جارج آرویل کا انیمل فارم اور خوف میں ڈوبا ہوا ہندوستان 

مشرّف عالم ذوقی

فلم اداکار اور بھاجپا لیڈر انوپم کھیر  نے نصیر الدین شاہ پر الزام لگایا کہ وہ کتنی آزادی چاہتے ہیں۔ جس ملک میں آپکا شناختی ڈاٹا  تک محفوظ نہ ہو، وہاں ہنسی سے زیادہ انوپم کھیر  جیسے لوگوں کی بے بسی پر ترس آتا ہے۔ جب پرسن باجپایی، رویش کمار، ابھیسار جیسے لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ آج مسلم سماج خوفزدہ کیوں ہے؟ تو کیا انکے سوال بھی بے بنیاد ہیں؟ کیا جب عامر خان نے یہی سوال پوچھا تھا تو کیا وہ غلط تھے؟ اور اب جب یہی سوال نصیر الدین شاہ پوچھ رہے ہیں تو کیا یہ پوچھنا بھی مذاق کی حیثیت رکھتا ہے؟ آج مجھے پھر جارج آرویل کی شدت سے یاد آ رہی ہے۔ شہرہ آفاق ناول اینیمل فارم میں سیاست اور سماج کا جو خوفناک چہرہ آرویل نے دکھایا ہے، وہ آج کے ہندوستان کا بھیانک سچ ہے۔ فارم کے جانور اپنے باس کے خلاف بغاوت کرتے ہیں اور حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں۔ سور ان جانوروں میں سب سے زیادہ ہوشیار ہیں اور اس وجہ سے وہ ان کی قیادت کرتے ہیں۔ سور جانوروں کی اسمبلی میں حکمرانی کے کچھ اصول مقرر کرتے ہیں۔ لیکن بعد میں ان سوروں نے انسان کی رنگا رنگ طبیعت کو اپنا لیا اور دوسرے جانوروں کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کیا۔ اب اس ناول سے گزرنے کے بعد آج کے ہندوستان کو سامنے رکھ لیجئے۔ کانگریس کے خلاف بغاوت ہوئی، حکومت کن لوگوں کے پاس آ گیی، بتانے کی ضرورت نہیں۔ قیادت کرنے والے وہ چہرے ہیں جو انسان اور جانوروں کا فرق بھول گئے۔ ایک جھوٹی افواہ پھیلا کر یو پی کے بلند شہر کو مظفر نگر کی طرح فسادات کے بے رحم شعلوں میں جھونک دینے کی سازش ہوتی ہے۔ یوگی بیان دیتے ہیں کہ ان کے لیے گایوں کا تحفظ انسانی تحفظ سے زیادہ ضروری ہے۔  گایوں کی فرضی کہانیوں کی بنیاد پر معصوم اقلیتوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے۔ ہجومی تشدد عام ہے اور اور اس کاروبار سے فائدہ اٹھانے والے قاتل جانتے ہیں کہ جب تک مرکزی اور ریاستی حکومت ان کے ساتھ ہے، انکا کچھ نہیں بگڑے گا۔  یہ موجودہ اینیمل فارم کے خوفناک کردار ہیں۔ جارج آرویل کے سوروں نے جمہوریت کو ہائی جیک کر لیا ہے۔ ۔ ہم ایک ایسے ڈرامے کا حصّہ ہیں، جہاں منہ کھولنے والے، زبان کو جنبش دینے والے غدار قرار دے جا رہے ہیں۔ ٢٠٠٣ میں جب ججرات میں قتل عام ہوا تھا، اس وقت سعادت حسن منٹو کو لے کر میں نے ایک کہانی لکھی تھی۔ منٹو اور خواب۔ ۔منٹو ایک لڑکی کے ساتھ گجرات کی سڑکوں پر گھوم رہا ہے۔ وہ گاڑی ڈرائیو کر رہا ہے کہ ایک حادثہ ہو جاتا ہے۔ اس کہانی کا آخری پیراگراف دیکھئے۔

’تم اس بچے کو بچا سکتے تھے۔۔۔۔‘ میں زور سے چیخی۔

’گائے اور بچے میں سے ایک‘۔۔۔۔ شاید مجھ سے کہیں زیادہ شدت سے منٹو چیخا تھا— ’ ایک اقلیت بچے کا حادثہ دو گھنٹے میں بھلا دیا جائے گا۔ اس بستی میں گائے کے مرنے کا مطلب جانتی ہو۔۔۔؟۔‘

منٹو پلٹا۔ میز پر بکھرے کاغذوں کے چیتھڑے کر کے اس ڈسٹ بین میں ڈال دیئے۔

منٹو غائب تھا۔۔۔۔ لیکن وہ کرسی جس پر ابھی کچھ لمحہ قبل وہ بیٹھا تھا، وہ ابھی بھی ہل رہی تھی

(منٹو اور خواب)

پندرہ برس قبل جب میں نے یہ کہانی لکھی تھی، مجھے یقین نہیں تھا کہ حالات کچھ برسوں میں اس سے کہیں زیادہ خراب ہو جاییں گے۔ انسانوں پر جانوروں کو فوقیت دی گیی۔ انصاف مر گیا۔ عدالتیں بے بس ہو گیں۔ ۔ ہرن پانڈیا، جسٹس لویہ، کوثر بی، سہراب الدین شیخ تک، جو فیصلے اے، وہ ظالم اور جابرانہ نظام کی گواہی کے لئے کافی ہیں۔ ۔اور اب حکومت کے شاطرانہ گیم میں کویی بھی ہندوستانی محفوظ نہیں۔ مرکز کی دس سرکاری ایجنسیاں آپ کے کمپیوٹر پر نظر رکھیں گی۔ ابھی تک ادھار کارڈ سے ڈیٹا لیک ہونے کا خطرہ بنا ہوا تھا۔ ۔سیدھی بات یہ کہ حکومت ہندوستانی عوام کی جاسوسی کرنا چاہتی ہے۔ ۔ذاتی زندگی میں مداخلت کے دائرے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ۔یہ ایجنسیاں کیا کرتی ہیں، میں نے اپنی ایک کہانی میں اسکا ذکر کیا تھا۔ ۔آپ بھی دیکھئے۔ ۔

‘وہ ہنس رہا تھا۔ ’ایک لیپ ٹاپ لے آیا۔ آپکی نئی گلوبل دنیا سے جڑنا چاہتا تھا۔ فیس بک، گوگل، ٹوئٹر۔ ۔۔۔ دوست بنا رہا تھا۔ لیکن وقت بتانے والی گھڑی بند تھی۔ ہم پیچھے چلے گئے تھے۔‘

’آگے کیا ہوا بتاو۔ ؟‘

’ ایک دن دروازے پر دستک ہوئی۔ دو تین پولیس والے تھے۔ وہ دھڑدھڑاتے ہوئے اندر آ گئے۔ میرا نام پوچھا۔۔۔۔گھر کے سامانوں کی تلاشی لی۔ میں باقاعدہ پوری دلچسپی سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ پھر ایک پولیس والا میرا لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گیا۔ وہ اپنے فن میں ماہر تھا۔ اس نے پتہ نہیں کیا کاریگری کی کہ دیکھتے ہی دیکھتے میرا لیپ ٹاپ مسلمان ہو گیا۔‘

’ لیپ ٹاپ مسلمان ہو گیا؟ ‘

آصف شیخ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔۔۔۔ ’اسکرین پر اچانک ایمان تازہ ہو گیا سر۔ دنیا بھر کی اسلامی فوٹوز میرے لیپ ٹاپ کے اسکرین پر جھلملا رہی تھیں۔ کچھ چہرے بھی تھے۔ پولیس والے نے میرا پاس ورڈ پوچھا۔ میں نے بتا دیا۔ نہ بتانے کا سوال ہی نہیں تھا۔ کچھ دیر تک پورے انہماک سے وہ اپنا کام انجام دیتا رہا۔ پھر میرے والدین سے کہا آپ سب کو میرے ساتھ تھانے چلنا پڑے گا۔‘

 تواریخ سے پرے ایک دنیا کی جاسوسی 

کیا اب سوچنے کی ضرورت نہیں کہ ہندوستانی سیاست ہمیں کس موڑ پر لے آی ہے۔ ۔کیا یہ کہنا غلط ہے کہ ہمارے بچوں کی زندگی خطرے میں ہے ؟ آر ایس ایس کی شاخیں سوشل میڈیا پر زہر اگل رہی ہیں۔ کہیں مسلمانوں کی ہلاکت کے منصوبے بناہے جا رہے ہیں اور کہیں تصور کی نا پاک دنیا میں مسلمانوں کو قتل کرنے کا جشن منایا جا رہا ہے۔ ۔یہ سب ہندوستانی حکومت اور ہندوستانی پولیس کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے اور اب یقین کرنے کے سوا کویی چارہ نہیں کہ اس کاروبار میں سب ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ ۔ تشدد کی رفتار نے خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ اشتعال انگیز بیان دینے والے انعام و اعزاز سے نوازے جا رہے ہیں۔ ۔ ہجومی تشدد برپا کرنے والے، گاہے کے نام پر ہتیا کرنے والے آزاد گھوم رھے ہیں۔ انکو نمائشی سزا بھی ملتی ہے تو ایسے لوگ شان سے رہا ہوتے ہیں اور بی جے پی کے لیڈران انکی تاج پوشی کے لئے بھی تیار رہتے ہیں۔ ۔۔۔

تاریخ کے صفحے پلٹتا ہوں تو گویٹے کے مشہور ڈرامے فاوسٹ سے لے کر ہٹلر کی خوں آشام کہانیوں کے اوراق نظروں کے سامنے ہوتے ہیں۔ ۔۔ آر ایل سٹوینسن کے مشہور ناول ڈاکٹر جیکل اینڈ مسٹر ہائیڈ کا کردار ہٹلر اور مودی کی طرح رنگ بدلتا ہوا سامنے ہوتا ہے۔ ۔ایک انسان کے باطن میں پوشیدہ ایک بیڈ مین یا ڈریکولا۔ ۔ کیا ایک پوری تنظیم اس وقت ڈریکولا یا ڈاکٹر جیکل کے جسم میں پوشیدہ بری روح بن کر ہندوستان کی اقلیتوں کا خون چوس رہی ہے۔ ۔؟ اور وہ بھی کھلے عام ؟ ایک مہذب عھد میں، جہاں اقوام متحدہ، انٹرنیشنل قانون، انسانی حقوق جیسی تنظیمیں بھی اپنا کام کر رہی ہیں۔ ۔؟ پورا ہندوستان ایک خونی ویمپائر کے تماشے کو بند آنکھوں سے کیسے دیکھ سکتا ہے ؟

انیس سو تینتیس میں، ایڈولف ہٹلر نے جرمنی میں طاقت حاصل کی اور ایک نسل پرست سلطنت قائم کی، جس میں یہودیوں کو ذیلی انسان قرار دیا گیا اور ہٹلر کی خوفناک تانا شاہی نے انہیں انسانی نسل کا حصہ نہیں سمجھا۔ جرمنی کی طرف سے 1939 میں عالمی جنگ ختم ہونے کے بعد، ہٹلر نے یہودیوں کو ختم کرنے کے لئے اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا۔ ۔۔ اس کے فوجیوں نے بعض علاقوں میں یہودیوں کا پیچھا شروع کیا۔ انہیں کام کرنے کے لۓ، انہیں جمع کرنے اور انہیں مارنے کے لئے خصوصی کیمپوں کا انتظام کیا گیا تھا،۔ جنگ کے بعد ہٹلر کا مقصد یہودیوں کو ساری دنیا سےختم کرنا تھا۔ ہم بہت تیزی سے ایک اندھیری دنیا میں چھلانگ لگا چکے ہیں۔ ۔اور یہ کہنا مشکل نہیں۔ ۔۔کہ ہم خیریت سے نہیں ہیں۔

اقلیتوں کی ہتیا ہو رہی ہے اور جانوروں کی اس غیر مہذب دنیا میں ہماری جاسوسی کرایی جا رہی ہے۔ ہمارے پرسنل ڈیٹا کو حکومت کھنگال رہی ہے۔ شکنجے میں کون آییں گے، یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ان پانچ برسوں میں ایسی ہزاروں سازشیں بے نقاب ہوئیں جب آر ایس ایس کی شاخوں کی تربیت یافتہ ہندو عورتیں مسلمان بن کر، حجاب لگاکر فتنہ فساد کرتی ہوئی  نظر آئیں یا ا ہندو لڑکے مسلمان بن کر سازش کرتے ہوئے پکڑے گئے، گو کشی کی افواہ پھیلاکر معصوم مسلمانوں کو ہلاک کیا۔ آر ایس ا یس اور ہندو سبھاوں کی لاکھوں شاخیں ہیں جہاں نقلی مسلمان تیار کرکے معصوم مسلمانوں کی زندگی سے کھیلا جارہا ہے۔ صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنے والے، پانچ برسو ں میں مودی ظلم کا شکار ہونے والے دبے، کچلے، سہمے ہوئے مسلمان کہاں تک سوچیں گے کہ ان کے ساتھ مستقبل میں کیا سلوک ہونے والا ہے۔ گھر سے باہر نکلتے ہیں تو موت۔ لباس مسلمانوں جیسا ملے تو موت۔ چہرے پر داڑھی ہے تو موت۔ گائے بھینس لے کر زندگی گزارنے جارہے ہیں تو موت۔ بلند شہر،میرٹھ، دلی، دادری، مظفر نگر، مظفر پور، سیتا مڑھی کونسا شہر ہے، جہاں معصوم مسلمانوں کو شر پسندوں کا نشانہ نہیں بننا پڑا اور کانگریس بھی سوتی رہی۔ نام نہاد سیکو لر پارٹیو ں نے بھی مسلمانوں کے معاملے میں اپنی نیندیں نہیں توڑیں۔ ابھی دوبرس گزرے ہوں گے۔ بھوپال کی جیل سے رہا ہونے والے آٹھ قید یوں کو باہر لے جاکر انکاونٹر کردیا گیا – فرضی انکاونٹر کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔مسلمان ہونا اس ملک میں جرم بن چکا ہے۔ اور سیاسی جماعتیں خاموش ہیں۔ کیا کانگریس کی حکومت آنے سے ہمارے دکھ درد دور ہوجائیں گے۔ ؟تمام سرکاری ایجنسیوں پر آج آر ایس ایس کے لوگ حاوی ہیں۔ کیا کانگریس ان سے الگ اپنا راستہ بناسکے گی؟ ناممکن ہے۔ کانگریس آبھی جاتی ہے تو تمام ایجنسیوں اور خفیہ ایجنسیوں پر یھاں تک کہ پولیس، فوج، عدالت ہر جگہ آر ایس ایس کی حکومت ملے گی۔ کانگریس نام کی رہے گی۔ اور حکومت پس پردہ بھی آر ایس ایس کی چلتی رہے گی۔ابھی آگے کے دس برس مسلمانوں کےلئے پریشانی سے بھرے ثابت ہوں گے۔ اور ان سے نجات حاصل کرنا یا باہر نکلنا مسلمانوں کے لئے آسان نہیں ہوگا۔ المیہ ہے کہ پچیس سے تیس کروڑ کی مسلم آبادی آج کی تاریخ میں اپاہج بنادی گئی ہے۔ ہمارے سامنے کوئی مستقبل نہیں ہے۔ کون لڑے گا ہمارے لیے ؟سیاسی پارٹیاں؟ کانگریس ؟ بھول جائے۔ حکومت تبدیل ہونے کے بعد بھی کچھ نہیں بدلے گا، کیو ں کہ ہندوستان کی اکثریت کو نفرت کا جو انجیکشن ان پانچ برسوں میں لگایا گیا ہے، یہ انجیکشن اپنا کام کرتا رہے گا۔ اور سییاسی پارٹیاں مسلمانوں سے فاصلہ بنائے رکھنے میں ہی طاقت محسوس کریں گی۔

2019 سے پہلے حکومت اپنی ناکامیوں کی کہانی ہندوستانی عوام کو نہیں سنانا چاہتی۔ اب جو میڈیا ہے وہ مسلمانوں سے نفرت تقسیم کرنے کے لئے چھٹے سانڈ کی طرح آزاد۔ ۔اظہار راہے کی آزادی کے قتل کا دردناک منظر دیکھنے کے لئے ہم زندہ ہیں، اور یہ داستان آگے بڑھے، ممکن ہے اس سے قبل سچ بولنے والوں کی زبانیں کاٹ دی جاہیں۔

کیا اب ان حالات میں بھی یہ کہا جائے گا کہ میں لوگوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔