جشنِ ولادت یا  نفس پرستی

ہلال احمدسلفی

آزادافکاروتخیلات کا پروان چڑھنا،عقلی ونقلی دلائل کامتعارض ہونا،کتاب وسنت کے مقابل آراء پربحث کرنااور صاحب المناصب کے مقام ومرتبہ کااحتیاط کرنا،ایسی کیفیات ہیں جس میں قرآن وسنت سے سرموانحراف کے مخفی دروازے کھلتے ہیں۔  قرآن وسنت کے طورپرایسی انمول نعمتیں ملی ہیں جس سے انسان راہ راست پرآسکتاہے لیکن وہی شخص جو صاحب عقل وفہم ہو۔ سلف صالحین سے لے کر آج تک متعبین کتاب وسنت نے ہمیشہ معتدل راستہ اختیارکرنے کی تلقین کی ہے اوراس سے فرارکی صورت میں ممکنہ خطرات سے آگاہ کیاہے۔ دونادرنگینوں کی شکل میں ملے اس عظیم تحفے سے ایک مسلمان بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔ وہی لوگ معتدل راہ پر رہے جنہوں نے اسے حرز جان بنایا۔ اس کے برخلاف اوروں نے غلووتکثیر کی تمام حدیں پارکرتے ہوئے ایسی وادی میں جانکلے جہاں سے واپسی کاامکان باقی نہیں۔  سوائے جسے اللہ ہدایت سے ہمکنارکرے۔ ذہنی اپج اور خیالات کو شرعی جامہ پہنانے میں مقابلہ آرائی کی ایسی محفلیں منعقدکی گئی کہ افکارضالہ کا بازار گرم ہوگیااور پھر ان کے پیچھے ایسی دوڑ شروع ہوئی کہ صراط مستقیم کی جانب مڑکردیکھناگوارہ نہیں کیا۔ اگرکسی نے انہیں اس اندھیرے راستے میں سنت کی کرن جلاکر دوبارہ لوٹنے کا اشارہ دیا تواس کے خلاف صف بستہ ہوگئے۔ پھر بھی راہ حق کی ضیاء پاش کرنیں رہ رہ کر نیرتاباں کی شکل اختیارکرتی رہیں اور ایک طبقہ اس سے مستفیدہوتارہااوروہی میرکارواں بھی رہا۔

 شعائراسلام میں مداہنت نے عقائد وعبادات کے معاملہ میں چوردروازے سے بدعات وخرافات کو جنم دیا، احبار ورہبان کے طرز پر آزادفکر اور امراء وسلاطین کی خوشامدنے مزیدکارگزاریاں کیں۔  جس طرح مسیحی عیسیٰ علیہ السلام کی یوم پیدائش مناتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یوم پیدائش منانے کی بدعت ساتویں صدی ہجری میں ایجاد کی گئی، میلادالنبی کو اسلامی شعائر اورعبادت سمجھ کر انجام دیا جانے لگا۔  اِدھر چنددنوں سے اوربھی کئی اسلامی چیزوں کو بطوریاد گار منایاجانے لگاہے، اُس دن اخبارات وجرائد میں مضامین لکھے جانے لگے ہیں، جوکہ بدعت ایجاد کرنے کی سری اورشری راستہ ہے۔ اگرغورکیاجائے تو معلوم ہوگاکہ میلاد النبی کے سلسلے میں بھی ابتداء میں ایسا ہی کیاگیا۔ سرکاری ودرباری عالم ابوالخطاب بن دحیہ نے اپنے حکمراں کو خوش کرنے کے لیے کتاب لکھی اور پھر اسے بطور خاص ہدیہ میں پیش کیا۔ بس اسی دن سے یہ بدعت رواج پذیرہوگئی۔ مسیحی عیسی علیہ السلام کی یوم پیدائش کوکرسمس ڈے (عیدمیلادالمسیح) مناتے ہیں، اورنام نہاد مسلمان بھی ان کے نقش قدم پر چل کر عیدمیلادالنبی کا اہتمام کرتے ہیں۔ حالانکہ اکثر عیسائی علماء۲۵؍دسمبرکوعیدمیلادالمسیح درست نہیں گردانتے ہیں بلکہ اسے چوتھی صدی عیسوی کی ایجاد مانتے ہیں کہ مشرکین اور یونانیوں سے متاثر ہوکر کچھ عیسائی طبقوں نے اس بدعت کو ایجاد کیا ہے اس لیے وہ کرسمس ڈے کو نہیں مناتے اورکچھ طبقہ جنوری کے درمیانی عرصہ یعنی ۹؍کچھ ۱۹،۲۱،۲۰؍ کو مناتے ہیں۔ ان کے مطابق عیسیٰ ؑکی پیدائش کامعتبرعلم کسی کو نہیں ہے۔  اب ہم اورآپ اپنے مذہب میں درآئی اس بدعت یعنی میلادالنبی کی حقیقت کو جانیں اور پرکھیں کہ کس طرح ساتویں صدی میں ایجادکردہ بدعت کواسلام کاجز ء مان کر منایاجاتاہے۔

 سلیم الفطرت انسان بغورتاریخ کا مطالعہ کرے اورخود تعین کرے کہ جس چیزکا وجودمبشرین بالجنۃ، اورقرون اول، ثانی ثالث کے یہاں نہیں ہے اورناہی مستندروایت سے اس کاحکم ہے پھروہ عبادت کادرجہ کیسے حاصل کرلے گی۔ دراصل نام نہاد مسلمانوں نے یہودونصاریٰ کی روش اختیارکرکے محبت کو جھوٹابہانہ تلاش کیا۔ سا ل میں ایک بار کوکبوری المسلک لوگوں نے اسلام کوبدنام کرنے کی کوشش کی۔ بارہ ربیع الاول کے دن جس طرح کی بیہودہ حرکتیں، ناچ گانے اور مخلوط مردوزن کا مظاہرہ ہوتا ہے کہ شیطان بھی شرمندہ ہوجائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں ایسی قصیدہ خوانیاں اورمبالغہ آرائیاں کی جاتیں کہ انہیں الوہیت کے درجے تک پہنچادیاجاتاہے۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے یہ کہہ کر منع فرمایا ہے:’’لاَ تُطْرُونِي کمَا أَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُہُ فَقُولُوا عَبْدُ اللہِ وَرَسُولُہ‘‘(صحیح البخاری)’تم لوگ میرے بارے میں مبالغہ آرائی نہ کرنا جیسے نصاری نے عیسی ؑابن مریم کے بارے میں مبالغہ آرائی کی اور الوہیت کے منصب تک پہنچادیا، انہیں ابن اللہ کہا،میں صرف اللہ کا بندہ ہوں اس واسطے مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہنا‘۔

 درحقیقت ہواپرست علماء نے شکم پروری کے لیے مداہنت کاپہلو اختیارکیاجس سے لہوولعب، ڈھول تماشے، بے حیائیاں، مردوزن کااختلاط، قرآن وسنت کے احکام وفرامین کاکھلا مذاق اور پھر دین ومذہب کے نام پر بھولی بھالی عوام کا استحصال کیا گیا۔ محبت کیاچیز ہوتی ہے شایدمعلوم نہیں ؟اصل محبت یہ ہے کہ اللہ اوررسول کے فرمان کو زندگی میں برتاجائے، اس سے سرموانحراف نہ کیا جائے۔ محبت وعقیدت کاتقاضہ یہی ہے کہ جس سے محبت کادعویٰ کیاجارہاہے اس کے ہرحکم کوسرآنکھوں پر رکھاجائے۔ آج کے جھوٹے محبت کے دعوے داروں کی طرح نہیں کہ دن رات مختلف آلائشوں میں رہیں، نمازوروزہ کاکوئی پاس نہ ہو۔ بس سال میں ایک بار محبت کی نام پرخواہش نفسانی کا اظہاراوراسراف وتبذیر کا وطیرہ اپنایاجائے جوکہ سراسر اسلام اوررسول کے فرمان کے خلاف ہے۔

تبصرے بند ہیں۔