جسٹس فار آصفہ

احساس نایاب

لگتا ہے ہم جہاں اپنی زندگی بسر کررہے ہیں وہ اندھے بہروں کی بستی ہے اور اس بستی میں کئی مظلوموں کی چیخ و پکار انہیں کے اندر دم توڑ رہی ہے  اور ہماری 8 سالہ ننھی آصفہ بھی انہیں مجبور بیبس مظلوم طبقے سے تھی،  ہندوستان کی بیٹی ہونے کے باوجود بھی اس معصوم کے ساتھ سوتیلا رویہ اختیار کیا جارہا ہے. فلحال تو یہ بچی چند خاکی وردی اور نفرت کی سیاست کھیلنے والوں کی وحشت کا شکار بنکر اس دنیا سے بڑی ہی بےرحمی، درد و خوف کے ساتھ ہی دوسری دنیا کو کوچ کر چکی ہے، لیکن  آج بھی ننھی آصفہ کی معصوم آنکھیں ہندوستان کی 125 کڑور عوام کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے اپنے لئے انصاف مانگ رہی ہیں۔ اور دوسری طرف آصفہ کے لئے اپنے دل میں ہمدردی رکھنے والے چند سچے ہندوستانی آصفہ کو انصاف دلانے کے خاطر ہر ممکن کوشش کررہے ہیں اور ہر دن کسی نہ کسی انداز سے آصفہ کو زندہ رکھنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ ہندوستان کی عوام کو آصفہ پہ کئے گئے ظلم و ذیادتیوں سے روبرو کروا سکیں اور انسانئیت کو پھر شرمسار ہونے سے بچا سکیں۔

ہم بھی انہیں چند انصاف پسند انسانوں میں سے ایک ہیں جو آصفہ اور آصفہ جیسی کئی معصوم لڑکیوں کے لئے ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہیں چاہے وہ دہلی کی نربھیا ہو یا جمو کی ننھی سی آصفہ لیکن اب تو جب بھی ان معصوم لڑکیوں,  بچیوں یا عورتوں کے لئے قلم اٹھاتے ہیں تو اُس منظر کو تصور کرکے ہی ہمارے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں اور ہم یہ سوچنے لگتے ہیں کہ جب تصور سے ہی یہ حال ہوتا ہے تو اُس معصوم بچی اور ان تمام لڑکیوں,  عورتوں پہ کونسی قیامت گذری ہوگی جن پہ کئی کئی دنوں تک وحشیانہ طریقے سے اذئیت دی جاتی ہے اور جو آصفہ پہ گذری ہے وہ تو بیان کرنا بھی ناممکن ہے لیکن پھر بھی ہر قلمکار آصفہ کے حق میں قلم اٹھانا انسانی فریضہ مانتے ہوئے اپنا فرض ادا کررہے ہیں تاکہ آصفہ کو انصاف دلاسکیں ۔

کیونکہ بیچاری ننھی آصفہ جو جمو کشمیر ریاست کے صوبہ جموں کے ہندواکثریتی ضلع  کٹھوعہ کے گاؤں رسانہ میں اپنے غریب بوڑھے ماں بات کے ساتھ مقیم تھی اور وہ خود کو ہندوستانی کہتے ہوئے بڑا فخر محسوس کرتی ہر قومی تہوار پہ حب الوطنی کے گیت گنگناتے ہوئے اپنے ہم عمر ساتھئیوں کے ہمراہ ہندوستان کی 125 کڑور عوام کی ہی طرح جشن بنایا کرتی تھی, لیکن آج ننھی آصفہ ہم سبھی کے درمیان نہیں رہی۔دو محافظ کہلانے والے پولس اہلکار دیپک کھجوریہ اور سوریندرکمار ورما نامی درندوں نے  10 جنوری کو نشیلی دوائی کا استعمال کر آصفہ کو اغواء کرلیا پھر ایک ہفتے تک لگاتار اُس پھول جیسی معصوم بچی پہ جنسی استحصال کر کئی قسم کئ اذئعتیں دیتے ہوئے بڑی ہی بےرحمی سے قتل کر لہولہان جسم کو جنگل میں پھینک دیا تاکہ پورے علاقے میں دہشت برپا ہو۔

اور اس کے بعد تحقیقات کے نام پہ کیس کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ,,, دراصل انکا مقصد کٹھوعہ ہندو اکثریتی علاقے میں بسنے والے قبائلی گجر طبقے کو خوفزدہ کر انہیں ہجرت پہ مجبور کرنا تھا اور اس سازش کو انجام دینے کے لئے ان جنگلی حیوانوں نے 8 سالہ معصوم بچی یعنی آصفہ کو اپنا شکار بنایا , اس کیس میں اور بھی چند باتیں کھل کر سامنے آرہی ہیں کہ آصفہ کے قتل میں ان دو درندہ صفت پولس کے ساتھ ایک کم عمر لڑکا اور ہندو ایکتا منچ کا بھی ہاتھ ہے اور یہ ان سبھی کی ملی بھگت ہے جسکو منصوبہ بندی کر کے انجام دیا گیا اور اس بات کا پوری طرح سے خلاصہ اس وقت ہوا جب آصفہ کا پریوار اور علاقے کے لوگوں نے پولس کی تحقیق پہ یقین نہ کرتے ہوئے پرزور احتجاج کر حکومت کو مجبور کردیا کہ آصفہ کے عظمت ریزی اور قتل کا کیس کرائم برانچ کو سونپے اور کرائم برانچ کی جانچ کے مطابق سب کچھ دودھ کی طرح صاف ہوچکا ہے یہاں تک کہ قاتل دیپک کھجوریہ اور سوریندر کمار ورما نے حراست میں اپنا جرم قبول بھی کرلیا۔  لیکن اس کے باوجود بھی چند شر پسند تعصبی ذہنئت کے مالکوں نے قاتلوں کی دفع میں ترنگے لہراتے ہوئے ریلیاں نکال کر علاقے کا ماحول تشددزدہ بنانے کی بار بار کوشش کی، جسکے چلتے کئی لوگ آئے دن فسادی بیانات اور تحریریں دیتے رہے اور جسطرح ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری لال سنگھ نے کہا تھا کہ کیا ہوا جو ایک لڑکی مرگئی ؟ یہاں بہت ساری لڑکیاں مرتی ہیں۔

افسوس ہے ایسی ذہنئیت کو پالنے والے انسانی بھیس میں چھپے جانور صفت لوگوں پہ لعنت برسنی چاہئیے ان پہ جو ایک طرف تو عورت کو دیوی کا درجہ دیتے ہیں عورت کو درگا،  لکشمی، سرسوتی،  امبے، کالی اور پتہ نہیں کن کن ناموں سے انکی پوجا کرتے ہیں اور دوسری طرف انہیں عورتوں، ننھی بچئیون،معصوم لڑکئیوں کے بارے میں اسطرح کی باتیں کرتے ہیں اور شرم آنی چاہئیے ان تمام لوگوں پہ جو درندہ صفت قاتلوں کی دفع میں ریلیان نکال رہے ہیں خاص کر ہندوایکتاء منچ کو جس نے حال ہی میں بیان دیا تھا اور کچھ دن پہلے ریلی نکالنے کی کوشش کر ماحول کو اور تشددزدہ بنادیا جسکی وجہ سے علاقے بھر میں سیکشن 144 نافض کرتے ہوئے تقریبً 100 زائعد لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔

 ہندوایکتامنچ کی ان حرکتوں کی اصل وجہ یہ ہے کہ لگ بھگ کرائم برانچ کی جانچ مکمل ہونے والی تھی اور ہندو ایکتامنچ بوکھلایا ہوا ہے کیونکہ یہاں پہ بات چور کی داڑھی میں تنکا والی ہے اور اسکے لیڈرس بھی ننھی آصفہ کے اغواء، جبراً عضمت ریزی اور قتل کی سازش میں برابر کے شریک ہیں۔ اسلئے وہ مذہب کے نام پر یعنی ہندو کے نام پر اپنے آبائی لوگوں کو اکسا کر قانون سے بچنے کی خاطر ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی جی توڑ کوشش کررہے ہیں اور آگے کی جانچ سی بی آئی کو سونپنے کی مانگ کررہے ہیں تاکہ سیاسی چالبازیاں کھیل کر معملے کو رفا دفا کردیں۔

اور دورِحاضر ان بگڑتے ہوئے حالات کے چلتے عورتوں پہ ہورہے جنسی استحصال کو دیکھتے ہوئے سبھی کی نظریں بی جے پی سے جُری مہیلا منتریوں پہ ٹکی ہوئی ہیں کہ خود عورت کہلانے والی یہ خواتین آخر کیوں گونگی,  بہری بنی ہوئی ہیں؟ کیا عورتوں بچیوں کی درد بھری چیخ و پکار انکے کانوں تک نہیں پہنچ رہی؟ جو 2014 سے پہلے مہنگائی کو لیکر راستوں پہ اُتر جایا کرتی تھیں آپوزیشن پارٹی کے خلاف نعرے بازیاں کیا کرتی تھیں آج اُن سبھی کو کیوں سانپ سونگھ چکا ہے ؟ کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی والا سر وگُن سنمپن والا وہ کردار آخر کہاں کھو چکا ہے ؟ یا اقتدار میں آنے کہ بعد یہ ساری عورتیں گونگی,  بہری ہوچکی ہیں؟ خیر ابھی آگے چل کر یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ کس کا ساتھ دینگی مظلوم عورتوں کا یا اپنی پارٹی سے جُڑے ہوئے ان وحشی درندوں کا جو آئے دن اپنے رسوخ کا استعمال کر عورتوں اور بچیوں کا شکار کرتے ہوئے انہیں موت کے گھاٹ اُتارتے ہیں یا موت سے بدتر زندگی جینے پہ مجبور کرتے ہیں؟ اور ساتھ ہی  قانون اور خود کو انسان کہلانے والی ہندوستان کی 125 کڑور عوام کس کے حق میں کھڑی رہیگی؟ معصوم ننھی آصفہ کے؟ یا درندہ صفت قاتلوں اور انکے جرم میں برابر کے شریک ہندوایکتا منچ کے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔