ایک دانش ور کی رحلت!

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی 

آج علی الصباح جناب سید شہاب الدین کی رحلت کی خبر ملی تو دل رنج و غم سے بھر گیا _ افسوس ہم ملت اسلامیہ کے ایک سچے ہمدرد اور بہی خواہ سے محروم ہوگئے _

سید شہاب الدین صاحب پر خوب لکھا جا رہا ہے اور لکھا جائے گا اور حق یہ ہے کہ ان پر لکھا جائے _ وہ مختلف سرکاری عہدوں پر فائز رہے ، مختلف ممالک میں حکومت ہند کی سفارت کاری کی ، ممبر پارلیمنٹ بھی رہے ، کافی عرصہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر رہے _ وہ آخرِ عمر تک سرگرم رہے اور انھوں نے مختلف اعتبارات سے ملت اسلامیہ کی خدمت انجام دی _

سید شہاب الدین کی خدمات کا ایک اہم گوشہ انگریزی جریدہ ‘مسلم انڈیا’ ہے _ اس کا ہر شمارہ انتہائی اہم اور دستاویزی حیثیت کا حامل ہوتا تھا ، اس لیے کہ اس میں ہندوستانی مسلمانوں کے بارے میں اہم خبریں ، سرکاری بیانات ، قوانین ، سرکلرس ، اعداد و شمار اور دیگر چیزیں ہوتی تھیں _ سید صاحب پورا شمارہ خود تیار کرتے تھے _ صحت اور دیگر اعذار کی بنا پر جب انھیں اسے نکالنے میں دشواری ہونے لگی تو انھوں نے اسے مشہور دانش ور اور صحافی ڈاکٹر ظفر الاسلام صاحب کے حوالے کردیا ، جو اسے کیی سال تک کام یابی کے ساتھ نکالتے رہے، لیکن افسوس کہ پھر وہ موقوف ہوگیا _

سید شہاب الدین صاحب Muslim Empowerment کے زبردست حامی اور منصوبہ ساز تھے _ ہر الیکشن کے موقع پر ، خواہ وہ پارلیمنٹ کا ہو یا ریاستی اسمبلیوں کا، وہ ہر انتخابی حلقے کا جائزہ لے کر اور اس کے اعدادوشمار جمع کرکے رہ نمائی کرتے تھے کہ کس کس حلقے میں مسلمان جیت سکتے ہیں اور کس کس حلقے میں اثر انداز ہو نے کی پوزیشن میں ہیں _ افسوس کہ مسلم امت ان کی اعلی قابلیتوں سے خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھا سکی _

میں نے اپنی عزلت پسندی کی وجہ سے کبھی سید شہاب الدین صاحب سے ملاقات کی کوشش نہیں کی ، لیکن ایک مرتبہ انھوں نے خود مجھے یاد کیا _ ہوا یوں کہ ماہ نامہ زندگی نو نئی دہلی میں علامہ یوسف القرضاوي کے ایک عربی مضمون کا ترجمہ ‘اسلامی ثقافت میں اعتدال اور میانہ روی’ کے عنوان سے ، میرے قلم سے شائع ہوا _ اس پر انھوں نے مجھے خط لکھا، جس میں مضمون کی پسندیدگی کے ساتھ خواہش کی کہ کاش اس کا انگریزی ترجمہ شائع ہو ، ساتھ ہی علامہ یوسف القرضاوي کا پتہ مانگا _ اس مختصر خط سے کیی باتوں کا پتا چلتا ہے :

اول یہ کہ وہ دینی رسائل کا مطالعہ کرتے رہتے تھے _

دوم یہ کہ اچھے مضامین پر پسندیدگی کا برملا اظہار کرتے تھے، خواہ لکھنے والے خردوں میں سے ہوں _

سوم یہ کہ دانش وروں اور علما سے رابطہ کے خواہاں رہتے تھے _

چہارم یہ کہ اسلام کی درست ترجمانی کے حریص تھے اور تجدد پسند اس پر جو اعتراضات کرتے رہتے تھے ان کا ازالہ چاہتے تھے ، چنانچہ کوئی ایسی تحریر ان کے مطالعے میں آتی تو اسے ان تک پہنچانے کی منصوبہ بندی کرتے تھے _

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے، انھیں جنۃ الفردوس میں جگہ دے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے _آمین یا رب العالمین!

تبصرے بند ہیں۔