حیوان جاگ اٹھا

منصور قاسمی

۲۰۱۷ء؁ میں ایران میں ایک سات سالہ معصوم بچی عصمت دری کے بعدقتل کردی گئی، الزام ۴۲ سال کے اسماعیل پر لگا کیوں کہ اس کے گھر کے گیراج ہی میں اس بچی کی لاش بر آمد ہوئی تھی۔ اسماعیل نے اپنا جرم قبول بھی کرلیا۔ حکومت ایران نے بلا تاخیر اس حیوان کو تختہء دار پر لٹکا دیا  اور اس کی ویڈیو سرکاری نشریاتی ادارے کی ویب سائٹ پر لوڈ کردی تاکہ آئندہ کوئی ایسا گھناؤنا جرم کی ہمت نہ کرے۔ پاکستان کے قصور میں ایک بچی زینب کی لاش اسی سال ۹ جنوری کو ایک کچرے کے ڈھیر میں ملی، اس کے ساتھ بھی  پہلے ریپ ہوا تھاپھر تہ تیغ کردی گئی تھی۔پورا پاکستان سڑک پر نکل آیا، مجرم عمران علی گرفتار ہوا، ۱۲ فروری کو فرد جرم عائد کی گئی اور ۱۷ جنوری کو عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے عمران علی کو چار دفعہ موت کی سزا سنائی۔

ہندوستان کے جنت نشاں کشمیر کے ضلع کٹھوعہ میں بھی ایک آٹھ سالہ بچی آصفہ کو اسی سال ماہ جنوری میں انسان نما جنگلی درندوں نے اس وقت اٹھا لیا جب وہ گھوڑے چرا رہی تھی، درندے اس معصوم کو وہاں لے گئے جہاں  اس کی مائیں لکشمی، درگا اور سیتا براجمان رہتی ہیں ۔ اس مقدس عبادت گاہ میں درندے اس ننھی جان کو نشہ آور دوائیاں اور ڈرگس دے دے کر ایک ہفتے تک نوچتے گھسوٹتے رہے، پھر بے رحمی سے مارڈالا اور موت کو یقینی بنانے کے لئے ان شیطانوں نے سرپر بڑے بڑے پتھردے مارے۔ آ پ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ اس بہیمانہ جرم کے ارتکا ب میں باپ، بیٹا، بھتیجا، اس کے دوست اور ایک دیش کا محافظ جموں کشمیر پولیس کے اسپیشل انچارج دیپک کھجوریا شامل ہیں ، کھجوریا کا معاون و ممد تھا ایک دوسرے پولیس آفیسر پرویش کمار۔ جب معاملہ منظر عام پر آنے لگا تو بکاؤ پولیس اہلکار کو چار لاکھ روپئے دے کر اس کو رفع دفع کی کوشش کرنے لگے مگر جب پاپ کا گھڑا بھر جاتا ہے تو اسے پھوٹنا ہی ہوتا ہے سو کرائم برانچ  کے تفتیشی اہلکار نے سب سے پہلے اس چانچ افسر کو گرفتار کیا جو آصفہ معاملے کی چانچ کررہا تھا اس سب انسپکٹر کا نام ہے آنند دتہ۔ چانچ اہلکار نے اس کے بعد ایک ہیڈ کانسٹبل تلک راج کو گرفتار کیا، یہی وہ مجرم ہے جس نے ثبوت مٹانے کی کوشش کی، آصفہ کے کپڑوں میں لگے خون صاف کئے تھے۔

آپ نے اوپر پڑھا کہ ایران نے ایسے ہی جرم کے مرتکب کو پھانسی دے دی، پاکستان میں بھی موت کی سزا سنادی مگر ہندوستان میں ، جہاں کے وزیر اعظم کا نعرہ ہے ’’بیٹی بچاؤ،،وہاں اس مذموم جرم کو دبانے کے لئے پولیس کے ہاتھ گرم کئے جاتے ہیں ، ہندو ایکتا منچ  اپنے ناپاک ہاتھوں میں ترنگا ل لے کرجے شری رام اور بھارت ماتا کی جے کے نعرے لگا کر مجرمین کی حمایت پر اتر آتے ہیں ۔ بی جے پی کے دو ارکان اسمبلی بھی مجرمین کے بچاؤ میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس سے زیادہ  افسوس و ملامت کی بات یہ ہے کہ کٹھوعہ بار ایسوسی ایشن بھی مجرمین کے حق میں کھڑی ہو جاتی ہے۔ سب سے پہلے کٹھوعہ جیل کے باہر وکیلوں نے مظاہرہ کیا جہاں مجرمین رکھے گئے تھے، پھر جب چارج شیٹ  فائل داخل کرنے کرائم برانچ کی ٹیم کورٹ گئی تو وکلاء نے گھنٹوں مزاحمت کی اور چارج شیٹ داخل کرنے سے روکا، اور آج بار ایسوسی ایشن نے جموں کشمیر بند کا اعلان بھی کردیا ہے۔ یہ ہے ’’ نیو انڈیا،،۔ سوچئے!کل یہی وکلاء جب کسی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج یا چیف جسٹس بنیں گے تو یہ کیا فیصلہ کریں گے، کن کے حق میں فیصلہ کریں گے ؟ کٹھوعہ بار ایسوسی ایشن کی غنڈہ گردی یہاں تک آگئی ہے کہ ایک انسانیت نواز اور سینے میں درد رکھنے والی وکیل دیپیکا سنگھ تھوسوجب آصفہ کو انصاف دلانے اور مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے کھڑی ہو ئیں تو اس کو دھمکیاں دے رہی ہے۔ ’’یہ ہے نیو انڈیا،، دراصل یہ غلطی کٹھوعہ بار ایسو ایشن کی نہیں ہے، غلطی اس کی ہے جس نے اسے بھگوا چنری اڑھائی ہے۔ معتبر ذرائع کے مطابق کٹھوعہ بار ایسوسی ایشن مکمل بی جے پی نوازہے۔ اس لئے یہ مجرمین کی کھل کر حمایت کر رہے ہیں کیوں کہ آصفہ کیس کے اصلی مجرم سانجھی رام کا ریکارڈ یہ کہتا ہے کہ بکروال سماج جس سے آصفہ کا تعلق تھا اس کو وہ راسنا گاؤں سے ہٹانا چاہتا تھا، اس کے لئے وہ ہندوؤں کو مستقل بھڑکاتا بھی تھا، وہاں کے زیادہ تر ہندوؤں کی یہی سوچ بھی بن گئی ہے کہ بکروال سماج گئو کشی کرتا ہے، ڈرگس بیچتا ہے۔ اسی ہندوتو وادی شبیہ کی وجہ سے وہاں کی عام جنتا سے وکلاء تک مجرمین کے دفاع میں کھڑے ہو گئے ہیں اور اس کو ہندو مسلم  رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ مدھیہ پردیش  بی جے پی کے صدر اور ایم پی نند کمار سنگھ چوہان نے تو حد ہی کردی، اس نے کہا : کشمیر میں جو کچھ ہوا ہے، اس میں پاکستان کا ہا تھ ہے، انہی لوگوں نے جے شری رام کے نعرے لگائے، ، اب اس کم عقل نیتا کے بیان پر سر پیٹوں یا ماتم کروں ؟  ان حیوانوں ، درندوں کی حمایت کرنے والوں سے سوال کیا جائے کہ درد سے بلبلاتی ہوئی، تڑپتی ہوئی، سسکتی ہوئی، چیختی ہوئی اگر آصفہ کی جگہ تمہاری بیٹی یا بہن ہوتی تو تم کیا کرتے ؟ مندر کی جگہ اگر مسجد، چرچ یاگرودوارہ  میں عصمت دری کاسانحہ پیش آتاتو تم کیا کرتے ؟ آپ کو یاد ہوگا ۲۰۱۲؁ میں جب نربھیا کا سانحہ پیش آیا تھا تو اس وقت پورے انڈیا میں ایک طوفان آگیا تھا ، حقوق نسواں اور دیگر مہیلا تنظیمیں کینڈل مارچ کر رہی تھیں ، اسمرتی ایرانی نے تو منموہن سنگھ کو چوڑیاں تک بھیجوائی تھیں ، بہت اچھا کیا تھا مگر اسمرتی ایرانی سے اب پو چھا جانا چاہئے کہ مودی جی کو کیا بھیج رہی ہو ؟کل رات جب کانگریس نے کینڈل مارچ نکالا تو اس پر یہی اسمرتی ایرانی کہتی ہیں : اس کو سیاسی رنگ نہیں دیا جانا چاہئے۔ واہ رے سیاسی باز عورت !  افسوس ہوتا ہے وزارت فلاح بہبود اطفال و نسواں پر، ان موٹی موٹی آنٹیوں اور مہییلا تنظیموں پر جو ابھی تک چپی سادھی ہوئی ہیں ، شاید ان تک آصفہ کی چیخیں نہیں پہنچی ہیں یا ان سب کو وقت نے بہری، اندھی اور گونگی بنادیا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم جو بات بات پر ٹیوٹ کرتے ہیں ، ہر بات پر من کی بات سناتے ہیں ، لچھے دار بھاشن دیتے ہیں وہ بھی مونی بابا ٹوبنے ہوئے ہیں ، ویسے بھی وہ شخص کسی بیٹی اور باپ ماں کے درد کوکیا سمجھے گا جس کا کوئی ہو ہی نہیں ۔ جموں کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ (مودی) نے اب جاکے قوم سے کہا ہے کہ : آصفہ کو انصاف دلانے کا وعدہ کرتی ہوں، انسانیت کو شرمسار کرنے والے مجرمین کو سخت سے سخت مثالی سزا دلاؤں گی۔ محبوبہ جی !آپ بھی دو بچیوں کی ماں ہیں ، ابھی تک آپ نے آصفہ کے درد کوکیوں محسوس نہیں کیا تھا؟ آپ کے کابینی وزراء کے بیانات، وکلاء کے مظاہرے و مخالفت سے عیاں ہے کہ آصفہ کو کتنا انصاف ملے گا اور مجرمین کو کتنی سزا ملے گی ؟

  ہمیں افسوس ہے کہ ہم اس ’’نیو انڈیا،، میں جی رہے ہیں جہاں انسان کم، حیوان زیادہ رہتے ہیں ،یہ گائے کشی کے نام پر کسی انسان کی جان تو لے سکتے ہیں مگر انسان اور انسانیت کے قاتل کو سزا دلانے کے بجائے اس کی دفاع میں کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ ہم شرمندہ ہیں آصفہ ! بہت شرمندہ ہیں کہ تمہارے لئے ہم کچھ نہیں کر پارہے ہیں۔ اللہ تمہیں جنت کی ملکہ بنائے اور تمہارے والدین، بھائیوں اور بہنوں کو صبر جمیل دے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔