جانوروں کی سیاست اور سیاست کے جانور

ڈاکٹر سلیم خان

ایک زمانے تک سیاسی جماعتوں کی شناخت جانور ہوا کرتے تھے۔ پنڈت جواہرلال نہرو کا دعویٰ تھا کہ صنعتیں، تحقیقی تجربہ گاہیں اور پن بجلی گھر جدید دور کی عبادت گاہیں ہیں مگر ان کی پارٹی کا نشان کارخانے کی چمنی نہیں بلکہ بیلوں  کی جوڑی تھا اس لئے کہ ملک کی اکثریت کسانوں اور کھیت مزدوروں پر مشتمل تھی۔ پریم چند کے دوبیلوں کی طرح  کانگریس کے بھی دوبیل تھے ایک گورا  پنڈت اور دوسرا کالا سردار ۔ مہاتماپیچھے  سے انہیں ہانکتے تھے۔ ہندوتوا وادیوں نے کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کرنے کیلئےشریر(جسم) کے بجائے آتمایعنی بیلوں کے مالک    پر جان لیوہ حملہ کردیا ۔ اس کے جواب میں کالے بیل نے آرایس ایس پر پابندی لگا دی اور گوڈسے کو پھانسی کے پھندے پر لٹکادیا لیکنچین سے شکست کے بعد  گورے بیل  نےخاکی چڈی والوں  کو 26 جنوری1963 کے یوم جمہوریہ کی پریڈ میں شامل کرکےسنگھ پریوارکی پیشانی سے گاندھی جی کے قتل کا کلنک پونچھ دیا ۔اس کے باوجود یہ  ستم ظریفی ہے کہ نیکر والے کالے بیل کے احسانمند ہیں اور گورے بیل کو دن رات کوستے ہیں۔ فی الحال کانگریس پارٹی پر اگر  گاندھی پریوار کے بجائے سردارولبھ بھائی پٹیل کے خاندان کا قبضہ ہوتا تو بی جے پی والے پنڈت نہرو کی تعریف تو صیف بیان کرتے اور سردار پٹیل کو برا بھلا کہتے ۔ طوطا چشمی سیاست اسی کوکہتے ہیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کی ماں بھارتیہ جن سنگھ کا چراغ اکتوبر 1951 میں جلالیکن ہندو مہاسبھا 1915 میں قائم ہوچکی تھی اور اس نے انگریزی استعمار سے اپنی وفاداری کا اعلان بھی کردیا تھا ۔  سالوں تک ہندوستانی عوام کی ڈانٹ پھٹکار کے بعد اس کو عقل آئی اور اس نے اپنا نیا نام اکھل بھارتیہ ہندو سبھا رکھ کربادلِ ناخواستہ  انگریزوں کی اطاعت کا قلاوہ  نکال پھینکا مگر انڈمان سے رہائی  کے بعد مہاسبھا کے رہنما ساورکر نے پھرسےیونین جیک اپنے گلے میں لٹکا لیا۔ آزادی کے بعد ہندو مہاسبھا نےبھارت وجئے کیلئےرام چندرجی  کےگھوڑےاشومیگھ کو اپنی پارٹی کا نشان بنایا۔  ان احمقوں کو امید تھی کہ یہ گھوڑا جہاں سے بھی گذرے گا وہ ملک فتح ہوجائیگا لیکن نہیں جانتے تھے خود رام چندرجی کے بیٹے  لو اور کش اس کا راستہ روک لیں گے ۔

 ہندومہاسبھا کے ساتھ رامائن کی کہانی دوہرائی گئی ۔ اس کے بطن سے پیدا ہونے والی ہندوتوا نواز بی جے پی اور شیوسینا نے نہ صرف  مہا سبھاکا راستہ روک دیا بلکہ اس کا ودھ(ذبح) کردیا۔ اب جونیر  ہندو ہردیہ سمراٹ ( سینیر تو بال ٹھاکرے تھے) نریندر مودی اس مرے ہوئے گھوڑے کا انتم سنسکار کرنےکیلئے کسی قبرستان کے برابر میں شمشان تلاش کررہے ہیں۔ ان کے جونیر چیلے (سینیر تو امیت شاہ ہیں) ساکشی مہاراج سارے مسلمانوں کو دفنانے کے بجائے جلانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ساکشی مہاراج کو نہیں معلوم کہ  مسلمان تو دور تمل ناڈو کی براہمن وزیراعلیٰ جئے للیتا تک کو جلایا نہیں جاسکا۔ مہاراج کوتدفین میں زمین کے ضائع ہونے کا افسوس ہے۔ اگر یہی دلیل ہے تو جلانے سے نہ صرف لکڑی اور ایندھن ضائع ہوتا ہے بلکہ فضا بھی آلودہ ہوتی ہے۔ بہتر ہے ساکشی مہاراج اپنی لاش کو گنگا میں بہا دینے کی وصیت فرمادیں بقول غالب ؎

ہوئے ہم جو مر کے رسوا ، ہوئے کیوں نہ غرق دریا

نہ کبھی جنازہ اٹھتا ، نہ کوئی مزار ہوتا

وصال یار( یعنی وزارت کی کرسی)کے انتظار میں ساکشی مہاراج جیسے پھوٹی قسمت والے لوگ پاوں رگڑتے مرجاتے ہیں ۔  فراق یار میں وہ زندگی بھر زہر اگلتے ہیں اس لئے بعید نہیں کہ  دریا کا پانی زہر آلود نہ ہوجائےاورمچھلیاں تک نہ منہ  لگائیں ۔ ویسے اگر ساکشی مہاراج کو  بدزبانی کے سبب بی جے پی  نکال باہر کرے تو انہیں اپنی شمشان پارٹی کا نشان بندر رکھ لینا چاہئے۔ رائے دہندگان نشان  دیکھ کر سمجھ جائیں گے کہ اس پارٹی کا رہنما کون ہے؟شیوسیناکے رہنما بالا صاحب ٹھاکرے شیر کی مانند دہاڑتے تھے اس لئے سیناکی پہچان شیر بن گیا۔ شیوسینا کے ہر پوسٹریا  بینرپر کچھ اور ہو نہ ہو شیر ضرور ہوتا ہے لیکن اس  کو شیر کا انتخابی نشان نہیں ملا اس لئے کہ وہ فارورڈ بلاک کیلئے محفوظ تھا ۔مجبوراً اس  کاغذ ی شیر نے اپنےشکاری سے ہاتھ ملا کر تیر کمان پر اکتفاء کرلیا ۔ ابتداء میں اس   نام نہاد فوج کی گردن  کمیونسٹ پارٹی  کی درانتی کاٹتی تھی  پھر کانگریس کا ہاتھ اس کا گلا گھونٹنے لگا اور اب بی جے پی اس پر زہرسے بجھے تیر برسا رہی ہے۔

شرد پوار کی مہربانی سے رہائی ہونے والے  انڈر ورلڈ ڈان ارون گوولی نے اپنی پارٹی  اکھل بھارتیہ سینا کا اعلان دگڑی چال میں  کیا ۔ ارون گوولی کے اوصاف تو بالکل شیوسینا والے تھے لیکن اس کو شیوسینا کا صفایہ کرنے کیلئے بنایا گیا تھا اس لئے پارٹی کا نام شیوسینا کے طرز پر رکھا گیا لیکن وہ  تیر کمان کے مقابلے تلوار لے کر میدان میں نہیں اتری۔ اس زمانے میں مسلمانوں کی پارٹی اللہ اکبر ہوا میں تلوار چلایا کرتی تھی جیسے کہ آج کل ایم آئی ایم پتنگ اڑاتی ہےاور سماجوادی پارٹی کے سائیکل کی ہوا اکھاڑ تی ہے۔ مراٹھی میں دودھ والے کوگوولی کہتے ہیں اس لئے ارون گوولی نے اپنی پارٹی کا نشان  شیرکے بجائے   گائے کا سر  رکھ لیا ۔   سیاست کی ملائی ہر کوئی کھانا چاہتا ہے اس لئے گائے سے ارون گوولی یا سنگھ پریوار کو ہی نہیں کانگریس کو بھی بہت محبت ہے۔ اندرا گاندھی کے زمانے میں جب کانگریس پارٹی منقسم ہوئی تو انہوں نے  گائے اور بچھڑا کا نشان چنا ۔آگے چل کر جب   سنجے گاندھی نے سیاست میں قدم رکھا تو یہ نشان ذومعنیٰ ہوگیا  ۔ نرسمہاراو نے گاندھی پریوار کے چنگل سے پارٹی کو آزاد کرانے کیلئے پنجہ کا نشان لیا لیکن سونیا گاندھی سے پنجہ آزمائی میں ناکام رہے اور بابری مسجد کے ملبے تلے دب کر سیاسی خودکشی کرلی۔

جس زمانے میں قومی اور صوبائی جماعتیں جانوروں کے بل بوتے پر چلتی تھیں آزاد امیدوار  بھی جانوروں کا نشان لیا کرتے تھے ۔ کسی کوسفید پوش نرم و نازک خوبروخرگوش   پسند آتا تھا تو کوئی اپنی موٹی کھال کی مناسبت سے گینڈے کو نشان بنا تا تھا ۔ایک آزاد امیدوار نے تو نہ جانے کیا سوچ کر پنجرے میں بند طوطے کو  اپنا  نشان  چنا۔ شاید اسے اپنے مٹھو میاں سے بہت محبت تھی ۔ممکن ہےمشہورمحاورہ ’’اپنے منہ میاں مٹھو‘‘ کیایجادکسی  ماہر لسانیات نے نہیں بلکہ  سیاسی رہنما  نے کی ہو؟یہضرب المثل فتح و شکست سے بے نیاز  ہوکراستعمال کی جاتی ہے ۔ اگر یقین نہ آتا ہو  بعد ازممبئی کے بلدیاتی انتخاب شہر بھر میں لگے شکریہ کے بینرس  دیکھ لیں ۔ ان پر ہنستے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ آیا یہ امیدوار کامیاب ہوا ہے یا ناکام ؟فی زمانہ  جانوروں کے حقوق کی خاطر لڑنے والے انسانوں کے توسط سے درند و پرند نےسیاسی پارٹیوں کی  توہین آمیز نمائندگی سےمعذرت چاہ لی  ہےمگر استثنائی طور پر بہن جی کی بہوجن سماج پارٹی کوہاتھی نےاپنی پیٹھ پر  سوار کررکھا ہے۔ یہ چمتکار کیسے  ہوا ؟ اس پیچیدہ  سوال کا جواب کوئی ہاتھی یا مایا وتی ہی  دے سکتےہیں۔

سیاست میں  نشان کے طور پر تو جانور کا استعمال ممنوع ہوگیا مگر تقاریر میں وہ سلسلہ نہیں رکا ۔  پچھلے دنوں شرد پوار کی بیٹی سپریہ سولے نے کہا کہ بالاصاحب ٹھاکرے کے بعد   شیوسینا میں پہلے جیسا دم خم باقی نہیں ہے۔ اس لئے اسے اپنے جھنڈےپر موجود شیر کوکالی  بلی سے بدل دینا چاہئے۔ سپریہ کے خیال میں سینامنحوس بلی کی طرح سارا   کام بگاڑدیتی ہے۔  اس کے جواب میں ادھو  ٹھاکرےکو چاہئے تھا کہ کہتے اس گئی گذری حالت میں سینا کی حالت راشٹروادی سے بہتر ہے اس لئے راشٹروادی  کانگریس  پارٹی کو چاہئے کہ اپنا نشان گھڑی کے بجائے گھڑا رکھ لے۔  اس لئے کہ اس کی گھڑی  کے کانٹے برسوں سے دس بجکر دس منٹ پر اٹکے ہوئے ہیں۔ جس گھڑی کے کانٹے گھومنا بند کردیں اس کے ستارے گردش میں آجاتے ہیں اور اسے کوڑے دان کی نذر کردیا جاتا ہے۔راج ٹھاکرے کے  ریلوے انجن کا بھی یہی حال ہے کہ اس کے پیچھے سے ڈبے غائب ہوگئے ہیں۔ ایسے میں نونرمان سینا کے بھنگارانجن  کوکوئی گاہک بھی نہیں مل رہا ہے۔

 ادھو ٹھاکرے نے سپریہ سولے کا جواب نہیں دیا اس لئے کہ ان کی ساری توجہ بی جے پی کی جانب مرکوز تھی ۔  بلدیاتی انتخاب کی مہم میں ٹھاکرے نےوزیراعلیٰ فردنویس پر طنز کرتےہوئے کہا  تھامہاراشٹر کے لوگ کتے کی چھتری اور سینا کی چھتر چھایا کا فرق خوب جانتےہیں  اس لئے اگر کوئی کتاکہے کہ بارش ہورہی ہے اس لئے  میری چھتری میں آجاو تو کوئی   نہیں جائیگا۔ تھانے میں تو یہ ہوا لیکن ممبئی میں جتنے لوگ سینا کی چھتر چھایا میں آئے کم و بیش اتنے ہی بی جے پی کی چھتری میں چلے گئے اور مہاراشٹر بھر میں فردنویس نےادھو ٹھاکرے کو دھوبی پچھاڑ دیا  ۔ ویسےجنہیں ادھو کتا کہہ کر عوام کو قن کے قریب جانے سے منع کرتے ہیں ۔ انہیں لوگوں کی چھتری میں اسمبلی کے اندرشیوسینا سرچھپائے ہوئے ہے۔ مرکز میں توسینا بی جے پی کے چھاتے کے میں سرجھکائے ہوئے ہے۔ عوام اندھی نہیں ہے؟ وہ پوچھتی ہے  کہ اگر بی جے پی شجر ممنوعہ سینا کے رہنماقطع تعلق کیوں نہیں کرتے؟ یہ کیا بات ہے کہ جنتا تو بارش میں بھیگے اور نیتا رین کوٹ پہن کر عیش فرمائیں؟ادھو ٹھاکرے نے انتخاب سے قبل کہا تھا شیر کو سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ نتائج کے بعد بی جے پی کو اس کی اوقات بتادیں گے لیکن سچ تو یہ ہے کہ عوام نے سینا کو اس کی جگہ بتادی۔

مجلس اتحادالمسلمین کے بانی کا نام ہی سلطان صلاح الدین اویسی تھا اس لئے وہ  حیدرآباد فتح کر کے اس کے سلطان بن گئے۔ان کے فرزند ارجمند کا نام اسدالدین یعنی دین کا شیرہے ۔ بیرسٹراسدالدین کے چھوٹے بھائی کانام تو اکبرالدین ہے لیکن انہیں شیرِ ملت بلکہ شیرِ ہند کے لقب سے نواز دیا گیا  ہےاس طرح مسلم سیاست میں بھی  خوب جنگل راج ہے ۔بہار کے وزیر اعلیٰ جتن رام مانجھی کو جب بی جے پی کے ساتھ پینگیں بڑھانے کی پاداش میں زبردستی  سبکدوش ہونے پر مجبور کیا گیا  تو لندن کے مشہور اخبارگارجیننے لکھا   چوہے کھانے والے وزیر اعلیٰ نے استعفیٰ دے دیا ۔ مشہور یہی ہے بہار کے بے حد پسماندہ ذات کے لوگ چوہے کھاتے ہیں ۔ اڑیسہ کے کانگریسی رہنما  نرنجن پٹنائک نے ایک بیان میں کہا کہ  کانگریس کو اندرسے چوہے کھوکھلا کررہے ہیں ۔وہ ایسے لوگ ہیں جن کا  نہ پارٹی سے نظریاتی تعلق ہے اور نہ ہی ان کی  آمدنی کا کوئی  جائز ذریعہ ہے۔ پٹنائک کی یہ بات کانگریس ہی نہیں بلکہ  ہر سیاسی پارٹی اور رہنما پر صادق آتی ہے(الا ماشاءاللہ)۔ ہندوستانی سیاست میں جانوروں کا یہ غلغلہ دیکھ کر  اناّ پورنہ کرشجیو کو  Rats and cats of Indian politicsنامی کتاب لکھنے پر مجبور ہونا پڑا۔ انہوں نے یقیناً ہندوستانی سیاست کے بلیوں اور چوہوں کے ساتھ گدھوں کا بھی ذکر کیا ہوگا اس لئے کہ فی الحال ترشول دھاری  گدھے  سیاسی جنگل کے مسند اقتدار پر رونق افروز ہیں بقول ساغر خیامی  ؎

ترشول ذہن و دل پہ چلاتے ہوئے گدھے

دیوار نفرتوں کی اٹھاتے ہوئے گدھے

ترشول دھاری پردھان سیوک نے گدھوں کو سیاست کی دنیا مقام ِ بلندپر فائز کردیاہے ۔نوٹ بندی کی مار کے جواب میں جب  انہوں  نے گوا میں رو رو کر کہا کہ میں نے ملک کیلئے اپنا سب کچھ قربان کردیا تو ایوان پارلیمان میں کانگریس کے رہنما  ملک ارجن کھرگے نے  جواب دیا جس قدر قربانی اندراگاندھی کے کتے نے دی ہے اتنا تیاگ بھی مودی نے نہیں کیا۔ وزیراعظم نے  نوٹ بندی کی بحث کا جواب دیتے ہوئے ایوان میں کہا کہ ہم کتوں کے درمیان پلے بڑھے نہیں ہیں اورنہ ہماری پرورش کتوں کےساتھ ہوئی ہے ۔  عوام نے سوچا جی ہاں مودی جیسے گئو بھکت کا بچپن گا ئےبیل کے درمیان گذرا ہوگا   لیکن اترپردیش کی انتخابی مہم میں اکھلیش کے طنز پر کہ گجرات کے گدھے مشہور ہیں اورعظیم فنکار  امیتابھ بچن  کو گجرات کے گدھوں کی تشہیر چھوڑ دینی چاہئے  وزیراعظم نے اپنی ذات و صفات کے متعلقنت نئے انکشافات کرکے  اعتبار ساجد کی نظم ’’ایک گدھا مشاعرےمیں‘‘ کی یاد تازہ کردی جس کا ایک  شعر ہے؎

کھینچ کر اک آہِ سرد و گرم یوں بولا گدھا                               آ گیا ہے آپ کی محفل میں اِک بھولا گدھا

  مودی جی نے  اتر پردیش کی مہم میں بڑے فخر سے کہا  کہ گجرات کے گدھے بھی قابلِ تعریف اور مشہور و معروف  ہوتے ہیں ۔ اس دعویٰ کی سب سے بڑی دلیل تو وہ خود اور ان کے دستِ راست امیت شاہ جی ہیں جو گدھے  کی محنت اور جفاکشی سے ترغیب لیتے ہیں۔ بزعم ِ خود وہ ملک کے ۱۲۵ کروڈ لوگوں کیلئے گدھے کی طرح کام کرتے ہیں   ۔ وزیراعظم نےاپنے اورگدھے کےمحنتی ہونے کا ذکر توکیا کی مگر بھول گئے کہ گدھانہایت احمق جانور بھی ہے ۔وہدھوبی کی طرح کپڑے دھوتانہیں بلکہ ڈھوتاہے اور موقع بے موقع دولتیّ جھاڑ دیتا ہے۔ مودی جی نے کہا یہ لوگ گجرات کے گدھوں سے بھی ڈرتے ہیں ۔ گدھے کی دولتیّ  کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا اس لئےاس کے پیچھے چلنے سے  ہرکوئی  ڈرتا ہے۔ وہ اچانک نوٹ بندی کا فیصلہ کرکے ساری قوم گدھوں کی مانند بنک کی لائن میں لگا سکتا ہے۔ بے حسی کے سبب اس کو اپنی وجہ سے دوسروں کو ہونے والی زحمت کا احساس نہیں ہوتا۔ وہ حماقت پر نادم ہونے کے بجائے فخر جتاتا ہے ۔ ویسےاس ملک کی عوام بھی کچھ کم نہیں ہے جیسا مالک ویسا گھوڑا کچھ نہیں تو تھوڑا تھوڑا ۔

اتر پردیش کے انتخابی مہم میں  فی الحال وزیراعظم کی  ڈھینچو ڈھینچو بامِ عروج پر ہے۔ اسکے سبب وہ انچا سننے لگے ہیں۔  راہل گاندھی جب پائن ایپل  کہتے ہیں تو وہ ناریل سنتے ہیں اور فرماتے ہیں ناریل میں رس نہیں پانی ہوتا ہے۔ یہ تو ایسا ہی جیسےاگرمودی  کہیں میں چائے بیچتا تھا تو توگڑیا سنے میں گائے بیچتا تھا اور انہیں   گائے کی اسمگلنگ کے الزام میں گئو رکشا سمیتی کے حوالے کردے۔ ویسےجب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے  نارنجی سے  جوس  نکلنااور گائے  نےدودھ دینا بند کردیا ہے ۔ اندیشہ ہے کہ  اترپردیش انتخابی نتائج بعدشمشان اور قبرستان  کے درمیان بھٹکنے والوں  کی حالت دھوبی کے کتے کی سی نہ ہوجائے جو نہ گھر کا ہوتا ہے اور نہ گھاٹ کا ۔ کسان کے گھر کا اور کھیت کا کتا مختلف ہوتا ہے اس لئے ایک ہمیشہ  گھر کی رکھوالی کرتا ہے اور دوسرا مستقل کھیت کی حفاظت پر مامورر ہتا ہے ۔ دھوبی کے کتے کو دن میں  گھاٹ پر ڈیوٹی  کرنےکے بعد رات میں گھر کا پہرہ دینا پڑتا ہے ۔ اس لئے وہ گھاٹ اور گھر کے درمیان محوِ گردش رہتا ہے۔ مودی جی کے بھی دو حلقہائے انتخاب ہیں۔ ان میں سے ایک ان جنم بھومی اور دوسری کرم بھومی ہے۔  اتفاق سے بنارس اپنے گھاٹ کیلئے مشہور ہے اور گجرات میں تو ان کا گھر ہی ہے اس لئے ان  دونوں کے درمیان معلق وزیراعظم پر یہ محاورہ پوری طرح صادق آتا ہے۔

ویسے  اگر کسی نے وزیراعظم  کواس مثال سے آگاہ کردیا  تو وہ اپنا 56 انچ کا سینہ پھلا کر کہیں  گے ملک کے 125 کروڈ عوام  کا میں اسی طرح  وفادارہوں جیسا کہ کتا ہوسکتا ہے اور میں اس سے بھی ترغیب  لیتا ہوں لیکن افسوس کہ وزیراعظم  سے کوئی پریرنا  نہیں لیتا۔   ہندوستان کے لوگ نہ جانے کیوں کتے اور گدھے کی قدر دانی نہیں کرتے اس کے برعکس امریکہ میں ان دونوں کی بڑی قدرو منزلت ہے ۔ ڈیموکریٹک پارٹی  نےہاتھی والی ریپبلکن پارٹی کے مقابلے گدھوں کےمحنت و مشقت کے اعتراف کرتے ہوئے اس کو  اپنا  نشان بنالیا  ۔ اس بار امریکی عوام نے ڈیموکریٹک گدھے کو مسترد کرکے ریپلکن پارٹی کے گدھے امیدوار کو صدر منتخب کرلیا ہے ۔ ٹرمپ نامی  یہ گدھا  چونکہ ہاتھی پر سوار ہوکر تخت نشین ہوا  ہے اس لئے امریکہ کا نام ساری دنیا میں روشن کررہا ہے۔ اس کی احمقانہ حرکتوں سے ڈیموکریٹک پارٹی کے لوگ اندر ہی اندر خوش ہیں کہ وہ ان کی حریف جماعت کی لٹیا ڈبو رہا ہے  لیکن اوپر اوپر سے مخالفت کرکے اپنا رسوخ بڑھا رہے ہیں اور عوام کو ان کی غلطی کا احساس دلا رہے ہیں ۔  جمہوریت کی میزان پر ان دونوں بدمعاش جماعتوں کے درمیان لٹکی عوام پر میر تقی میر کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎

کتوں کی جستجو میں ہوا روڑا باٹ کا

دھوبی کا کتا ہے کہ نہ گھر کا نہ گھاٹ کا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔