اسلام اور پانی

 ممتاز میر

بچپن میں شایدپرائمری یا ہائی اسکول میں پہلی بار یہ پڑھا تھا کہ زمین کا 30 فی صد حصہ خشکی پر اور 70  فی صد حصہ پانی پر مشتمل ہے تو بڑا  تعجب ہوا تھا ۔اس وقت اللہ کی یہ حکمت سمجھ میں نہیں آئی تھی ۔اس وقت جو بات دماغ میں آئی تھی انسانوںکو رہنے کے لئے گھر بنانے کے لئے زیادہ زمین کی ضرورت ہے ۔اسلئے خشکی کا حصہ زیادہ ہونا ضروری ہے۔اس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ انسان پانی پر اور پانی میں بھی گھر کیا سرنگیں اور ریلوے لائنیں بچھانے والاہے ۔اور نہ یہ معلوم تھا کہ خدا کا دیا ہوا 70  فی صد پانی ہونے کے باوجود ہم انسان پانی کی بوند بوند کے محتاج ہونے والے ہیں ۔

اللہ نے 1400 سال پہلے ہمیں وارننگ دی تھی کہ انسانوں کے اپنے کرتوتوں کی بنا پر خشکی اور تری میں فساد پھیلنے والا ہے اور اس خشکی و تری میں فساد پھیلنے کی سب سے بڑی ذمے داری ہم مسلمانوں پرہے کیونکہ ہم صاحب کتاب ہیں اور اللہ کی ساری وارننگس1400 سالوں سے ہمارے علم میں ہے۔کیا ہم اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں؟بلا شبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم کیا کریں حکومتوں نے سافٹ ڈرنک کمپنیوں کو جگہ جگہ پلانٹ لگانے کی اجازت دے رکھی ہے جو آبی وسائل کا بڑا حصہ’’پی‘‘ جا رہی ہیں۔حکومتوں نے ہی  قارونوں کو اتنے بڑ ے بڑے گھر بنانے کی اجازت دے رکھی ہے کہ ہر گھر میں یا ہر فلیٹ میں اپنا ایک سوئمنگ پول بنایا جا رہا ہے۔

بڑی بڑی ہوٹلیں ہیں جن کے پانی کے استعمال پر کسی طرح کا کوئی قدغن نہیں ۔میونسپل کمیٹیاں اور کارپوریشن پانی کی کمی پر ،بارش کی کمی پر واٹر سپلائی میں عام لوگوں کے لئے توکٹوتی کرتی ہے مگر ان بڑ ے پیٹ والوں کے لئے کوئی کٹوتی نہیں ہوتی ۔برسوں پہلے سننے میں آیا تھا کہ ممبئی میونسپل کارپوریشن صرف ان رہائشی عمارتوںکو تعمیر کی اجازت دے گی جن کے پاس Water Harvesting کا انتظام ہوگا ہمیں نہیں معلوم کہ اس پر کیسا اور کتنا عمل ہوا ۔برسوں پہلے دلی میںدہلی ہائیکورٹ نے18289 اور الہاس نگر میں بومبے ہائی کورٹ نے  855 عمارتوں کو گرانے کا حکم دیا تھا ۔عمارتیں جادو سے یا جنوں کے ذریعے راتوں رات تو بنی نہ ہونگی جو کارپوریشن کے حکام کو آنکھوں آنکھ پتہ نہ چل سکا ۔ہمیں یقین ہیں کہ یہ تمام عمارتیں ٹیبل کے نیچے کے ہاتھوں کے آشیرباد سے وجود میں آئی ہونگی۔تو صاحب پانی کا ضیاع کسے نظر آرہا ہے ؟

ہمیں تو لگتا ہے کہ آرڈر دینے کے بعد خود ہائی کورٹس کو نظر نہ آیا ہوگا کہ مذکورہ عمارتوں کا کیا ہوا؟آج صورتحال یہ ہے کہ عمارتوں کا جنگل تو بنایا جا رہا ہے مگر وہ جنگل جو بارش کی گارنٹی ہوتے ہیں انھیں کاٹا جا رہا ہے ۔یہ کوئی نہیں سوچتا کہ سمنٹ کانکریٹ کے ان جنگلوں میں رہنے والے ان انسان نما درندوں کا کیا ہوگا؟اور یہ پکچر کا ایک سین ہے دوسرے مناظر کی طرف نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ کرناٹک اور ٹمل ناڈومیں پانی پر وہ تنازعہ برپاکہ سمجھئے جنگ چل رہی ہے۔حالت یہ ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی سنی ان سنی کی جارہی ہے اور پورا جیوڈیشیل سسٹم ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویربنا ہوا ہے ۔اب وہ معاملہ ایسا ہو گیا ہے کہ ہر کوئی اسے ہاتھ لگاتے خوف کھا رہا ہے۔یہ داخلی صورتحال ہے َخارجی حالات بھی ایسے ہی ہیں۔ماہرین پیش گوئی کر رہے ہیں کہ مستقبل میں ہند وپاک اور ہند وبنگلہ دیش میں پانی پر جنگیں ہونا ممکن ہے۔یہی حالت مشرق وسطیٰ اور ترکی کی بھی ہے اور یہی سب کچھ افریقی ممالک میں بھی ہو رہا ہے۔

اسلام دین الہیٰ ہے ۔نظام زندگی ہے قیامت تک کے لئے۔اسلئے اللہ نے قرآن اور رسولﷺ کے ذریعے قیامت تک کے انسانوں کو ہدایات بھی دی ہیںاور وارننگس بھی۔اچھے اعمال پر خوش خبریاں بھی سنائی گئیں ہیں اور برے اعمال کے نتائج سے خبر دار بھی کیا گیا ہے
آج دنیا اپنے برے اعمال کے نتائج بھگت رہی ہے ۔برسوں سے ہر سال ماحولیات پر بڑے ملکوں کے بڑے شہروں میںبڑی بڑی کانفرنسیںہوتی ہیں مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلتا ہے۔اب حکمرانوں کو اپنی جھوٹی ترقی کے جھوٹے اعدادوشمار کی فکر تو ہے مگر جیتے جاگتے اپنے ہی جیسے انسانون کی جانوںفکرنہیں ہے ۔اسلئے وہ ممالک جوماحولیات کی اس خرابی کے ذمے دار ہیں اپنی ملک کی ترقی کی فکر میں ماحولیات کو بچانے کے لئے،یعنی انسانی زندگی کو بچانے کے لئے رتی برابر قدم اٹھانے کو تیار نہیں۔

ان حالات میں ہمیںحضورؐ کییہ حدیث یاد آتی ہے جس میں آپؐنے راستے سے پتھر ہٹادینے کو بھی نیکی کہا ہے۔آپ سوچئے دنیا کے موجودہ حالات میں پانی کو بچانا کتنی بڑی نیکی ہو سکتی ہے اور وہ بھی اس نیت کے ساتھ کہ اس طرح ہم اسلام کی تعلیمات کو دنیا کے سامنے بطور نمونہ پیش کر رہے ہیں۔

پہلے ہم حضور ﷺ کی پانی کے تعلق سے چند احادیث پیش کرتے ہیں،پھر اس کے بعد کچھ مشورے۔ سنن ابن ماجہ اور مسند امام احمدکی بڑی مشہور حدیث ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سعدؓ وضو فرمارہے تھے اور وہ پانی کچھ زیادہ ہی ضائع کر رہے تھے اسی وقت وہاں حضورؐ پہونچ گئے ۔حضورؐ نے انھیں پانی کے اسراف سے منع فرمایا ۔حضرت سعد کو بڑا تعجب ہوا ۔انھوں نے پوچھا کہ کیا وضو میں بھی توس حضور ﷺ نے فرمایا ۔ہاں،چاہے تم بہتے ہوئے دریا پر ہی کیوں نہ بیٹھے ہو۔اس حدیث کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ حضور ؐ اس سے پہلے بھی صحابہ کرامؐکوپانی کی اہمیت اور اس کے اسراف کے تعلق سے تلقین فرماتے رہے تھے۔سنن ابن ماجہ کی ایک دوسری حدیث میںحضورؐ نے پانی کو ضائع کرنے اور ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کرنے سے بھی روکا ہے۔۔ایک تیسری حدیث میں پانی میں  راستوں پر اورسایوں میں پیشاب کرنے سے روکا ہے۔

ایک اور حدیث میں بہتے ہوئے پانی میں بھی پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے اس کے علاوہ قرآن میں بھی پانی کی اہمیت پر بیشمار احادیث ہیں اور یہ سب اس وقت ہے جب کہ ہمارے دین میں صفائی کی غیر معمولی اہمیت ہے ۔کونسا دھرم یا مذہب ایسا ہے جہاں عبادت سے پہلے پاکی اور صفائی کا حکم دیا گیا ہو؟اور صفائی پانی کے بغیر ممکن نہیں ۔ہمیں ہماری شریعت تفصیل سے بتاتی ہے کہ غسل کب کب واجب ہوجاتا ہے ؟یہی نہیں غسل کا طریقہ بھی بتاتی ہے ۔پھر دن بھر میں ہم پر 5 نمازیں تو فرض ہے ہی ۔اس کے علاوہ بھی مختلف اوقات کی نفل نمازیںہیں۔ اور کوئی بھی نماز ہم بغیر وضونہیں پڑھ سکتے۔بلا شبہ ایک ہی وضو سے کئی نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں مگر بہر حال اب وہ زمانہ نہیں رہاوہ جادو نہیں رہا جب ایک ہی وضو سے 40 دن تک نمازیںپڑھ لی جاتی تھیں۔۔۔ہم سمجھتے ہیں کہ ایک اوسط رقبے کی مسجد میں روزانہ تین سے چار ہزار لیٹر پانی وضو کے بعد ضائع ہوتا ہوگا ۔کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس ضائع ہونے والے پانی کو وہ مسجدیں جن کے پاس گنجائش ہو استطاعت ہو وہ کسی جگہ جمع کریںاور علما کرام کی اجازت کے بعد یا تو دوبارہ وضو کے لئے استعمال کیا جائے یا کسی دوسرے استعمال میں لیا جائے ۔بہرحال اس تعلق سے علماء کرام سے تفصیل سے فتویٰ طلب کیا جائے۔

اس کے علاوہ ایک مشورہ اور ہے ۔یاد نہیں رہا مگر کہیں پڑھا تھا اس تعلق سے۔۔۔ہم نے کچھ مساجد ایسی بھی دیکھی ہیں ۔جن کی آمدنی
ضرورت سے زیادہ ہے ۔اسلئے وہاں سال بھر کچھ نہ کچھ تعمیری و تخریبی کام چلتا رہتا ہے ۔ایسی مساجد کے ذمے داران تعمیر و تخریب کے بجائے اپنے یہاں Solar Energy Plant لگا لیں ۔آجکل حکومت اس کے لئے سبسڈی بھی دے رہی ہے ۔اس سے ان کا پاور پرابلم ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیگا۔خاص طور پر وطن عزیز کے ان حصوں کے لئے تو یہ بہت ہی مفید چیز ہے جہاں ہمیشہ لوڈ شیڈنگ رہتی ہے۔

ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس طرح کے اور بھی مفید مشورے ہمارے دانشور اپنے مضامین میں قوم کو دیں گے۔اب رفتہ رفتہ وطن عزیز میں براہ۰ راست تبلیغ دین کو مشکل بنا دیا جائے گا ۔ہم اسی طرح اسلامی تعلیمات کے فائدے  برادران وطن کے سامنے رکھ کر انھیں اسلام کے مطالعے کے لئے مجبور کر سکتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔