جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ’فراق یادگاری خطبے‘ کا انعقاد

ڈاکٹر کالد مبشر

نیر مسعود کی کہانی کھوئے ہوؤں کی جستجو کا استعارہ ہے:سید محمد اشرف

گنگا جمنی تہذیب زندگی کے بحر ظلمات میں سبز جزیرے کی طرح ہے: پروفیسر شمیم حنفی

 نیر مسعود کا فکشن ماضی کی بازیافت کا ایک تخلیقی عمل ہے۔ ایک ایسا عمل جو ہر قسم کی تقلید اور مکتبیت سے پرے، نئے سرے سے زبان، اسلوب ، تکنیک اور موضوع و مواد کو برتنے اور پیش کرنے پر اصرار کرتا ہے۔ زبان کی ہندوستانیت پر اس قدر تاکید ہے کہ عربی اور فارسی کی جکڑبندیوں سے آزاد ایک خود مختار اور غیر منحصر بیانیہ ظہور پذیر ہو جائے ، جس کو صرف اردو پن ہی کہا جا سکتا ہے۔ نیر مسعود اپنی کہانیوں میں کھوئے ہوئے رشتوں کی تلاش، گمشدہ اشیا اور احساسات کی جستجوکی فضا کو کھویا کھویا سا رکھتے ہیںاور یہ فضا کہانی کے نارمل کرداروں، خبر دینے والے مکالموں اور حرکت سے معمول عمل اور ماضی سے متعلق پُراسرار معاملات کے ساتھ مل کر کچھ طلسمی سی ہو جاتی ہے اور ان سب کو ایک تار میں پرونے والے واقعہ سے ان میں کہانی پن پیدا ہوتا ہے ان خیالا ت کا اظہار شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے اشتراک سے کمیٹی روم، شعبۂ سنسکرت میں منعقدہ فراق یادگاری خطبہ میں ممتاز فکشن نگار اور دانشور سید محمد اشرف نے کیا۔

صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے پروفیسر شمیم حنفی نے فرمایاکہ نیر مسعود ماضی کے بجائے مستقبل کا فکشن نگار ہے البتہ ماضی سے رنگ، روشنی اور خوشبو ضرور کشید کرتا ہے اور نیر مسعود کا ماضی دراصل ہندوستان کی وہ عجیب و غریب تہذیب ہے جس کو ہند اسلامی تمدن سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور اس تہذیب کا خوبصورت تحفہ اردو زبان ہے۔ ہمارے زمانے میں اس کا عرفان سب سے زیادہ نیر مسعود کو حاصل تھا۔

استقبالیہ خطبے میں صدر شعبہ پروفیسر شہپر رسول نے خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ فراق یادگاری خطبہ اس شعبہ کا معتبر اور باوقار سلسلہ ہے اور اس کے لیے ہمیشہ اردو دنیا کی ممتاز شخصیات کو دعوت دی جاتی ہے۔ اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے سید محمد اشرف کا انتخاب کیا گیا اور اس کی صدارت کے لیے پروفیسر شمیم حنفی سے گزارش کی گئی۔

ڈاکٹر خالد جاوید نے سید محمد اشرف کا تفصیلی تعارف پیش کیا اور ڈاکٹر سرورالہدیٰ نے فراق گورکھپوری کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالی۔ اس موقر خطبے کی نظامت کے فرائض ڈین فیکلٹی برائے علوم و السنہ پروفیسر وہاج الدین علوی نے انجام دیے۔ پروگرام کا آغاز ڈاکٹر شاہ نواز فیاض کی تلاوت اور اختتام پروفیسر شہزاد انجم کے اظہار تشکر پر ہوا۔

اس یادگاری خطبے میں پروفیسر ابن کنول، مشرف عالم ذوقی،پروفیسر شہناز انجم، ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی، پروفیسر عبدالحلیم اخگر، پروفیسر محمد اسحق، ڈاکٹر کلیم اصغر، ڈاکٹر رحمن مصور، ڈاکٹر نشاط زیدی،ڈاکٹر اظہار ندیم،پروفیسر احمد محفوظ، پروفیسر عبد الرشید،ڈاکٹر ندیم احمد، ڈاکٹر عمران احمد عندلیب، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر مشیر احمد،ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر سلطانہ واحدی، ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر عادل حیات، ڈاکٹر ابوالکلام،ڈاکٹر محمد آدم، ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر سمیع احمد، ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی، ڈاکٹر شاداب تبسم،ڈاکٹر فیضان شاہد، ڈاکٹر فخر عالم، ڈاکٹر نوشاد منظر، ڈاکٹر زاہدندیم ، ڈاکٹر محضر رضا، امتیاز احمد علیمی، محمد عرفان، ثاقب فریدی، سلمیٰ رفیق اور اقرا سبحان کے علاوہ بڑی تعداد میں ریسرچ اسکالر اور طلبہ و طالبات موجود تھے۔

(تصویر میں دائیں سے بائیں: پروفیسر وہاج الدین علوی، پروفیسر شہزاد انجم، پروفیسر شمیم حنفی، جناب سید محمد اشرف اور پروفیسر شہپر رسول)

تبصرے بند ہیں۔