جشن آزادی کا مقصد اور ہماری ذمہ داری

مولاناعبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

حریت وآزادی ،ایک بیش بہا نعمت،قدرت کا انمول تحفہ اورجینےکا اصل احساس ہے،اس کے برعکس غلامی وعبودیت ایک فطری برائی، کربناک اذیت اور خوفناک زنجیر ہے؛ جس میں زندگی بدسے بدترہو جاتی ہے،جائز اختیارات تک سلب کر لیے جاتے ہیں اورانسان زندہ لاش بن کررہ جاتاہے؛ یہی وجہ ہےکہ بنی نوع انسانی کےساتھ ساتھ حیوانات بھی اپنی اپنی بساط کے مطابق غلامی کی زنجیروں کو توڑنے اور آزاد فضاء میں سانس لینے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔

اور اس بات سےبھی کسی کو مجال انکار نہیں کہ جس طرح شخصی آزادی ،نہایت اہم اورلابدی امرہے اس سے کئی گنازیادہ اجتماعی آزادی کی اہمیت وضرورت ہے ۔ہردانش مند قوم اس کے لئے کوشش کرتی ہے اوراپنے تن من دھن کی بازی لگادینے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔

اس وقت کو یاد کیجیےجب جنت نشاں ہندوستان میں سات سمندر پار سے بغرض تجارت آنے والی انگریز قوم کی مسلسل سازشوں، ریشہ دوانیوں اور مقامی لوگوں کی غداریوں کی بناءپر مسلمانوں کی حکومتیں یکے بعد دیگرے ختم ہوتی چلی گئیں اورملک پران کا تسلط قائم ہوگیاتوعلماء وقت کی پیہم کو ششوں اور مسلسل فکروں کے نتیجے میں 15اگست 1947ء کا سورج برصغیر کے باشندوں کے لیے آزادی کا پیامبر بن کر طلوع ہوا اور مسلمانوں کو انگریزی سامراج کے پنجۂ استبداد ہمیشہ کے لیے نجات ملی ۔اس حوالے سے نواب سراج الدولہ سے لے کر سلطان ٹیپو شہید اور آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر تک کی داستاں ہماری تاریخ حریت و آزادی کی لازوال داستان ہے، 1857ء کی جنگ آزادی کے المناک واقعات بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔

ہر سال باشندگان وطن 15اگست کو ملک کی آزادی کا جشن جوش و خروش سے منا تے ہیں، ملکی سطح پر ہر علاقے میں رنگ برنگی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں جبکہ عوام الناس بھی اپنے طور پر جلسے جلوس کاا نعقاد کرتے ہیں، ان پر جوش تقریبات کے بعد ہم پھر ایک سال کے لئے خاموش ہو جاتے ہیں؛ حالانکہ جشن آزادی تجدید عہد کا دن ہے اور ہمیں اجتماعی طور پر15اگست کےدن اس عہد کو دہرانا چاہیے کہ جس مقصد کے لئے ہم نے لاکھوں قربانیاں دے کر یہ وطن عزیز حاصل کیا تھا ہم اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اسی جذبہ سے کام کریں گے جو جذبہ تحریک آزادی کے وقت تھا۔

ایک وقت وہ تھا جب ہم نے انگریزوں سے ملک کے استخلاص کےلئے کوششیں کیں تھیں ؛جس کی یاد میں ہم یہ دن منارہےہیں اورایک وقت یہ ہے کہ ہمارا ملک شدید بحران سے گزر رہاہے، فرقہ پرست عناصر اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے نہ قانون کا خیال کر رہے ہیں نہ ہی انسانیت کے اصولوں کو مان رہے ہیں، اسلام اور مسلمانوں کو ہر ممکن نقصان پہنچا نےپرتلےہوئے ہیں ،متعصب لوگ مدارس اسلامیہ اور مساجد و مکاتب کے خلاف ایک منظم تحریک چلائے ہوئے ہیں، جب سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت بنی ہے، اس کے بعد سے مدارس، مساجد اور مسلمانوں کے کردار کو مسخ کیا جارہا ہے اور اسلامی تشخص کو ختم کرنے کی مہم میں زبردست اضافہ ہوچکا ہے، زعفرانی تنظیموں سے تعلق رکھنےوالےلیڈروں کے اشتعال انگیز بیانات نے مدرسوں کے وجود کے لئے خطرہ پیدا کر دیا ہے ،ایسےمیں ہمارا صرف رسمی طور پر جشن آزادی منالینا کہ ہم قومی جھنڈے میں کچھ پھو ل لپیٹ کر رسمی طورپر ہوا میں اُڑائیں، اسے سلامی دیں، قومی ترانہ گائیں، ایک دوسرے کو مبارک باد دیں اور اسکول کے بچوں کے درمیان کچھ شیرینی تقسیم کردیں وغیرہ شاید ایک بےفائدہ اور بے مقصد عمل ہے۔

 جشن آزادی منانے کا یہ طریق کار نہ تو ہمارے قومی جذبات کو پختگی عطا کرسکتا ہے اور نہ جدو جہدآزادی کےجیالوں کے تئیں کسی عقیدت و احترام کا جذبہ بیدار کرسکتاہے اور نہ ہی تحریک آزادی کے دوران پیش آنے والی قربانیوں کا کوئی احساس دلاسکتا ہے، انگریزوں کے مظالم کی داستان سامنے لائے بغیر اس آزادی کی قدر قیمت کا احساس نہیں دلایا جاسکتا، حب الوطنی اور قومیت کے جذبات اس وقت تک ماند رہیں گے جب تک تحریک آزادی کی مکمل داستان بلاکم و کاست موجود نہ ہو،ساتھ ہی یہی وہ موقع بھی ہوتا ہے جب ہم گذشتہ 70 سال کی اپنی قومی پیش رفت، ترقی و بہبود کی رفتار، آزادی کے ممکنہ ثمرات اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ملک کی سالمیت کی بقا کے سلسلے میں اپنی کاوشوں کا محاسبہ کریں ، جشن آزادی محض ایک رسم کا نام نہیں ہے؛ بلکہ اسی محاسبے کا نام ہے۔

 اس میں شک نہیں کہ واقعی یہ دن فرحت و شادمانی کا دن ہے؟ لیکن ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے اکابر و اسلاف کی قربانیوں کی تاریخ پڑھیں ، ان کی حیات و خدمات کا مطالعہ کریں ، ان کی صفات و خصوصیات اپنے اندر جذب کرکے اس کے نقش قدم پر چلنے کا حوصلہ پیدا کریں اور برادران وطن کو علماء اور مسلمان مجاہدین کی وطن پرستی،اور وطن کے لیے جذبہ صادق اور تڑپ سے روشناس کرائیں ، انھیں بتائیں کہ اگر آزادی وطن کی تاریخ سے علماء کرام کی خدمات کو نکال دیا جائے تو تاریخ آزادی کی روح ختم ہوجائے گی ،اخیرمیں حضرت مولانا محمد میاں صاحب ؒکی اس چشم کشا تحریرپرقلم روکتاہوں ؛جس میں تحریک آزادی کے حوالےسے علماء کے روشن کردارکو اچھوتے طرزاور دل کش اسلوب میں بیان کیا گیاہے،ارقام فرماتے ہیں کہ :

” اسی اغراض پرستی اور طوائف الملوکی کے دور میں تحقیق و تفتیش کی ندرت آفرینی اورتلاش و جستجو کی عجائب نوازی، ہمیں ایک جماعت سے روشناس کراتی ہے ، جس کے جذبات مقدس ، مقاصد بلند اور جس کی جدوجہد ہر قسم کے شبہ سے پاک ہے، بادشاہوں ، شاہزادوں ، نوابوں اور راجاوٴں کے متعلق بجا طور پر جاگیر شاہی کی زریں تمناوٴں کا شبہ کیا جاسکتا ہے؛لیکن اس جماعت کا دامن ایسے تمام داغوں سے پاک ہے یہ جماعت نہ اقتدار کی، نہ حکومت و سلطنت کی آروز مند، نہ اعزازو اکرام اور اعلی خطابات کی ہوس اس کے دامنوں سے الجھی ہوئی، اس کے سامنے صرف وطن ہے ، باشندگان وطن ہیں ، وطن عزیزکی حفاظت ، اہل وطن کی ہمدردی اور اپنے ملک کی تعمیر و ترقی ہے یہی ان کا نصب العین ہے ، اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اس دین ومذہب کی حفاظت بھی ضروری سمجھتے ہیں ، جس سے ان کے پاک نفوس میں یہ پاکیزہ جذبات پیدا کیے” یہ علماء ہند کی جماعت ہے“وہ جماعت کہ اگراس کے فکر سلیم اور جذبہ صادق کا اعتراف نہ کیا جائے، اور اگر تاریخی واقعات کی ترتیب اور ان کے سلسلہ میں سے اس جماعت کی سنہری زنجیر کو نکال دیا جائے تو نہ صرف یہ کہ با اخلاص اور ایثار شیوہ جماعت کے حق میں ، ناانصافی ہوگی؛ بلکہ حق یہ ہے کہ وطن عزیز کے حق میں خیانت اور ایثار و قربانی کی پوری تاریخ پر ایک بہت بڑا ظلم ہوگا اس جماعت نے اٹھارہویں صدی کے وسط سے رفتار زمانہ کو بھانپ کر جو نظریہ مرتب کیا وطن عزیز کی ترقی اورکامیابی کے لیے جو تدبیریں سوچیں اور جس طرح ان پرعمل کیا وہ ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے“(علماء ہند کا شاندار ماضی :57)

مختصر یہ کہ یوم آزادی خود فراموشی کا نہیں ، خوداحتسابی کادن ہے، حوصلہ ہارنے کا نہیں تجدیدِ عزم وہمت کادن ہے۔

اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں

ہم تجھے آگ کا دریا نہیں بننے دیں گے

ظلم و نفرت کا تماشہ نہیں بننے دیں گے

تجھ کو پالیں گے محبت کے گلستانوں میں

اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔