جبر کا مقابلہ اور دعوتِ اسلامی

ڈاکٹر محمد رفعت

اللہ کی عبادت اور بندگی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ انسان کی فطرت میں خالقِ کائنات کا شکر ادا کرنے اور اس کے آگے سر بسجود ہونے کا انتہائی قوی داعیہ موجود ہے۔ اس بنا پر — اگر فطرت مسخ نہ ہوئی ہو تو — ہر انسان اللہ کے آگے جھکنا چاہتا ہے اور اظہارِ بندگی کے لیے مراسمِ عبودیت بجالانا چاہتا ہے۔ انسانی فطرت میں یہ وصف اس لیے ہے کہ نوعِ انسانی کو وجود بخشنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تمام انسانی ارواح کو خطاب کرکے اپنی بندگی کا عہد لیا تھا۔ اس عہد سے انسانی وجدان آشنا ہے۔ قرآنِ مجید اس امر کا تذکرہ کرتا ہے:

وَإِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ آدَمَ مِن ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَأَشْہَدَہُمْ عَلٰی أَنفُسِہِمْ أَلَسْتَ بِرَبِّکُمْ قَالُواْ بَلَی شَہِدْنَا أَن تَقُولُواْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِنَّا کُنَّا عَنْ ہَذَا غَافِلِیْنَo أَوْ تَقُولُواْ إِنَّمَا أَشْرَکَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّۃً مِّن بَعْدِہِمْ أَفَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَo وَکَذَلِکَ نُفَصِّلُ الآیَاتِ وَلَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَo (الاعراف:172-174)

’’اور یاد کرو کہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پیٹھوں سے اُن کی اولاد کو نکالا اور ان سے اُن کی جانوں کے بارے میں اقرار کرایا۔ پوچھا کہ ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ ‘‘ وہ بولے ’’ہاں ، آپ ہمارے رب ہیں ۔ ہم اس کا اقرار کرتے ہیں ۔‘‘ یہ اس لیے ہوا کہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہنے لگو کو ہم کو تو اس (یومِ حساب کی آمد) کی خبر نہ تھی یا کہنے لگو کہ شرک کا آغاز تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کیا تھا اور ہم اُن کے بعد اُن کی اولاد ہوئے تو کیا آپ ہمیں اس کام کی پاداش میں ہلاک کرتے ہیں جو گمراہوں نے کیا تھا۔ اور ہم اس طرح اپنی آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں۔ شاید کہ وہ (حق کی طرف) پلٹ آئیں ۔‘‘

جناب شبیر احمد عثمانی اِن آیات کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’تمام عقائد حقہ اور ادیانِ سماویہ کا بنیادی پتھر یہ ہے کہ انسان خدا کی ہستی اور ربوبیتِ عامہ پر اعتقاد رکھے۔ مذہب کی ساری عمارت اسی سنگِ بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے۔ جب تک یہ اعتقاد نہ ہو، مذہبی میدان میں عقل و فکر کی رہنمائی اور انبیاء و مرسلین کی ہدایات کچھ نفع نہیں پہنچاسکتیں … پس ضروری تھا کہ یہ تخمِ ہدایت (جسے کل آسمانی تعلیمات کا مبدا و منتہی اور تمام ہدایاتِ ربانیہ کا وجودِ مجمل کہنا چاہیے) عام فیاضی کے ساتھ نوعِ انسانی کے تمام افراد میں بکھیر دیا جائے، تاکہ ہر آدمی عقل و فہم اور وحی و الہام کی آبیاری سے اس تخم کو شجر ایمان و توحید کے درجے تک پہنچاسکے۔‘‘

اختیاروانتخاب کی آزادی:

انسان کی فطرتِ صالحہ کا تقاضا یہ تھا کہ تمام انسان اللہ کی بندگی اختیار کرلیتے لیکن انسان کو اللہ نے آزادی بخشی ہے، چنانچہ نیکی کی طرف انسان کا رجحان ہونے کے باوجود،وہ بدی کی راہ اختیار کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔ انسان کا نفس بھی اسے برائیوں کی طرف مائل کرلیتا ہے اور شیاطین جن و انس بھی اللہ سے بغاوت کی اور گناہوں کی ترغیب دیتے ہیں ۔ ان عوامل کے سبب صورتِ واقعہ عملاً یہ ہے کہ نوعِ انسانی دو گروہوں میں منقسم ہے (الف) اللہ پر ایمان لاکر اس کی بندگی  اختیار کرنے والا گروہ اور (ب) کفر کرنے والا گروہ۔ چونکہ موجودہ زندگی آزمائش ہے، اس لیے یہاں دونوں گروہوں کو مشیتِ الٰہی نے، کام کرنے کا موقع دیا ہے۔

قرآنِ مجید ان حقائق کو مختلف پیرایوں میں ہمارے سامنے بیان کرتا ہے:

وَکَذَلِکَ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ قُرْآناً عَرَبِیّاً لِّتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَی وَمَنْ حَوْلَہَا وَتُنذِرَ یَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَیْبَ فِیْہِ فَرِیْقٌ فِیْ الْجَنَّۃِ وَفَرِیْقٌ فِیْ السَّعِیْرِ o وَلَوْ شَاء  اللَّہُ لَجَعَلَہُمْ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَلَکِن یُدْخِلُ مَن یَشَاء ُ فِیْ رَحْمَتِہِ وَالظَّالِمُونَ مَا لَہُم مِّنْ وَلِیٍّ وَلَا نَصِیْرo  (شوریٰ:7-8)

’’ہم نے اسی طرح یہ قرآنِ عربی تمہاری طرف وحی کیا ہے، تاکہ تم بستیوں کے مرکز (شہرِ مکہ) اور اس کے گردوپیش رہنے والوں کو خبردار کردو اور جمع ہونے کے دن سے ڈرا دو جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ۔ ایک گروہ کو جنت میں جانا ہے اور دوسرے گروہ کو دوزخ میں ۔ اگر اللہ چاہتا تو (انسانوں کو اختیار کی آزادی نہ دیتا اور) ان سب کو ایک ہی امت بنادیتا۔ مگر وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے اور ظالموں کا نہ کوئی ولی ہے نہ مددگار۔‘‘

ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ فَمِنکُمْ کَافِرٌ وَمِنکُم مُّؤْمِنٌ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْرٌo (التغابن: 2)

’’وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن اور اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے جو تم کرتے ہو۔‘‘

تِلْکَ آیَاتُ اللّٰہِ نَتْلُوہَا عَلَیْکَ بِالْحَقِّ وَإِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ o  تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ مِّنْہُم مَّن کَلَّمَ اللّٰہُ وَرَفَعَ بَعْضَہُمْ دَرَجَاتٍ وَآتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنَاتِ وَأَیَّدْنَاہُ بِرُوحِ الْقُدُسِ وَلَوْ شَاء  اللّٰہُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِیْنَ مِن بَعْدِہِم مِّن بَعْدِ مَا جَاء تْہُمُ الْبَیِّنَاتُ وَلَـکِنِ اخْتَلَفُواْ فَمِنْہُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْہُم مَّن کَفَرَ وَلَوْ شَاء  اللّٰہُ مَا اقْتَتَلُواْ وَلَـکِنَّ اللّہَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ o(البقرۃ 252-253)

’’یہ اللہ کی آیات ہیں ، جو ہم ٹھیک ٹھیک تم کو سنا رہے ہیں اور اے محمد (ﷺ) تم یقینا اُن لوگوں میں سے ہو جو رسول بناکر بھیجے گئے ہیں ۔ یہ رسول (جو ہماری طرف سے انسانوں کی ہدایت پر مامور ہوئے) ایسے تھے کہ ہم نے ان کو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مرتبے عطا کیے۔ ان میں کوئی ایسا تھا جس سے خدا خود ہم کلام ہوا، کسی کو اس نے دوسری حیثیتوں سے بلند درجے دیے اور (آخر میں ) عیسیٰ ابنِ مریم کو روشن نشانیاں عطا کیں اور روحِ پاک سے اُس کی مدد کی۔اگر اللہ چاہتا تو (انسانوں کو اختیار کی آزادی نہ دیتا پھر) ممکن نہ تھا کہ ان رسولوں کے بعد جو لوگ روشن نشانیاں دیکھ چکے تھے وہ آپس میں لڑتے۔ مگر (اللہ کی مشیت یہ نہ تھی کہ وہ لوگوں کو جبراً اختلاف سے روکے، اس وجہ سے)انھوں نے باہم اختلاف کیا، پھر کوئی ایمان لایا اور کسی نے کفر کی راہ اختیار کی۔ ہاں ، اللہ چاہتا، تو وہ ہرگز نہ لڑتے، مگر اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔‘‘

جابروں کے آگے جھکنے سے انکار

تاریخ بتاتی ہے کہ انسانوں میں سے جن لوگوں نے حق کو چھوڑ کر گمراہی اختیار کی وہ اکثر و بیش تر محض خود گمراہ ہونے پر قانع نہ رہے بلکہ انھوں نے پیروانِ حق کو بہکانے کی کوشش بھی کی۔ اس کے لیے فریب، تحریص اور تخویف کے علاوہ انھوں نے جبر اور زبردستی کا راستہ بھی اختیار کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر اپنی خواہشِ نفس کی پیروی کی بنا پر وہ ایمان نہ لائے تھے تو کم سے کم دوسروں کو حق کے راستے سے نہ روکتے۔ لیکن انھوں نے ظلم و جبر کے ذریعے اہلِ ایمان کو کفر پر مجبور کرنا چاہا ، خاص طور پر وہ منکرینِ حق، جو کسی نہ کسی نوعیت کا اقتدار رکھتے تھے،پیہم یہ کوشش کرتے رہے کہ طاقت کے زور سے ایمان لانے والوں کو کفر پر آمادہ کریں ، ایسے حالات میں اہلِ ایمان کیا کریں ، اس سلسلے میں فرعون کے واقعے سے رہنمائی ملتی ہے۔

فرعون نے اپنی مملکت کے ماہر جادوگروں کو جمع کیا، تاکہ موسیٰ علیہ السلام نے عصا کا جو معجزہ دکھایا تھا، اس کو شکست دی جاسکے۔ لیکن ہوا یہ کہ مقابلے کے بعد جادوگروں نے سمجھ لیا کہ موسیٰ علیہ السلام کا عصا کوئی جادوئی شے نہیں ہے، بلکہ فی الواقع اللہ کی نشانی ہے اور موسیٰ اللہ کے سچے پیغمبر ہیں ۔ اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد جادوگر فوراً موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے۔ اس واقعے پر فرعون کا ردِ عمل یہ تھا کہ اس نے سخت عذاب کی دھمکی دے کر اُن کو ایمان سے پھیرنے کی کوشش کی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس مملکت میں میری مرضی چلے گی۔ میری اجازت کے بغیر کسی کو جرأت نہیں ہونی چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آئے:

قَالُواْ آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِیْنَo رَبِّ مُوسَی وَہَارُونo قَالَ فِرْعَوْنُ آمَنتُم بِہِ قَبْلَ أَن آذَنَ لَکُمْ إِنَّ ہَـذَا لَمَکْرٌ مَّکَرْتُمُوہُ فِیْ الْمَدِیْنَۃِ لِتُخْرِجُواْ مِنْہَا أَہْلَہَا فَسَوْفَ تَعْلَمُونَo لأُقَطِّعَنَّ أَیْدِیَکُمْ وَأَرْجُلَکُم مِّنْ خِلاَفٍ ثُمَّ لأُصَلِّبَنَّکُمْ أَجْمَعِیْنَo قَالُواْ إِنَّا إِلَی رَبِّنَا مُنقَلِبُونَo وَمَا تَنقِمُ مِنَّا إِلاَّ أَنْ آمَنَّا بِآیَاتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاء تْنَا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْراً وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنo (اعراف:121-126)

’’جادو گروں نے کہا: ہم نے مان لیا رب العالمین کو، اس رب کو جسے موسیٰ اور ہارون مانتے ہیں ۔ فرعون نے کہا: ’’تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں ؟ یقینا یہ کوئی خفیہ سازش تھی جو تم لوگوں نے اس دارالسلطنت میں کی تاکہ اس کے مالکوں کو اقتدار سے بے دخل کردو۔ اچھا تو اس کا نتیجہ اب تمہیں معلوم ہوا جاتا ہے۔ میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹوادوں گا اور اس کے بعد تم سب کو سولی پر چڑھاؤں گا۔‘‘ ایمان لانے والوں نے جواب دیا: ’’بہرحال پلٹنا ہمیں اپنے رب ہی کی طرف ہے۔ تو جس بات پر ہم سے انتقام لینا چاہتا ہے، وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے رب کی نشانیاں جب ہمارے سامنے آگئیں تو ہم نے انھیں مان لیا۔ اے رب! ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اس حال میں کہ ہم تیرے فرماں بردار ہوں ۔‘‘

فرعون اور ایمان لانے والوں کے درمیان اس گفتگو کے ذریعے، رہتی دنیا تک ایمان لانے والوں کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ وہ جباروں کے آگے نہ جھکیں ، بلکہ ایمان پر قائم رہیں خواہ کتنی ہی سخت آزمائشیں پیش آئیں ۔ بالآخر سب کو اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے، اُن کو بھی جو حکومت و اقتدار کے بل پر ظلم کررہے ہیں اور زبردستی انسانوں کو خدا پرستی سے روک رہے ہیں ۔ اور اُن کو بھی جو اللہ کے راستے میں تکلیفیں برداشت کررہے ہیں ۔ آخرت میں ان سب کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا۔

فرعون کا واقعہ، حق و باطل کی کشمکش کی ایک مثال ہے۔ قرآن مجید اللہ کے رسولوں کی دعوت کا انکار کرنے والے سردارانِ قوم کے عام رویے کا ذکر بھی کرتا ہے۔ دعوتِ حق کے منکر سرداروں نے رسولوں کو ملک سے باہر نکال دینے کی دھمکی دی۔ اس کے جواب میں اُن کو بتایا گیا کہ اللہ کا عذاب، ظلم کرنے والوں کو ہلاک کردے گا:

 وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ لِرُسُلِہِمْ لَنُخْرِجَنَّـکُم مِّنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا فَأَوْحَی إِلَیْہِمْ رَبُّہُمْ لَنُہْلِکَنَّ الظَّالِمِیْنَo وَلَنُسْکِنَنَّـکُمُ الأَرْضَ مِن بَعْدِہِمْ ذَلِکَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِیْ وَخَافَ وَعِیْدo (ابراہیم: 13،14)

’’آخر حق کا انکار کرنے والوں نے اپنے رسولوں سے کہہ دیا کہ ’’یا تو تمہیں ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا، ورنہ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے۔‘‘ تب اُن کے رب نے اُن پر وحی بھیجی کہ ’’ہم ان ظالموں کو ہلاک کردیں گے اور ان کے بعد تمہیں زمین میں آباد کریں گے۔ یہ انعام ہے اس کا جو میرے حضور جوابدہی کا خوف رکھتا ہو اور میری وعید سے ڈرتا ہو۔‘‘

مندرجہ بالا گفتگو میں منکرینِ حق کی اس دھمکی کا ذکر ہے کہ وہ اہلِ ایمان کو ’’اپنے ملک‘‘ سے نکال دیں گے۔ ایک دوسرے موقع پر قرآن مجید جباروں کی اس غلط فہمی کو رفع کرتا ہے کہ ملک ان کا ہے:

قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ اسْتَعِیْنُوا بِاللّٰہِ وَاصْبِرُواْ إِنَّ الأَرْضَ لِلّٰہِ یُورِثُہَا مَن یَشَاء ُ مِنْ عِبَادِہِ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنo(الاعراف: 128)

’’موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: ’’اللہ سے مدد مانگو اور(حق پر) جمے رہو۔ (جان لو کہ) زمین اللہ کی ہے۔ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔ اور آخری کامیابی انہی کے لیے ہے، جو اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کریں ۔‘‘

یہاں موسیٰ علیہ السلام نے ایمان لانے والوں اور کفر کرنے والوں ، دونوں کو یہ حقیقت یاد دلائی ہے کہ ملک کے حقیقی مالک وہ افراد یا گروہ نہیں ہیں ، جن کو اس وقت (مشیتِ الٰہی کے تحت، ایک عارضی مدت کے لیے) حکومت ملی ہوئی ہے۔ بلکہ حقیقی مالک تو اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ جب چاہتا ہے، ملک کے عارضی اقتدار کو ایک فرد یا گروہ سے لے کر دوسرے فرد یا گروہ کے سپرد کردیتا ہے۔ جب صورتِ واقعہ یہ ہے کہ تو ان عارضی اہلِ حکومت کو یہ اختیار کہاں سے حاصل ہوگیا کہ ملک کو اپنی ملکیت بتائیں اور الٹا ان لوگوں کو نکالنے کے درپے ہوں جو حقیقی مالک الملک کی بندگی کرنا چاہتے ہوں ۔

اہلِ ایمان اور جباروں کی کشمکش کی ایک اور مثال شعیب علیہ السلام کے واقعے میں سامنے آتی ہے:

قَالَ الْمَلأُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُواْ مِن قَوْمِہِ لَنُخْرِجَنَّکَ یَا شُعَیْبُ وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ مَعَکَ مِن قَرْیَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا قَالَ أَوَلَوْ کُنَّا کَارِہِیْنَo قَدِ افْتَرَیْنَا عَلَی اللّہِ کَذِباً إِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِکُم بَعْدَ إِذْ نَجَّانَا اللّٰہُ مِنْہَا وَمَا یَکُونُ لَنَا أَن نَّعُودَ فِیْہَا إِلاَّ أَن یَشَاء َ اللّٰہُ رَبُّنَا وَسِعَ رَبُّنَا کُلَّ شَیْئٍ عِلْماً عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَیْرُ الْفَاتِحِیْنo (الاعراف: 88-89)

’’شعیب کی قوم کے سرداروں نے، جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا تھے، اس سے کہا کہ ’’اے شعیب! ہم تجھے اور اُن لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں ، اپنی بستی سے نکال دیں گے ورنہ تم لوگوں کو ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا۔‘‘ شعیب نے جواب دیا ’’کیا زبردستی ہمیں پھیرا جائے گا  خواہ ہم راضی نہ ہوں ؟ ہم اللہ پر جھوٹ گھڑنے والے ہوں گے اگر تمہاری ملت میں پلٹ آئیں جب کہ اللہ ہمیں اس سے نجات دے چکا ہے۔ ہمارے لیے تو اس (ملتِ کفر) کی طرف پلٹنا اب کسی طرح ممکن نہیں ۔ الا یہ کہ خدا، ہمارا رب ہی ایسا چاہے۔ ہمارے رب کا علم ہر چیز پر حاوی ہے، اسی پر ہم نے اعتماد کرلیا۔ اے رب! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردے اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔‘‘

مندرجہ بالا گفتگو میں شعیب علیہ السلام نے ظالموں کے مطالبے کو ماننے سے صاف انکار کردیا ہے اور یہ بات واضح کردی ہے کہ ملتِ کفر کی طرف لوٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مزید برآں انبیاء علیہم السلام کی سرگزشت سے عام اصول معلوم ہوتا ہے کہ زمین میں فساد برپا کرنے والوں کی بات نہ ماننے کی تلقین نبیوں کی دعوت کا اہم جز رہی ہے:

فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُونِo وَلَا تُطِیْعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَo الَّذِیْنَ یُفْسِدُونَ فِیْ الْأَرْضِ وَلَا یُصْلِحُونَ o (الشعراء :150-152)

’’(صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ)’’اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ ان بے لگام لوگوں کی اطاعت نہ کرو، جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور کوئی اصلاح نہیں کرتے۔‘‘

  وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰـکَ عَنْہُمْ تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ وَکَانَ أَمْرُہٗ فُرُطاًo (الکہف:28)

’’اے نبی(ﷺ) ’’اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اسے پکارتے ہیں، اُن سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔ کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو؟ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے اور جس کا طریقِ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔‘‘

جبر کے مقابلے کاطریقِ کار

انبیائی دعوت کے مندرجہ بالا نمونوں سے وہ طریقِ کار سامنے آجاتا ہے جو جبر کے مقابلے کے لیے نبیوں نے اختیار کیا۔ اہلِ حق اور اہلِ باطل کی کشمکش – نظریاتی اور عملی – دونوں میدانوں میں ہوتی ہے۔ نظریاتی میدان میں اہلِ حق کی فتح کے لیے یہ ضروری ہے کہ دعوتِ اسلامی کی حقانیت کے دلائل، اہلِ ایمان پر ہمیشہ واضح رہیں ۔ دوسری جانب یہ بھی ناگزیر ہے کہ باطل کی طرف سے جو پُر فریب باتیں کہی جارہی ہوں ، اُن کی حقیقت اہلِ ایمان پر آشکارا ہو اور وہ فریب کا پردہ چاک کرکے حقائق کو اُن کے اصل رنگ میں دیکھ سکیں ۔

جبر کے مقابلے کے لیے درجِ ذیل نکات پر مشتمل طریقہ، انبیاء علیہم السلام اور اُن کے ساتھیوں نے اختیار کیا:

(الف) ہر قسم کے حالات میں بے لاگ دعوتِ حق، انسانوں کے سامنے پیش کی جاتی رہی۔ غلط کو غلط کہنے اور صحیح کو صحیح قرار دینے سے کوئی جابرانہ اقدام، اہلِ حق کو باز نہ رکھ سکا۔

(ب)  اہلِ باطل نے اپنے رویے کے جواز میں جو باتیں کہیں ، اُن کی نامعقولیت کو واضح کیا گیا مثلاً ان کے اس دعوے کی تردید کی گئی کہ ملک ان کا ہے اور انھیں اختیار حاصل ہے کہ اہلِ ایمان کو اپنے ملک سے نکال دیں ۔ اُن کو بتایا گیا کہ ملک تمہار نہیں ہے، بلکہ اللہ کا ہے اور وہ جس کو چاہتا ہے، اقتدار بخشتا ہے۔ جس فردیا گروہ کو اقتدار ملا ہو اس کو چاہیے کہ اپنی طاقت کو انصاف کے قیام کے لیے استعمال کرے اور انسانوں پر جبر و ظلم سے باز رہے۔

(ج)  اہلِ ایمان نے صبر اختیار کیا یعنی حق پر جمے رہے۔ ایمان کے اعلان سے کسی حال میں باز نہیں آئے اور مشکلات کے علی الرغم، ایمان کے تقاضے پورے کرنے کی بھر پور کوشش کرتے رہے۔

(د)  اہلِ ایمان نے ایک دوسرے کو سہارا دیا اور دعوتِ حق، شہادت علی الناس اور دین پر عمل کے سلسلے میں ایک دوسرے کی مدد کی۔ جوصاحبِ ایمان آزمائش میں گرفتار ہوا، اس نے اپنے آپ کو اکیلا نہیں پایا، بلکہ بہت سے اہلِ حق نے اس کو تسلی اور بشارت دی۔ اس کے حق میں دعائیں کیں ، اسے راہیں سجھائیں اور مشورے دیے۔ ان سب کے علاوہ آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے عملی تعاون بھی کیا۔ اس کو ظلم سے بچانے کے لیے دوڑ دھوپ کی۔ اس کو تکلیفوں سے محفوظ رکھنے اور اس کی ضرورتوں کو پوری کرنے کے لیے اپنا وقت، توانائی اور مال خرچ کیا۔

جبر کے مقابلے کا یہ وہ طریقِ کار ہے جو داعی حق گروہ کے شایانِ شان ہے۔ اہلِ حق کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ظلم و جبر کے مقابلے کے لیے وہ طریقے اختیار کریں جو رنگ و نسل کی بنیاد پر بننے والے گروہ اختیا رکیا کرتے ہیں ۔ آج پوری دنیا میں امتِ مسلمہ کو جابرانہ اقدامات سے واسطہ پیش آرہا ہے۔ افرادِ امت کو اپنا احتساب کرنا چاہیے کہ اس مخالف ماحول سے مقابلے کے لیے انھوں نے کون سا طریقہ اختیار کررکھا ہے، کیا وہ اسوئہ انبیاء کی پیروی کررہے ہیں یاحق سے غافل دنیا کے طریقوں کو انھوں نے اپنالیا ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ کامیابی، اسوہ انبیاء کی پیروی میں ہے چاہے جبر کے خاتمے میں دیر لگے۔ اس کے برعکس جادہ حق سے ہٹ کر جو کوششیں جبر کے مقابلے کے لیے کی جائیں گی، وہ دعوتِ حق کی راہ کو کھوٹی کردیں گی۔ یہ ایسا نقصان ہوگا جس کی تلافی، اس ظاہری امن و امان سے نہ ہوسکے گی، جو باطل سے ہم آہنگی اختیار کرکے حاصل کیا گیا ہو۔

دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت

ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارہ

تبصرے بند ہیں۔