جامعۃ الفلاح کی مرکزی لائبریری

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

 جامعۃ الفلاح، بلریا گنج، اعظم گڑھ کی مجلس منتظمہ کے اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے ایک مرتبہ پھر یہاں حاضری ہوئی۔ یہ اجلاس سال میں دو بار ہوتا ہے اور دو دن جاری رہتا ہے۔ سال رواں کا بجٹ اجلاس ہونے کی وجہ سے اس بار اسے 3 دن رکھا گیا، تاکہ تمام معاملات پر تفصیل سے بحث و مباحثہ اور غور و خوض ہوسکے۔ یہ اجلاس جامعہ کی مرکزی لائبریری میں 2 جولائی سے چل رہا ہے، کل دوپہر میں ختم ہوگا، ان شاء اللہ۔

لائبریری کی دو منزلہ کشادہ اور پُر شکوہ عمارت، جو المکتبۃ المرکزیۃ کے نام سے موسوم ہے، اسلامک ڈیولپمنٹ بینک جدّہ کے مالی تعاون سے تعمیر ہوئی تھی۔ اس کا افتتاح شیخ الجامعۃ مولانا سید جلال الدین عمری کے ہاتھوں 1999 ھ میں ہوا تھا۔ اس میں اس وقت تقریباً 67 ہزار کتابیں ہیں، جن میں 35 ہزار سے زائد عربی اور 27 ہزار کے قریب اردو کتابیں ہیں، بقیہ کتابیں انگریزی، ہندی، فارسی اور دیگر زبانوں میں ہیں۔ گزشتہ برس اس میں 7 ہزار سے زائد کتابوں کا اضافہ ہوا ہے۔

متعدّد شخصیات نے اپنی لائبریریاں جامعہ کو وقف کردی ہیں، مثلاً مولانا جلیل احسن ندوی، مولانا صدر الدین اصلاحی، مولانا ابو بکر اصلاحی، مولانا شبیر احمد اصلاحی، حکیم عبد العلیم، جناب سعید اختر، جناب قمر سنبھلی، جناب انجم عرفانی، جناب سلطان مبین وغیرہ۔ قطر اور کویت کی حکومتوں کی جانب سے بھی بڑی تعداد میں کتابیں تحفے میں ملی ہیں۔ انجمن طلبہ قدیم کی بیرونِ ملک شاخیں، خاص طور سے ریاض اور قطر کی شاخیں بھی سرگرم ہیں، جو بڑی تعداد میں کتابیں خرید کر جامعہ بھیجتی رہتی ہیں۔ جامعہ کو کئی بڑی لائبریریاں بھی تحفے میں ملی ہیں، مثلاً مکتبہ امین الھدی فلاحی، مکتبہ محسن بن صالح بن حمد المحسن، مکتبۃ عبد اللہ بن ظاھر القحطاني، مکتبۃ ابی حاتم علیان الصبحی وغیرہ۔

انجمن اور فارغینِ جامعہ کی کوششوں سے لائبریری میں کتابوں کا برابر اضافہ ہورہا ہے۔ یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ اسلامی علوم کے تمام شعبوں کے بنیادی مصادر و مراجع کے جدید ترین اڈیشن کے کئی کئی نسخے لائبریری میں موجود ہیں۔

لائبریرین عرفان احمد صاحب اور ان کے معاون عبد الرحمن خالد صاحب بہت دل چسپی اور محنت سے اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ لائبریری کی کتابوں کی ترتیب و تنظیم DDC کے عربی ورژن پر کی گئی ہے۔ اس کے لیے احمد بدوی ابو زید کی کتاب ‘فن تصنیف الکتاب’ سے استفادہ کیا گیا ہے۔

لائبریری روزانہ پندرہ گھنٹے (7:30 صبح تا 10:30 شب ) کھلتی ہے۔ طلبہ اوقاتِ تعلیم کے علاوہ دیگر اوقات میں اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ حاضری رجسٹر سے معلوم ہوا کہ گزشتہ برس تقریباً 12 ہزار طلبہ نے لائبریری سے استفادہ کیا۔ جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ کے لیے آن لائن لائبریریوں سے استفادہ کرنے کا بھی نظم ہے۔

اعلٰی درجات کے طلبہ لیے تمام نصابی کتابیں لائبریری سے فراہم کی جاتی ہیں۔ جو کتابیں ضخیم اور کئی جلدوں پر مشتمل ہیں اور ان کے منتخبات داخلِ نصاب ہیں ان کے متعلقہ حصے فوٹو اسٹیٹ کرکے طلبہ کو فراہم کردیے جاتے ہیں۔ مرکزی لائبریری کے علاوہ طلبہ اور طالبات کی الگ الگ لائبریریاں بھی ہیں، جن میں ان کے عام مطالعہ کے لئے بڑی مقدار میں کتابیں فراہم کی گئی ہیں۔

یہ بات باعثِ مسرّت ہے کہ جامعہ کی انجمن طلبہ قدیم بہت متحرک اور فعّال ہے۔ وہ جامعہ کی تعلیمی سرگرمیوں اور تعمیراتی کاموں کے لیے منصوبے بناتی ہے اور ان کے نفاذ میں جامعہ کے ذمے داروں اور مجلس منتظمہ کا تعاون کرتی ہے۔ آج کل وہ طلبہ کی رہائشی ضروریات کے لیے ایک 5 منزلہ ہاسٹل تعمیر کر رہی ہے، جس میں 124 کمرے ہوں گے۔ اس کا کل تخمینہ 11 کروڑ روپے کا ہے۔ اس کی تعمیر کا کام تین مرحلوں میں انجام دیا جائے گا۔ پہلے مرحلے کا کام جاری ہے، جس کا تخمینہ ساڑھے چار کروڑ روپے کا ہے۔

الحمد للہ فارغینِ جامعہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، جو برابر جامعہ سے ربط رکھتے ہیں اور اس کی تعلیمی ترقی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ جامعہ کے معاملات میں ان کی مزید دل چسپی جامعہ کی ترقّی کا باعث ہوگی۔ مولانا رحمت الأثری فلاحی مدنی آج کل ناظم جامعہ ہیں۔ سابق ناظمینِ جامعہ : ڈاکٹر خلیل احمد، مولانا ابو البقاء ندوی اور مولانا محمد طاہر مدنی کا انھیں سرگرم تعاون حاصل ہے۔ جامعہ کی مجلسِ منتظمہ میں تحریکِ اسلامی کے ذمے داران کے علاوہ دیگر علمی شخصیات بھی شامل ہیں۔ جامعہ کی پہچان ایک ایسے ادارہ کی ہے جہاں سے تحریک کو افراد حاصل ہوتے ہیں۔

جامعہ نے الحمد للہ نصف صدی سے زائد عرصہ کا سفر طے کر لیا ہے۔ اب یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ علمی دنیا میں یہاں کے فارغین کا کیا معیار اور کیا پہچان ہے؟ اور تحریک کو ان سے کیا فیض پہنچ رہا ہے؟

تبصرے بند ہیں۔