اردوگان کا دورۂ ہند: بات کیاہے اور بات کیا ہورہی ہے؟

 نایاب حسن

  پہلی بار 2008ء میں اردوگان نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا،تب وہ ترکی کے وزیر اعظم تھے،دوسری بار اب کررہے ہیں اوروہ ترکی کے صدر ہیں ۔ایک ایسے وقت میں ،جبکہ انھیں گزشتہ ماہ منعقدہونے والے ریفرنڈم میں کامیابی ملنے کے بعد ترکی کی تاریخ کے سب سے طاقت ور صدر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ مغربی بلاک کے کچھ ممالک ان کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ بھی کرتے نظر آرہے ہیں کہ وہ مستقبل کے ڈکٹیٹر ہوں گے، ان کا یہ دورہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے،وہ صرف ہندوستان ہی کا نہیں اس کے بعد چین و روس کا بھی دورہ بھی کریں گے اور مہینے کے اخیر میں امریکہ کاجہاں ناٹوکے سربراہ اجلاس میں حصہ لیں گے۔ہندوستان کے پس منظرمیں ان کے اس دورے کو خاص طورپر دونوں ملکوں کے تجارتی روابط کے پس منظرمیں اہم مانا جارہاہے،خور اردوگان بھی بنیادی طورپر اسی مقصد سے عازمِ سفر ہوئے ہیں ؛چنانچہ ان کے ساتھ اقتصادی ماہرین کا 150رکنی بھاری بھرکم وفدبھی شریکِ سفر ہے،اس دوران وہ ہند-ترکی موجودہ تجارتی روابط پرحکومتِ ہند سے تبادلۂ خیال کرنے کے ساتھ نئے منصوبوں پر بھی بات چیت کریں گے،تین سال پہلے تک ہندوستان میں ترکی کی تجارتی شراکت 6.5بلین ڈالرتھی،جس میں 2015-16 کے دوران28فیصدتک گراوٹ آئی ہے،اس پر بھی ان کی نگاہ ہے۔تعلیم و تحقیق پر بھی ترکی کا خاص فوکس ہے،اسی وجہ سے ان کے دورے میں ملک کی معروف وموقر دانش گاہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں آمد بھی شامل ہے۔

ہندوستان میں یہ واحد یونیورسٹی ہے،جہاں ترکی زبان میں آنرس کے علاوہ ایڈوانس ڈپلومہ تک کی تعلیم کا انتظام ہے،ان کی آمد اور تبادلۂ خیال کے بعد مزید مثبت تعلیمی اضافوں کی توقع کی جاسکتی ہے۔ان کے علاوہ متعدد دیگر معاملے ہیں جودونوں ملکوں کے رہنماؤں کی بات چیت میں مرکزی حیثیت کے حامل ہوں گے،ہندوستان کے دورے سے پہلے انقرہ میں WIONنامی نیوزچینل کے نمایندہ رمیش رام چندرن سے ہونے والی گفتگو میں اردوگان نے اپنے دورسے متعلق سوالوں کے جوابات میں سب کچھ بڑی وضاحت سے کہاہے، آج کے تمام قومی اخبارات میں اردوگان کے دورۂ ہنداور اس کے مقاصد،اہداف وامکانات کے تعلق سے اسی انٹرویوکومختلف طریقوں سے شائع کیاگیاہے ۔

      اس وقت ہندوستان این ایس جی کی ممبرشپ کے لیے تگ و دوکررہاہے،گزشتہ سال چین اور نیوزی لینڈکی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہوسکا تھا،مودی حکومت چاہے گی کہ ترکی کو اپنی حمایت کے لیے ہموار کرے،خود اردوگان نے اس انٹرویومیں حمایت کا اظہار بھی کیا ہے،البتہ ان کا موقف یہ ہے کہ پاکستان اور ہندوستان دونوں کو رکنیت ملنی چاہیے اور وہ دونوں کی ممبر شپ کے حق میں ہیں ،اسی طرح وہ فتح اللہ گولن کی تحریک سے وابستہ اداروں کوبین کرنے کا بھی مطالبہ کرنے والے ہیں ،انٹرویومیں رام چندرن نے ان سے سوال کیاکہ ترکی عالم فتح اللہ گولن اور ان کی تنظیم پرپابندی لگانے کی وجہ سے آپ پر تنقید کی جا رہی ہے،آپ کی حکومت کاالزام ہے کہ گزشتہ جولائی میں تختہ پلٹ کی کوشش میں ان کا ہاتھ تھا،آپ کے پاس اس کا ثبوت ہے؟توانھوں نے صاف جواب دیا کہ ہم بغیر ثبوت کے بات نہیں کر رہے ہیں ،وہ انتہاپسندانہ خیالات کے حامل انسان ہیں اور ناکام انقلاب میں ان کی راست شمولیت کا ہمارے پاس پختہ ثبوت ہے،انھوں فوج،عدلیہ، پولیس،تعلیم اور ملک کے دیگر اہم سرکاری شعبوں میں اپنے لوگوں کو گھسا رکھا تھا،وہ اور ان کے ادارے ہندوستان کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں ؛لہذا حکومت کوان کے خلاف سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ان سے مسئلۂ کشمیر کے تعلق سے بھی سوال کیا گیا،جس کے جواب میں انھوں نے واضح طورپرکہا کہ یہ مسئلہ بات چیت کے ذریعے ہی سلجھایاجانا چاہیے اور اگر ضرورت پڑی تو ترکی بھی اس میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہے،انھوں نے کہا کہ گزشتہ ستر سالوں میں یہ مسئلہ جوں کاتوں پیچیدہ پڑاہواہے،دونوں ملکوں کو چاہیے کہ مزید ناگفتہ بہ حادثات رونما نہ ہونے دیں ، انھوں نے اس سلسلے میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سے بھی گفتگو کا حوالہ دیا کہ وہ بھی باہمی بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کو نٹپٹانا چاہتے ہیں ۔اس کے بعد فوراً ہی نمایندے نے سوال داغا کہ جس طرح جموں وکشمیر کا مسئلہ مختلف فیہ ہے،اسی طرح بعض لوگوں کا کہناہے کہ کردوں کابھی یہی مسئلہ ہے اوران کے مطالبات درست ہیں ،جنھیں ترکی حکومت تسلیم نہیں کررہی ہے،اس کے جواب میں اردوگان نے کہاکہ آپ سیب کا موازنہ سنترے سے کررہے ہیں ،کردوں کے ساتھ ہمارا کوئی اختلاف نہیں ہے،ہمارامسئلہ تو وہاں موجود دہشت گروپ سے ہے،وہاں کے لوگوں کاکوئی مسئلہ ہی نہیں ہے،جبکہ جموں وکشمیر کا مسئلہ جغرافیائی ہے،دونوں کاایک دوسرے سے موازنہ قطعی غلط ہے۔ایک سوال ان کی موجودہ پوزیشن کے تعلق سے بھی تھاکہ بعض لوگوں کاخیال ہے کہ آپ کا نہایت طاقت ورصدر ہوناترکی کے مستقبل کے مفاد میں نہیں ہے،جس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ میں پانچ سال استنبول کا میئررہ چکاہوں ،بارہ سالوں سے ترکی کا وزیر اعظم تھااور گزشتہ ڈھائی سالوں سے صدرہوں (اس مدت میں توترکی کوکوئی نقصان نہیں پہنچا)۔ہم نے ملک کے مستقبل کے لیے ہی نئے نظام کی تنفیذ کا فیصلہ کیاہے ،نیاسسٹم ہمارے ملک کی تہذیبی اقدار کے مطابق بھی ہوگا اور ملک کے عوام کے لیے مفید و نتیجہ خیز بھی۔ایک اورسوال یہ کیاگیا کہ آپ کے ناقدین کاکہناہے کہ آپ ایک پولرائزنگ شخصیت ہیں ،حالاں کہ اس کے باوجود گزشتہ پندرہ سالوں سے آپ کی عوامی مقبولیت برقرارہے ،اس کے جواب میں انھوں نے کہاکہ جب میری پارٹی اقتدار میں آئی تواس نے ترکی کے عوام کی خود مختاری کی بازیابی کا سامان کیا،پارلیمنٹ میں ہماری نمایندگی کبھی بھی 60فیصد سے کم نہیں ہوئی،میرے خیال سے اگر میں عوامی رائے کو غلط طریقے سے اپنے حق میں اکٹھاکرنے کی کوشش کرتا،تومیری پارٹی وہاں تک نہ پہنچ پاتی جہاں اب ہے۔اردوگان کی یہ بات اہم ہے،ظاہر ہے کہ ایک پارٹی اگر فرضی دعووں اور جھوٹے پروپیگنڈے کی اساس پر لوگوں کو گمراہ کرتی رہے، تو وہ پے درپے پندرہ سالوں تک حکومت میں نہیں رہ سکتی اور لوگ اسے پچاس ساٹھ فیصد تک حمایت نہیں کرتے رہیں گے،ہمارے یہاں تو انتیس تیس فیصدسے ہی کام چلایا جاتاہے اوراتنے میں ہی بی جے پی بھرپور اکثریت حاصل کرلیتی ہے۔

     اردوگان کے دورۂ ہندکے موقع سے سوشل میڈیا کی سطح پر چلنے والی دومختلف لہروں کاجائزہ بھی حقیقت پسندی کے ساتھ لینا ضروری ہے۔اردوگان کے دورۂ ہندوستان کے دوران جامعہ ملیہ اسلامیہ کی جانب سے انھیں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری دیے جانے کی خبریں آرہی ہیں ،اس اقدام کو عام طورپر سراہا جارہاہے ،ہندوستان کے عوام سمیت خود جامعہ کے کم ازکم اسی فیصدطلبہ واساتذہ سبھی ترک صدرکے گرم جوشانہ استقبال کے لیے تیار ہیں ،مگر سوشل میڈیاپر بعض طلبہ یا جامعہ کے ’مبینہ‘فارغین کی جانب سے کچھ ایسے خیالات کا اظہار کیاگیاکہ جامعہ اگر اردوگان کو یہ ڈگری دینے کا واقعی فیصلہ کرچکی ہے،تویہ شرمناک ہے اوراس سلسلے میں شدھبرت سین گپتانامی شخص کی جانب سےchange.orgپرایک آن لائن پیٹیشن بھی دائر کی گئی ہے،جس میں اپیل کی گئی ہے کہ جامعہ کواپنا فیصلہ واپس لینا چاہیے ؛کیوں کہ اردوگان ایک فاشسٹ اور ڈکٹیٹرحکمراں ہیں ،انھوں نے ترکی کے عوام کی آزادی سلب کررکھی ہے،پریس پرپابندیاں ہیں ،تعلیمی ادارے تہہ و بالا کیے جاچکے ہیں ،لاکھوں بے قصوروں کو پابندِ سلاسل کردیا گیا ہے وغیرہ وغیرہ،حالاں کہ یہ ساری باتیں وہ ہیں ،جن پر ایک باشعور انسان تبھی یقین کرے گیا،جب خبر بذاتِ خودان حالات کا مشاہدہ کرکے دی گئی ہو،مجموعی طورپر اردوگان کے خلاف اس قسم کے الزامات قطعی بے بنیاد ہیں اوران کے معقول ہونے کی کوئی وجہ اگر ہوسکتی ہے،تو صرف یہ کہ وہ اسلام پسندانہ رجحانات کے حامل انسان ہیں ۔

حالاں کہ بے چارے نے خود اسلام پسندہونے کے باوجود ملک بھر میں کہیں بھی اور کبھی بھی کسی بھی عوامی طبقے پر کوئی مذہبی قانون یا ضابطہ نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی ،ان کے پورے دورِ حکومت میں کوئی ایک خبر یا واقعہ ایسا نہیں ہے کہ ملک کے کسی بھی طبقے کوحکومتی جوروجبر کا شکارہونا پڑا ہو؛بلکہ ان کے آنے کے بعد تو ترک عوام پر سے اُس زباں بندی کا دستور اٹھایا گیاہے،جو ڈکٹیٹرفرماں رواکمال اتاترک اور اس کی نسلوں نے وہاں نافذ کررکھا تھااورانقلاب کی کوشش کے بعد انہی لوگوں کوجیل میں ڈالاگیا ہے،جو بغاوت کی اس کوشش میں شریک تھے ،ظاہرہے کوئی بھی حکومت ناجائزبغاوت کرنے والے کی حوصلہ افزائی تونہیں کر سکتی۔ ایک جرمنی بیسڈخبریہ چینلdw.comپرشری نواسن مجومدارکی ایک رپورٹ ٹائپ کی تحریر شائع ہوئی ہے،جس میں اردوگان کا موازنہ مودی سے کیاگیاہے اور کہاگیاہے کہ ایک مسلم نینشنلسٹ رہنماایک ہندونیشنلسٹ رہنما سے مل رہاہے،حالاں کہ مجموعی طورپراس تحریرمیں اردوگان کے دورے کے سیاسی و تجارتی پہلووں کواجالاگیا ہے،مگرابتدامیں مودی اور اردوگان کے مابین جو مشابہتیں بیان کی گئی ہیں ،وہ نہایت’’اُلّوانہ‘‘قسم کی ہیں ،کیااردوگان کا ماضی مودی کی طرح سفاکانہ و قاتلانہ رہاہے؟

کیا مودی کی طرح اردوگان بھی ’جاہل‘ہیں اور ایم اے کی جعلی ڈگری رکھتے ہیں ؟ااس حقیقت کو ساری دنیالاکھ تنقیدوں کے باوجود تسلیم کرتی ہے کہ اردوگان نے حکومت میں آنے کے بعد اپنے ملک کی اقتصادی قوت کوکہیں سے کہیں پہنچادیاہے،اس وقت وہ ورلڈبینک کوقرضہ دینے کی پوزیشن میں ہے،پہلے وہ ایک سو گیارہ نمبرکی اقتصادی قوت تھا،اب سولہ نمبر پر ہے اور جی-20کا رکن ہے،پہلے وہاں کے عام آدمی کی ماہانہ آمدنی3500ڈالرتھی،جوان کے دورِ حکومت میں گیارہ ہزار ڈالرتک پہنچ گئی،قومی آمدنی میں بے پناہ اضافہ ہوا(ہمارے ملک میں عام آدمی کی ماہانہ آمدنی 295ڈالرہے)جس کے نتیجے میں اردوگان کی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں تین سو گنا تک اضافے کیے۔اب کوئی بتائے کہ کیا ہمارے عظیم ہندوستان میں بھی یہی سب کچھ ہورہاہے؟تعلیم اور تحقیق کے معاملے میں اردوگان کی حکومت نے عالمی ریکارڈقائم کرتے ہوئے اس شعبے کا سالانہ بجٹ دفاع کے بجٹ سے بھی زیادہ کردیا،سائنسی محققین اور اسکالرس کے لیے جگہ جگہ لیباریٹریز کھولی گئیں اور2023تک تین لاکھ نئے محققین تیار کرنے کا نشانہ بنایاگیا ،ایک رپورٹ کے مطابق یورپ میں فروخت ہونے والا الیکٹرانک کا ہر تیسرا سامان ترکی ساخت کا ہوتاہے،جبکہ دوسری طرف ہماری سابقہ حکومتوں کوتوچھوڑیے،موجودہ حکومت کے آنریبل وزراتک میں سے زیادہ تر تو انڈرگریجویٹ ہی ہیں ،حتی کہ کئی منتری مہودیہ پانچویں چھٹی کلاس سے بھی آگے نہ بڑھ سکے،اس پر مستزاد سائنسی انکشافات کے بارے میں عجیب عجیب لطائف گھڑتے رہتے ہیں کہ ہوائی جہازفلاں بھگوان کے دورکی ایجاد ہے اور فلاں چیزکی اصل توہمارے فلاں مذہبی اسطورمیں پائی جاتی ہے۔ایک دوسراگرہ اسی سوشل میڈیاپربعض مسلم نوجوانوں کاہے ،ان کاخیال ہے کہ اردوگان نہ ہوئے ، صلاح الدین ایوبی کا مثنی اور نورالدین زنگی کے ہمزاد ہوگئے اوروہ بحیثیت ترکی کے صدرکے ہندوستان کا دورہ کرنے نہیں آرہے ہیں ؛بلکہ ایک فاتح وطالع آزما سپہ سالار کے طورپر ہندوستان کوفتح کرنے آرہے ہیں ،فیس بک اور واٹس ایپ وغیرہ پر ان کے تعلق سے ایسی ایسی ایمان افروزتحریریں دیکھنے میں آرہی ہیں کہ بس دیکھتے ہی بنتی ہے ،واٹس ایپ پر مجھے کئی اہلِ علم احباب نے ان کی تصویر بھیجی ،جس کے ساتھ یہ اپیل بھی اٹیچ تھی کہ اپنے زندہ ایمان کا ثبوت دینے کے لیے آج سے دودن تک فیس بک ،واٹس ایپ وغیرہ پر اپنی ڈی پی میں یہی تصویر لگاکررکھو۔

بھائیو!کسی سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہیے،اپنے آپ سے بھی نہیں ،جس طرح مایوسی کو شریعت میں کفر قراردیاگیا ہے،اسی طرح ضرورت سے زیادہ رجائیت بھی بسا اوقات نتائج کے اعتبار سے تکلیف دہ ہوتی ہے۔اردوگان ایک ملک کے صدرہیں اوراسی حیثیت سے وہ ہندوستان آرہے ہیں ،وہ ترکی اور ہندوستان کے مابین تعلقات پر بات چیت کریں گے،اس سلسلے میں کچھ معاہدے ہوں گے ،ہمارے صدر،نائب صدروزیر اعظم وغیرہ سے ان کی ملاقات ہوگی اورپھر وہ چلے جائیں گے۔باقی ہندوستانی مسلمانوں کوجومسائل درپیش ہیں ،ان کا مقابلہ انھیں خود کرنا ہوگا،اردوگانی فوج اس کے لیے نہیں آرہی۔ہمیں بھی خوشی ہے کہ وہ ایک ابھرتے ہوئے مسلم ملک کے صدرہیں ،ان کی جرأتِ گفتار و کردار کے مختلف مظاہر سامنے آچکے ہیں اور آتے رہتے ہیں ،انھوں نے عالمی سطح پر بعض اہم مسلم مسائل سے دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے ،ہم دعاگوبھی ہیں کہ خداانھیں استقامت عطاکرے اور جدید ترکی ہر اعتبار سے ترقی یافتہ و خوشحال بنے؛لیکن حقائق کی روشنی میں ہماری خوشی محدود ہے اور ہونا بھی چاہیے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔