تین طلاق پر ٹکرائو کیوں؟

 ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

تامل ناڈو کی سابق ایم ایل اے اور سماجی کارکن بابر سعیدہ نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر تین طلاق کو غیر آئینی اور منمانہ قرار دیا ہے۔ وقف بورڈ کی چیئر پرسن رہی بابر سعیدہ نے کہا کہ آئین کی دفعہ 14مساوات کی بات کرتی ہے۔ دفعہ 15کے تحت یہ یقین دلایا گیا ہے کہ جنس ، مذہب ، ذات کی بنیاد پر تفریق نہیں ہوگی،اور دفعہ 21میں رائٹ ٹو لائف کی بات کہی گئی ہے۔ وہیں آئین کی دفعہe (A)51ایسے عمل کو انجام دینے سے روکتی ہے جس میں عورتوں کا وقار مجروح ہو۔ایک مجلس میں تین طلاق ایسا عمل ہے جس سے عورتوں کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ مسلم پرسنل لاء آئینی اختیارات کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ عرضی میں قاضی کے رول کو بھی چیلنج کیا گیا ہے۔ قاضی روٹین کی تین طلاق کے معاملے میں سر  ٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں ۔جبکہ ان کے پاس کوئی لیگل اتھارٹی نہیں ۔ تین طلاق منمانہ طریقہ ہے اس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ۔ ایسے میں موجودہ تین طلاق کے نظم کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔

اس سے قبل مسلم پرسنل لاء 1985میں شاہ بانو کیس کے حوالہ سے سرخیوں میں آیا تھا۔ شاہ بانو نے (بزرگی میں ) طلاق کے بعد اپنے سابق شوہر سے گزارا بھتہ دلائے جانے کی سپریم کورٹ سے گہار لگائی تھی، جسے منظور کر سپریم کورٹ نے شاہ بانو کے حق میں فیصلہ سنایا تھا۔ اس وقت مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیۃ العلماء ہند نے اس کو شریعت میں مداخلت بتاتے ہوئے شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ شریعت کے مطابق نان نفقہ طلاق کے بعد عدت کی مدت میں ہی دیا جاتا ہے۔عدت کے بعد نان نفقہ کا مطالبہ غیر شرعی ہے۔حکومت پر دبائو بنانے کیلئے ملک گیر تحریک چلائی گئی تھی۔ اس وقت کی کانگریس حکومت نے مسلمانوں کو خوش کرنے کیلئے پارلیمنٹ کے ذریعہ قانون میں ترمیم کر عدالت عظمی کے فیصلہ کو بدل دیا۔ اس ترمیم میں یہ بات شامل ہے کہ اگر کوئی خاتون چاہے تو5 12سی آر پی سی کے تحت گزارا بھتہ کا مطالبہ کر سکتی ہے۔کابینہ وزیر رہے عارف محمد خان نے سرکار کے اس قدم کی پر زور مخالفت کی تھی لیکن ان کی آواز دبا دی گئی۔

سنگھ نے سرکار پرمسلمانوں کے دبائو میں کام کرنے کا الزام لگایا تھا۔ اس سے ہندو سماج میں پیدا ہوئی ناراضگی کو دور کرنے کیلئے بابری مسجد کا تالا کھلوایا گیا۔اس کے بعد کیا ہوا ، کسے نہیں معلوم۔۔۔؟ ایک غلط فیصلہ کا خمیازہ آج تک ملک بھگت رہا ہے۔ آج پی چدمبرم اور دگوجے سنگھ جسے کئی دگج کانگریسی قبول کر چکے ہیں کہ شاہ بانو معاملے میں راجیو گاندھی سرکار کا فیصلہ غلط تھا۔ ایک بار پھر تین طلاق ( طلاق ثلاثہ ) کی حمایت میں بورڈ وجمعیت ساتھ کھڑے ہیں ۔ اس بار یہ جوڑی کیا گل کھلائے گی یہ کہنا ابھی مشکل ہے۔لیکن اس مرتبہ ملک کے حالات الگ ہیں جن میں ان کی کچھ چلے اس کا امکان کم ہے۔ یہ کہ 1986کی بہ نسبت پڑھے لکھوں کی تعداد میں اضافہ اور مسلم سماج پر مولویوں کی گرفت کمزور ہوئی ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ پر ایک مسلک اور گروہ کے تسلط کی وجہ سے مسلم سماج میں اس کا اعتماد کم ہوا ہے خواتین و بریلوی اور شیعوں کے الگ مسلم پرسنل لاء بورڈ بنا ئے جانے سے اس کا اندازہ ہوتا ہے مرکز میں ایسی سرکار ہے جس کے منشور میں یکساں سول کوڈ لاگو کرنا شامل ہے۔

سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت اور خواتین کمیشن سے تین طلاق کے مسئلہ پر جواب طلب کیا ہے۔ خبر یہ بھی ہے کہ سرکار اس معاملہ میں مسلم ممالک میں رائج رولنگ کو بھی معلوم کررہی ہے ویسے مرکزی سرکار کی جانب سے 2012میں اس معاملے پر تشکیل دی گئی 14اراکین پر مشتمل کمیٹی کی رپورٹ آچکی ہے۔اس رپورٹ میں تین طلاق کو غلط ، غیر قانونی اور قرآن کی روح کے خلاف بتایا گیا ہے۔سرکار نے سپریم کورٹ میں داخل کئے اپنے حلف نامہ میں تین طلاق کی مخالفت کی ہے۔پچھلے سال نومبر میں سپریم کورٹ نے مسلم پرسنل لاء کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس وقت مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیۃ نے اس کی مخالفت کی تھی۔ اکثر بورڈ ، جمعیۃ اور علماء کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ قرآن و حدیث کی تشریح کا حق عدلیہ کو نہیں صرف علماء کو ہی ہے جنہوں نے قرآن و حدیث کی باضابطہ تعلیم حاصل کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ قرآن کریم کا ترجمہ و تفاسیر ، صحاح ستہ ، ہدایہ اور دوسری بہت سی فقہی کتب انگریزی میں موجود ہیں جن پر آج تک علماء نے کبھی اعتراض نہیں کیا بلکہ ان کی بنیاد پر وہ مسلم پرسنل لاء کے مقدمات کی جوابدہی اور پیروی کرتے رہے ہیں ۔ ایسی صورت میں عدلیہ سے ٹکرانے کا کیا حاصل ہے یہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔

قرآن کریم کی سات سورۃ میں 44آیتیں طلاق سے متعلق ہیں ۔ان میں طلاق کا طریقہ صاف صاف بتایا گیا ہے۔ اس کے مطابق اگر شوہر بیوی کے بیچ تعلقات ٹھیک نہیں ہیں اور طلاق کی نوبت آتی ہے تو پہلے دونوں کی طرف سے ایک ایک وکیل طے ہوگا دونوں مل کر شوہر بیوی کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کریں گے۔ سورہ نساء آیت نمبر 35 طلاق سے پہلے کی شرط آر بیٹریشن کے ذریعہ دونوں کے بیچ آپسی میل ملاپ پیدا کرنا ہے۔ اگر آپسی اتفاق کی کوئی شکل باقی نہ رہے اور طلاق دینا ناگزیر ہوجائے تو ماہ واری ختم ہونے پر پاکی کی حالت میں طلاق دی جائے گی۔ طلاق کے بعد شوہر بیوی ساتھ ہی رہیں گے۔قرآن میں صاف حکم دیا گیا ہے کہ طلاق کے بعد بیوی کو شوہر کے گھر سے نہ نکالا جائے اور نہ وہ خود گھر سے نکلے۔ اس طلاق کی عدت تین ماہ دس دن یا تین ماہواری ہوگی۔ اس دوران اگر دونوں کے درمیان ہم بستری یا صلاح ہوجائے تو طلاق ختم ہو جائے گی۔ اگر صلاح نہیں ہوتی ہے تو دو راستے ہیں یا تو شوہر بیوی کو روک لے یعنی نکاح کرے یا پھر دوسری طلاق دے کر رخصت کردے۔ اس پر بھی عورت کی عدت کی مدت میں صلح کرنے اور عدت کے بعد نکاح کرنے کا حق ہے۔ ( سورہ بقرہ آیت 228۔232) قرآن کے مطابق طلاق دو بار ہے ( سورہ بقر آیت229 ) پھر تین بار طلاق دیکر شادی توڑنے کا چلن کب کیسے اور کس نے شروع کیا یہ بتانا مشکل ہے۔ البتہ دو مرتبہ طلاق دینے کے بعد بھی رجوع کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ لیکن اگر دو مرتبہ طلاق دینے کے بعد نکاح کیا جاتا ہے اور پھر طلاق ہوتی ہے تو ایسی صورت میں رجوع نہیں کیا جا سکتا۔ حکم یہ ہے کہ اس کے بعد عورت دوسرے کسی شخص سے نکاح کر سکتی ہے اور اگر وہ دوسرا شخص کسی وجہ سے شریعت کی شرائط پوری کرتے ہوئے طلاق دے دیتا ہے تب وہ عورت پہلے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے۔اس حکم کا سہارا لے کر مسلم سماج میں حلالہ کی بدعت شروع ہوئی۔ کئی لوگوں نے تو اس کو کاروبار بنا لیا ہے۔ جو طلاق شدہ عورتوں پر نہ صرف ظلم ہے بلکہ گھٹیا درجہ کا جرم ہے۔ ایسے بھی واقعات سامنے آئے ہیں کہ حلالہ کی غرض سے جس شخص سے نکاح کیا گیا اس نے نکاح کے بعد طلاق دینے سے انکار کردیا۔ اور نوجوان لڑکی ادھیڑ عمر کے شخص کے ساتھ زندگی برباد ہوگئی۔ ہندوستانی سماج سے متاثر ہو نے کی وجہ سے طلاق شدہ عورت کی دوسری شادی ہونا مشکل ہو گیا ہے اگر ہوتی بھی ہے تو اس کا کوئی میل نہیں ہوتا۔

پرسنل لاء بورڈ کو مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم مانا جاتا ہے۔ اس میں تمام مسالک کے علماء و دانشور شامل ہیں ۔ لیکن جس طرح پرسنل لاء بورڈ نے جمعیت کے ساتھ طلاق ثلاثہ کی حمایت میں اڑیل رویہ اختیار کیا ہے اس سے بورڈ پر حنفی مسلک کے غالب ہونے کا گمان ہوتا ہے۔بورڈ میں شامل شافعی، اہل حدیث ایک مجلس میں تین طلاق کو ایک مانتے ہیں ۔ جعفری فقہ پر عمل کرنے والے شیعہ اثناء عشری میں نکا ح کی طرح طلاق بھی مجمع میں دینے کی روایت ہے۔ اس میں دونوں طرف کے گواہ اور وکیل موجود ہوتے ہیں ۔ پورا معاملہ مولانا کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ یعنی یہ بھی ایک نشست میں تین طلاق کے قائل نہیں ہیں ۔ بورڈ کے فیصلوں میں ان کے مسلک کی جھلک نظر نہیں آتی۔کیا وجہ ہے کہ اصول دین پر فروع دین کو ترجیح دی جاتی ہے، پرسنل لاء بورڈ سب پر ایک مسلک کو تھوپنا چاہتا ہے اسی کی وجہ سے امت میں اختلافات کو تقویت مل رہی ہے جبکہ بغیر کسی معقول سبب کے ایک مجلس میں تین طلاق شریعت ایکٹ دفعہ2اور آئین کی دفعہ372کے خلاف ہے۔ لہٰذا اسے قابل نفاذ قرار نہیں دیا جا سکتا۔مسلم قانون کے ماہر اور بورڈ کی جاری کردہ کتاب مجموعہ قوانین اسلام کے مترجم پروفیسر طاہر محمود بھی ایک بار میں تین طلاق کو ایک ماننے کے قائل ہیں ۔ دہلی ہائی کورٹ نے شمیم آرا مقدمہ میں ایک ہی وقت میں تین طلاق کو نا قابل تسلیم بتاتے ہوئے اسے ایک طلاق مانا تھا۔

ہائی کورٹ کے جسٹس کمال پاشا نے ایک مرتبہ میں تین طلاق پر شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اسے مسلم خواتین پر ظلم بتایا تھا۔طلاق کے مسئلہ پر وقتا فوقتا اعتراضات ہوتے رہتے ہیں ۔ تین طلاق اور چار نکاح کا اکثر سہارا لے کر میڈیا مسلمانوں اور اسلام کی کھلی اڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔جموں کشمیر ریاست نے 2007میں مسلم طبقہ سے جڑے دیوانی معاملوں کو سلجھانے کے لئے اسمبلی میں بل پاس کر قانون بنادیا۔ یہ قانون سبھی فرقوں اور سوچ والے مسلمانوں پر یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے۔ یہ کام جموں کشمیر کی ودھان سبھا کر سکتی ہے تو ملک کی پارلیمنٹ کیوں نہیں کر سکتی۔وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ قرآن کے جانکاروں کو بیٹھ کر اس مسئلہ پر با معنی گفتگو کرنی چاہئے تاکہ مسلم خواتین کو ان کا آئینی حق مل سکے۔

سوال یہ ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اتنے لمبے عرصہ میں شریعت ایکٹ 1937اور مسلم میرج ایکٹ 1939کی خامیوں کو کیوں دور نہیں کراسکا۔بورڈ کو عدالت سے ٹکرانے کے بجائے انہیں صحیح معلومات فراہم کرنی چاہئے تاکہ عدلیہ قرآن و سنت کے مطابق صحیح فیصلہ لے سکے۔

تبھی اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ تین طلاق کی شکار لاکھوں خواتین کو انصاف مل پائے گا۔ طلاق کی وجہ سے ان کا وقار مجروح نہ ہو۔ قانون کا ساتھ دیئے بغیر انصاف حاصل نہیں ہو سکتا۔ انصاف کا تقاضہ یہی ہے کہ قانون ایسا ہو جس میں سب کی بھلائی ہو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔