جو یقینا اسلامی تعلیمات کے مغائر ہے، اسلام دلوں کو جوڑنے اور الفت ومحبت کو عام کرنے کی تعلیم دیتاہےاور ہر اس عمل کی ترغیب دیتا ہے جو امن ومحبت، بھائی چارگی، اتحاد واتفاق اور اخلاقی اقدارکو فروغ دے۔

تبصرے بند ہیں۔