جان دینے والے اور ووٹ لینے والے

ڈاکٹر سلیم خان

سرجیکل اسٹرائیک فی الحال سب سے بڑے قومی مباحثہ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ قوم اپنے سارے بنیادی  مسائل بھول چکی  ہے۔ بی جے پی اس کا بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے اور جب حزب اختلاف اس پر سوال اٹھاتا ہے تو اسے فوج کی توہین اور قوم کی دشمنی قرار دے دیا جاتا ہے۔ سیاستداں چاہے کسی جماعت کا ہو  لوگ  ان پر اعتماد نہیں کرتے لیکن اگر پلوامہ میں ہلاک ہونے والوں کے پسماندگان کی جانب سے  سوال کیا جائے گا  تو کیا  بی جے پی والے ان کو بھی پاکستان کا ایجنٹ قرار دے دیں گے؟ کیا یہ نقلی  دیش بھکت   ان لوگوں کو بھی دیش دروہی ٹھہرا دیں گے   کہ جن کے گھر والوں  نے ملک کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے ؟ مین پوری ایٹاوہ  کی رہنے والی  گیتا دیوی کے شوہر رام وکیل پلوامہ میں ہلاک ہوگئے۔ گیتا دیوی نے بھی سرجیکل اسٹرائیک کا ثبوت مانگتے ہوئے پوچھ لیا ’’پلوامہ حملے کے بعد ہمارے پاس ثبوت کے طور پر جوانوں کی نعشیں آئیں لیکن ہوائی حملے کا ایسا کوئی ثبوت ہمارے سامنے نہیں آیا‘۔ رام وکیل کی بہن رام رکشا نے کہا کہ اگر ان کا دعویٰ ہے ۳۰۰ لوگ مارے گئے تو وہ شواہد پیش کریں۔ ہم کیسے مان لیں کہ   حملہ ہوا اور دہشت گرد مارے گئے؟  رام رکشا تو یہ کہنے سے بھی نہیں چوکیں کہ ’ یہ دعویٰ  توجھوٹا بھی ہوسکتا ہے؟‘

اس سے قبل شاملی کے رہنے والے پردیپ کمار کی بیوہ سرمشتا دیوی نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم حکومت کے دعویٰ سے مطمئن نہیں ہیں۔ جب پلوامہ کا حملہ ہوا تو سب نے ہمارے جوانوں کی نعشوں کو دیکھا لیکن یہاں تو صرف دعویٰ ہی دعویٰ ہے‘‘۔ پردیپ کمار کے ۱۷ سالہ بیٹے سدھارتھ نے تو ایسے سوال کردیئے کہ جس کی جرأت  حزب اختلاف  بھی نہیں کرسکا۔ اس نے پوچھا’’کیا یہ کوئی لطیفہ ہے؟ کیا دہشت گرد بیوقوف ہیں ؟ کیا وہ اپنے کیمپ میں ہوائی حملے کا انتظار کرتے بیٹھے رہیں گے؟ ‘‘   بی جے پی والے فی الحال ان سوگواروں کو بھی نظر انداز کررہے  ہیں لیکن ملک کی عوام کو ان کے جذبات  کا احساس ہے۔وہ  سیاستدانوں کے ساتھ نہیں بلکہ فوجیوں کے پسماندگان کے ساتھ ہیں۔  ووٹنگ کے دوران و فوجیوں کی قربانیوں کا  سیاسی فائدہ اٹھانے والے سیاستدانوں کو ضرور سبق سکھایا جائے گا۔ ملک بھر میں سرجیکل اسٹرائیک اور پلوامہ کے پوسٹ اور ر بینر لگے ہوئے ہیں لیکن ان پر سیاستدانوں کی تصاویر ایسے لگی ہوئی  ہیں جیسے  کہ انہیں لوگوں نے قربانی دی ہے اور حملہ کیا ہے۔

سیاست میں جب سارے حربے ناکام ہوجائیں تو فساد یا جنگ کے علاوہ کوئی اور چارۂ کار نہیں ہوتا۔ بی جے پی نے پہلے رام مندر کا پتاّ پھینکا تاکہ اس کی بنیاد پر دنگا فساد بھڑکایا جائے لیکن وہ ناکام رہا ہے تو تنگ آمد بجنگ آمد کے لیے مجبور ہوگئی۔ یہ کھیل کس طرح کھیلا جارہا ہے اس کا اندازہ جموں میں ہلاک ہونے والے سکوارڈن لیڈر نناد منڈو گنے کی آخری رسومات کے موقع سے ہونے والی سرگرمیوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ ۲۶ فروری ۲۰۱۹؁ کو جموں کے وڈگام علاقہ میں ہندوستانی فضائیہ کا ہیلی کاپٹر ایم آئی ۱۷ حادثے کا شکار ہوگیا اور اس میں دوپائلٹ ہلاک ہوگئے۔ ان میں سے ایک ناسک کے رہنے والے  نناد انل مانڈو گنے بھی تھے۔   یکم مارچ  کو ایک خصوصی جہاز نناد کی لاش  ناسک ہوائی اڈے پر لائی گئی۔ مانڈوگنے کے آخری دیدار کے لیے کے کے واگھ میدان میں ہزاروں لوگوں نم دیدہ آنکھوں سے  ان کے اہل خانہ کی تعزیت کی اور اپنا خراج عقیدت پیش کیا۔اس موقع پر نناد کی اہلیہ وجیتا   نے کہا کہ  گھر  میں بیٹھ کر سوشیل میڈیا پر راجنیتی کرتے ہوئے جنگ کرنا بہت آسان ہے لیکن جنگ کسی کے لیے اچھی نہیں ہوتی  کیونکہ جنگ سے ہونے والے نقصان کے بارے میں شہید کا خاندان ہی جان سکتا ہے۔ اس طرح کی صورتحال دونوں جانب ہوتی ہے۔

ہندو پاک دونوں حکومتوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اس حادثے کا سرجیکل اسٹرائیک یا اس کے بعد پاکستان کی جوابی کارروائی جس میں ابھینندن گرفتار ہوکر رہا ہوئے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے باوجود  جب انتم سنسکار کے لیے لوگ امردھام شمسان بھومی میں جمع ہوئے تو وہاں جعلی دیش بھکتوں نے نعرے بازی شروع کردی۔  اس کی ابتداء تو ’امر رہے، امررہے، ویر جوان امررہے‘ سے ہوئی۔ اس کے بھارت ماتا کی جئے آگیا اور وندے ماترم کے نعرے لگنے لگے لیکن اس پر بھی اکتفاء نہیں کیا گیا بلکہ نوبت ’مردہ باد، مردہ باد، پاکستان مردہ باد‘      تک پہنچ گئی۔ جس وقت یہ نعرے لگائے جارہے تھے وجیتا منڈگاونے نے کہا کہ ’’ نعرے لگانے اور زندہ باد، مردہ باد چلاّنے  سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر آپ لوگ واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو  دفاعی خدمات (فوج ) میں شامل ہوجائیے۔ یا اپنے خاندان میں سے کسی اس کی ترغیب دیجیے۔

حیرت کی بات ہے کہ غم کی اس نازک گھڑی میں وجیتا نے سنگھ بھکتوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دی۔ یہ بیچارے نعرے لگانے اور سیاست کرنے کے علاوہ کچھ نہیں جانتے۔ فوج میں شامل ہوکر کسی دلیری کا مظاہرہ کرنا ان کے بس کا روگ نہیں ہے۔ یہ لوگ تو اپنے برابر کی طاقت والے سے نہیں لڑتے بلکہ اپنے سے کمزور کو گھیر اس پر پل پڑتے ہیں اور اس کی ویڈیو بناکر پھیلاتے ہیں تاکہ دنیا جان سکے  کہ یہ  کس قدر بزدل لوگ ہیں۔  ان کی زندگی کا مقصد اقتدار پر قابض ہوکر عیش کرنا ہے اس لیے یہ توقع کرنا محال ہے کہ فوج میں بھرتی ہوں گے یا اپنے خاندان میں سے کسی فوج میں جانے کی ترغیب دیں گے۔ ایسے لوگ جو خود بزدل ہوں وہ کسی اور فوجی دستوں میں جانے کے لیے کیسے تیار کرسکتے ہیں اس لیے اگر کوئی انسان خود کسی نصیحت پر عمل پیرا نہ ہو تو اس  کا کسی اور پر چنداں  اثر نہیں ہوتا۔  یہ تو دوسروں کو بھی اپنی طرح بزدل فرقہ پرست بنا سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے۔ اپنی شاکھاوں کے اندر ہوا میں لاٹھی بھانجنا اور اپنے ٹریننگ کیمپ میں چڑیا مارنے والی بندوق چلانا اور بات ہے اور سرحد پر جاکر ملک حفاظت کرنا دوسرا معاملہ ہے۔

وجیتا کو اس بات کا احساس تھا کہ جو مشورہ  وہ دے رہی ہیں اس پر عمل کرنا ان کے بس کی بات نہیں اس لیے وہ بولیں۔ اگر یہ آپ کے لیے ممکن نہیں ہے توکچھ ہلکے پھلکے کام کریں  اس سے بھی فائدہ ہوگا مثلاً اپنے قرب و جوار کو صاف ستھرا رکھیں۔ کچرا اِ دھر اُدھر نہ پھینکیں، کھلے میں پیشاب نہ کریں اور خواتین کو ہراساں نہ کریں۔ دراصل یہ سنگھی یہی سب کرتے ہیں اسی لیے وجیتا نے انہیں ان حرکتوں سے باز رہنے کی تلقین کی اور یہ بھی کہا کہ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانا بند کریں۔ چھوٹے چھوٹے کام دیرپا اثرات مرتب کرتے ہیں۔  میرے شوہر کی روح یہ جان کر سکون حاصل کرے گی  کہ  اس کا خاندان محفوظ ہے۔ ان جملوں کے اندر ملک کے اندر خواتین کے عدم تحفظ کا در د پوشیدہ ہے اور یہ حقیقت بھی بیان کی گئی ہے کہ فرقہ وارانہ منافرت نہ صرف معاشرے کا ناسور ہے بلکہ خواتین کے تحفظ کی خاطر بھی سب سے بڑا خطرہ ہے۔   ایک فوجی کی بیوہ نے اپنے شوہر کی ارتھی کے سامنے جو بصیرت افروز باتیں کہہ دیں اس کا مظاہرہ کرنے سے نہ صرف ہمارے  دانشور اور صحافی حضرات  بھی قاصر ہیں۔ جہاں تک سیاستدا نوں  کا تعلق ہے انہوں نے ناٹک کی دوکانوں سے فوجی لباس خرید کر تقریر کرنا شروع کردی ہے۔ یقین نہ آتا ہو گوگل میں منیش تیواری  ٹائپ کریں وہ آپ کو اس جعلی دیش بھکت کی فوجی لباس  میں تصویر ڈھونڈ کر پیش کردے گا۔ اسے کہتے ہیں جنگ کی سیاست اور سیاست کی جنگ۔   یہی ہے فرق جان دینے والوں اور ووٹ لینے والوں کا !

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔