انسان قرآن کے آئینہ میں (قسط دوم)

ندرت کار

پانچویں صفت :عجلت و جلد بازی

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَكانَ الإِنسـٰنُ عَجولًا ١١ ﴾… سورة الاسراء

"اورانسان بہت جلد باز ہے”

نیز اس کا ارشاد ہے:

﴿خُلِقَ الإِنسـٰنُ مِن عَجَلٍ ۚ سَأُو۟ر‌يكُم ءايـٰتى فَلا تَستَعجِلونِ ٣٧ ﴾… سورة الأنبياء

"انسان جلد بازی سے پیدا کیا گیا ہے، میں تمہیں اپنی نشانیاں دکھاؤں گا لہٰذا مجھ سے جلد بازی نہ کرو”
بے شک انسان بہت جلد باز ہے۔ وہ کاموں کے انجام کونہیں جانتا۔ کبھی برائی کے لئے جلدبازی کرتا ہے اور نادانی سے اپنا ہی برا کر ڈالتا ہے۔ وہ اپنے سرکش نفس کو لگام نہیں دے پاتا اور اپنی خواہش نفس کے لئے جلد بازی کرتا ہے۔ لیکن موٴمن پرسکون و مطمئن رہتا ہے اور اپنے ربّ پر بھروسہ کرتا ہے۔ بلاشبہ بردباری اور طبیعتکا ٹھہراؤ شرفاء کی صفت ہے۔ رسول اللہﷺ نے بنوتمیم کے سردار سے فرمایا:

"تمہارے اندر دو ایسی عادتیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے: بردباری اوراطمینان” (بروایت مسلم، ابوداود، ترمذی اور احمد)
لہٰذا بردباری اور ‘ثبات’ ان عقلمندوں کی صفت ہوتی ہے جن کی عقل میں ایسے تمام اُمور کو سلجھانے کی صلاحیت ہوتی ہے جن میں کم عقل صبر نہیں کرپاتا۔ وہ نتیجے کا انتظار نہیں کرتا کیونکہ اس کا دل بڑے کاموں کو برداشت نہیں کرتا اور نہ کسی بات پر صبر کر پاتا ہے۔ بہت جلد بھڑک اٹھتا ہے اور وقت سے پہلے نتیجے کے لئے جلد بازی کرتا ہے

چھٹی صفت:بخل و کنجوسی

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿قُل لَو أَنتُم تَملِكونَ خَزائِنَ رَ‌حمَةِ رَ‌بّى إِذًا لَأَمسَكتُم خَشيَةَ الإِنفاقِ ۚ وَكانَ الإِنسـٰنُ قَتورً‌ا ١٠٠ ﴾… سورة الاسراء

"آپ فرما دیں کہ اگر میرے ربّ کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہو جاؤ تو خرچ ہوجانے کے خوف سے اسے روک رکھو گے اور انسان بڑا کنجوس ہے”

بیشک اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت اور اس کا بڑا فضل اور آسمان و زمین کی بادشاہت اور دولت کے خزانے اگر اس انسان کے ہاتھ میں آجائیں تب بھی وہ کنجوسی کرے گا۔ اسے خدشہ لاحق رہے گا کہ کہیں صرف نہ ہوجائیں ۔ وہ ہوس کی وجہ سے انہیں دبا کر رکھے گا۔انسان کنجوس و بخیل ہے لیکن جس نے اپنے فضل کی سخاوت، ہمدردی اور خیرخواہی پر تربیت پائی ہو اور اس کی عادت بنائی ہو وہ بخل و کنجوسی جیسی عادات اور فضائل سے محفوظ رہتا ہے۔ سخاوت، حسن سلوک اور ہمدردی اللہ کی محبوب صفات ہیں اوریہ اسی کے اَوصاف ہیں ۔ وہ اہل سخاوت کو دوست رکھتا اور بخل کو چھوڑ دینے کی دعوت دیتا ہے۔ اس کا ارشاد ہے:

﴿الَّذينَ يَبخَلونَ وَيَأمُر‌ونَ النّاسَ بِالبُخلِ ۗ وَمَن يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الغَنِىُّ الحَميدُ ٢٤ ﴾… سورة الحديد

"جو (خود بھی) بخل کرتے اور دوسروں کو (بھی) بخل کا حکم دیتے ہیں اور جوکوئی پیٹھ پھیرے گا تو بیشک اللہ بے نیاز اور حمد وثنا کا حقدار ہے”

لہٰذا سخی اللہ کا اور لوگوں کا پیارا ہے اور بخیل اللہ کے نزدیک اور لوگوں کے نزدیک ناپسندیدہ شخص۔

انسان کی فطرت کی صفات، قران کے آئینہ میں ۔(7)

ساتویں صفت :

جہالت و نادانی
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

﴿إِنّا عَرَ‌ضنَا الأَمانَةَ عَلَى السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَر‌ضِ وَالجِبالِ فَأَبَينَ أَن يَحمِلنَها وَأَشفَقنَ مِنها وَحَمَلَهَا الإِنسـٰنُ ۖ إِنَّهُ كانَ ظَلومًا جَهولًا ٧٢ ﴾… سورة الاحزاب

"ہم نے امانت آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں پر پیش کی تو انہوں نے اسے اُٹھانے سے اِنکار کردیااور ڈر گئے اور انسان نے اسے اُٹھا لیا، بیشک وہ بڑا ظالم نادان ہے”

یہ ایک اہم ذمہ داری ہے جسے انسان نے اپنے شانوں پر اُٹھا لیا ہے۔ یہ ایسی امانت ہے جسے اٹھانے سے آسمان و زمین اورپہاڑ ڈر گئے اور اسے انجام دینے سے انکار کردیا۔ لیکن کمزور، نادان، کم علم، کم فہم، کوتاہ قد اور جذبات و خواہشات اورحرص وہوس سے بھرپور انسان نے یہ خطرہ مول لیا اور اس بھاری اوراہم ذمہ داری کو اپنے کمزور کندھے پر اُٹھا لیا۔

اس نے اپنے اوپر ظلم کرلیا اور اپنی سکت اور طاقت کے بارے میں جہالت اور کم علمی کا شکار رہا۔ خود ہی یہ بھاری ذمہ داری اپنے اِرادہ اور رضا و رغبت سے اُٹھالی۔ اب اگر اسے پوری کرے اور اس کے واجبات ادا کرے، تو عزت افزائی اور ہمیشہ کی نعمتوں کا اہل ہوگا۔ لیکن اگر اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے سے کوتاہی کرے اورامانت کے واجبات پورے نہ کرے تو اس کے لئے دردناک عذاب کی وجہ سے ہلاکت ہے اوریہ ہلاکت آسمانوں اور زمین کے زبردست مالک کے غضب کی وجہ سے ہے کیونکہ اس نے اس امانت میں خیانت کی ہے جس کا بار خود اپنے اوپر اپنی پسند سے ڈال لیا۔ یہ زبردست ذمہ داری اور اہم امانت کواٹھاناانسان کی بڑی نادانی اور اندھا پن تھا، اسی لئے وہ بڑا ظلم اور نادان قرار دیا گیا ہے۔

آٹھویں صفت:بھول اور نسیان

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَإِذا مَسَّ الإِنسـٰنَ ضُرٌّ‌ دَعا رَ‌بَّهُ مُنيبًا إِلَيهِ ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعمَةً مِنهُ نَسِىَ ما كانَ يَدعوا إِلَيهِ مِن قَبلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ أَندادًا لِيُضِلَّ عَن سَبيلِهِ ۚ قُل تَمَتَّع بِكُفرِ‌كَ قَليلًا ۖ إِنَّكَ مِن أَصحـٰبِ النّارِ‌ ٨ ﴾… سورة الزمر

"جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے ربّ کو دھیان دے کر پکارتا ہے اور جب وہ اسے اپنی کسی نعمت سے نواز دیتا ہے تو جس (تکلیف) کے لئے پہلے پکارتا تھا اس (کے اِزالے) کو فراموش کردیتا ہے اور اللہ کا شریک بنانے لگتا ہے تاکہ اس کے راستے سے گمراہ کرے۔ آپﷺ فرما دیں کہ اپنے کفر کا تھوڑا سا فائدہ اُٹھالو، بے شک تم جہنم والوں میں سے ہو”
نیز اس کا ارشاد ہے:

﴿فَإِذا مَسَّ الإِنسـٰنَ ضُرٌّ‌ دَعانا ثُمَّ إِذا خَوَّلنـٰهُ نِعمَةً مِنّا قالَ إِنَّما أوتيتُهُ عَلىٰ عِلمٍ ۚ بَل هِىَ فِتنَةٌ وَلـٰكِنَّ أَكثَرَ‌هُم لا يَعلَمونَ ٤٩ ﴾… سورة الزمر

"جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے پھر جب ہم اسے اپنی کوئی نعمت دیتے ہیں تو کہتا ہے کہ میں نے اسے علم کی بدولت حاصل کیا ہے بلکہ یہ ایک آزمائش ہے لیکن ان میں زیادہ تر اسے نہیں جانتے”
اس کا یہ بھی ارشاد ہے:

﴿وَلَقَد عَهِدنا إِلىٰ ءادَمَ مِن قَبلُ فَنَسِىَ وَلَم نَجِد لَهُ عَزمًا ١١٥ ﴾… سورة طه

"اور اس سے پہلے ہم نے آدم سے اقرار لیا تو وہ بھول گیا اورہم نے اس میں عزم نہیں پایا”

بے شک بھول اور نسیان انسان کی فطرت و سرشت میں داخل ہے۔ اور اگرچہ یہ اس لحاظ سے انسان کے لئے ایک نعمت ہے کہ اس کیفکرو مصائب کو فراموش کرا دیتی ہے اور ان کی یاد آنے نہیں دیتی۔ لیکن اگر وہ اسی اِقرار کو فراموش کردے اور اس وعدے کو وفا نہ کرے جس کا اس سے وعدہ لیا گیا ہے تو اس کے لئے ایک عذاب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے اپنی عبادت کرنے اور شرک نہ کرنے کا اقرار لیا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب سے اس کو بیان کرنے اور لوگوں سے نہ چھپانے کا عہد و پیمان لیا تھا۔ جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تونیک اَعمال کا پابند بن جاتا ہے اوراپنے ربّ کو مشکل وقت میں یاد کرتا ہے اور جب اللہ اسے کسی نعمت سے نوازتا ہے تو پھر وہ اللہ تعالیٰ سے غافل ہوجاتاہے، اپنی دعا و پکار کو فراموش کردیتا ہے اور اپنے نفس اور خواہش کا بندہ بن جاتا ہے۔ مشکل میں اپنے ربّ کوپکارنا اور رونا انسان کی ایسی فطرت ہے جو صرف مشکل کے وقت ظاہر ہوتی ہے اسلئے پائیدار نہیں ہوتی۔ اللہ کا ارشاد ہے:

﴿وَإِذ أَخَذَ رَ‌بُّكَ مِن بَنى ءادَمَ مِن ظُهورِ‌هِم ذُرِّ‌يَّتَهُم وَأَشهَدَهُم عَلىٰ أَنفُسِهِم أَلَستُ بِرَ‌بِّكُم ۖ قالوا بَلىٰ ۛ شَهِدنا ۛ أَن تَقولوا يَومَ القِيـٰمَةِ إِنّا كُنّا عَن هـٰذا غـٰفِلينَ ١٧٢ ﴾… سورة الاعراف

"اور اس وقت کو یاد کرو جب تمہارے ربّ نے بنوآدم (انسانوں ) کی پشت سے ان کی ذرّیت کو لیا اور انہیں ان کے اوپر شاہد بنایا کہ کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں ؟ سب نے کہا: کیوں نہیں ! ہم شاہد ہیں (یہ عہد اس لئے لیا) کہ قیامت کے روز یہ نہ کہو کہ ہم ان سے غافل رہ گئے”
اور اس نے فرمایا:

﴿وَإِذ أَخَذَ اللَّهُ ميثـٰقَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنّاسِ وَلا تَكتُمونَهُ فَنَبَذوهُ وَر‌اءَ ظُهورِ‌هِم وَاشتَرَ‌وا بِهِ ثَمَنًا قَليلًا ۖ فَبِئسَ ما يَشتَر‌ونَ ١٨٧ ﴾… سورة آل عمران

"اور اس وقت کو یاد کرو جب اللہ نے ان سے اقرار لیا جو کتاب دیئے گئے کہ تم ضرور لوگوں کے لئے اسے بیان کرو گے اور چھپاؤ گے نہیں تو انہوں نے اسے پس پشت ڈال دیا اور اس کے عوض تھوڑی قیمت خرید لی تو وہ کیا ہی بری چیز خرید رہے ہیں !”
قارون نے کہا کہ مجھے ‘مال’ اپنے علم کی بدولت دیا گیا اور اس زمانے میں بہت سے لوگ جو مال یا جاہ و جلال یا علم وغیرہ کے فریب میں ہیں ، وہ اس نعمت کے سرچشمے کو جس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ، فراموش کر بیٹھے ہیں ۔

انسان کی بھول اس وقت نمایاں طور پر ظاہر ہوجاتی ہے جب سختی اور ابتلاء کی منزل کو عبور کرکے عیش و آسائش حاصل کرلیتا ہے۔ اگر اسے یہ علم ہوجائے کہ یہ آرام و راحت، یہ مال و جاہ اور یہ منصب وعلم ایک آزمائش اور امتحان ہے تو وہ اپنے ربّ کو نہیں بھولے گا اور اس کے ایمان اور جذبہ شکر میں اضافہ ہوجائے گا لیکن اس بھول اور نسیان کو تو انہوں نے اپنے باپ دادا سے وراثت میں پایا ہے، جن سے اس کے پروردگار نے عہد لیا تو بھول گئے۔ یہ ان کی اولاد کی طبیعت اور فطرت بن چکی ہے مگر اللہ تعالیٰ جس کی حفاظت فرما دے۔ (جاری ہے)

تبصرے بند ہیں۔