جئے شری رام کے نام سے مسلمانوں کا کام تمام

مدثراحمد

جب سے مودی حکومت ہندوستان میں اقتدار پر آئی ہے چاہے وہ2014 سے2019 تک ہو یا پھر 2019 میں اقتدار پر آنے والی حکومت ہو۔ اس چھ سالہ معیاد میں درجنوں لوگ ایک تو گائے کے نام پر مارے جارہے ہیں تو دوسرے شری رام کے نام سے قتل کئے جارہے ہیں۔ ان اموات میں سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے،اس بات کااعتراف نہ صرف ہم ہندوستانی مسلمان کررہے ہیں بلکہ پچھلے دنوں اقوام متحدہ اور امریکی حکومت کے وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ امریکی حکومت کے وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں مسلمان محفوظ نہیں ہیں اور بڑے پیمانے پر ان کی مذہبی آزادی چھینی جارہی ہے۔ یہ وہی مسلمان ہیں جنہوں نے سن1000 سے لیکر1857 تک اس ملک پرحکومت کرتے رہے، جب جب ملک میں مسلمانوں کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی اس وقت مسلمانوں نے میانوں سے تلواریں نکالی اور بعض موقعوں پر جہادکیلئے احکامات بھی جاری ہوئے۔

کچھ دن قبل کی بات ہے کہ دہلی میں ایک سکھ سردارجی پر پولیس نے رشوت کے معاملے کو لیکر حملہ کیا،اس پر جوابی کارروائی کرتے ہوئے سردارجی نے اپنے ساتھ رکھی ہوئی تلوارنما چاقو نکالی اور پولیس کو ڈراکر اپنی بہادری کامظاہرہ کیا اور یہ پیغام دیا کہ سردارجی پر کوئی بھاری نہیں پڑسکتا۔ اس کے کچھ دیربعد پولیس کی ایک ٹیم سردارجی کو دبوچ کر خوب زدوکوب کیااورا نہیں تھانے لے گئے۔ جیسے ہی یہ اطلاع مقامی سکھ براردی کو ملی تو پوری سکھ براردی تھانے پہنچ کر توڑ پھوڑکی،جتنے پولیس اہلکار ان کے ہاتھ لگے ان پر لاٹھیاں برسائی،گھونسے برسائے اور لاتیں ماری۔ اتنے میں ان کے سیاسی قائدین اور مذہبی رہنماء بھی تھانے پہنچے اور خاطی پولیس اہلکاروں پر کارروائی کرنے کا شدید مطالبہ کیا۔ پولیس نے آناً فاناً میں تین پولیس اہلکاروں کو سسپنڈ کرنے کے احکامات جاری کئے۔ اسی طرح سے کچھ سال قبل ایک سردارجی اپنے ٹرک میں جانوروں کو لے جارہا تھا،یہ جانور قانونی طور پر دوسری جگہ منتقل کئے جارہے تھے،مگر گائورکشا کے نام پر تشدد برپاکرنے والی ایک تنظیم کے کارکنوں نے سردارجی کو روک کر ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی تو سردارجی نے اپنی تلوارنکال لی تو وہاں سے گائو رکشا کے ڈھونگی فرار ہوگئے۔

ہم میں اور سردارجی کے رویہ میں یہی فرق دکھائی دے رہا ہے کہ وہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے اپنے ہتھیار اٹھا رہے ہیں اور اپنے آپ کو متحد کرتے ہوئے سڑکوں پر اترآرہے ہیں ۔ جبکہ ہماری قوم کا معاملہ الگ ہے۔ ہمارا ایک نوجوان رام کے نام پر مارا جاتا ہے تو ہم اس خبر کو فیس بک،واٹس ایپ،انسٹاگرام اور یو ٹیوب پر شیئر کرتے ہوئے اپنی شجاعت و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے آپ کو ان حالات سے علیحدہ کرلیتے ہیں ۔ کسی مسلمان کی موت پر آواز اٹھانے کی بات تو دور افسوس کرنے کیلئے بھی فرصت نہیں رہتی۔ جو قوم نعرے تکبیر کے نام پر اپنے آپ کو شہید کرنے سے بی پیچھے نہیں ہٹتی تھی،آج وہی قوم جئے شری کے نام پر اپنی زندگی دائو پر لگا رہی ہے۔ کاش کہ جتنی حرکت پچھلے دنوں سرداروں نے کی ہے،اُس کا ایک تہائی حصہ بھی مسلمان اپنے ردِ عمل کے طو رپر پیش کرتے تو آج مسلمانوں کی جانیں ایسی نہیں جاتی۔ بظاہر ہمیں صبر کی تلقین دی جاتی ہے،حکمت سے کام کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے،لیکن کیا ہمارے ملی و مذہبی قائدین شجاعت کا سبق دے پائینگے؟۔ آج اُمت مسلمہ کو جس طرح سے بزدل، ڈرپوک اور کاہل بنایا جارہا ہے اس کی مثال شائد ہی تاریخ کے کسی دورمیں ملتی ہوگی۔ علامہ اقبال نے کہا تھاکہ

اپنی غفلت کی یہی حالت اگر قائم رہی
آئینگے غسال کابل سے،کفن جاپان سے

تشریح یہ ہے کہ اگر ہم اپنی تہذیب، اپنے وجود، اپنے علمی حالات اور ماضی پر توجہ نہیں دینگے اور غفلت کی حالت یہی رہی تو کچھ عجب نہیں کہ مردوں کو غسل دینے والے کابل سے آئینگے اور کفن جاپان سے منگوایا جائیگا۔ موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائےتو یہ بات واضح ہے کہ مسلمان قوم کا عنقریب صفایا ہونے لگے گا اور اس صفائے کے دوران جو لوگ مردے ہونگےانہیں غسل دینے کیلئے بھی لوگ باہر سے آئینگے کیونکہ مقامی لوگ حکمت اور صبر کے نام پر ان میتوں کےپاس بھی نہیں آئینگے۔

اتنی بڑی تعدادمیں مررہے مسلمانوں کیلئے ہم آہ بھی نہیں کرپارہے ہیں ،ہمارا ضمیر مرتا جارہا ہے،ہماری جانبازی ہم کرکٹ کے میدان میں دکھا رہے ہیں ،ہماری طاقت دولت اکٹھا کرنے میں لگا رہے ہیں ،ہماری قوت زمینیں خریدنے میں لگا رہے ہیں ،ہماری سوچ وفکر محدود ہوتی جارہی ہے،یہی حالات سلطنتِ عثمانیہ کے دورمیں بھی آئے تھے۔ اُس وقت بھی ظالم حکمرانوں نے مسلمانوں کاصفایا کیا تھااو رآج بھی وہ دور لوٹ آیا ہے،اگر ہم اپنے آپ کو سلطان صلاح الدین ایوبی اور سلطان ٹیپوکے طرز پر نہیں لے جاسکتے تو ہماری نسلوں کو چھوڑئیے خود ہمارے وجود کا نام ونشان نہیں رہے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔