مسلمان دیش بھکت کیو ں ہونے لگے ؟

  صفدر امام قادری

ہندستان میں جیسے جیسے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کی مرکز سے صوبوں میں توسیع ہوتی جارہی ہے، جارح وطنیت کے نام پر مسلمان قوم اور ان کے اداروں کو مشتبہ بنا نے کی کوشش بڑھ رہی ہیں ۔

 حکومتِ اتّر پردیش کے محکمئہ تعلیم نے تمام مدارسِ اسلامیہ کے انتظام کاروں کو یہ حکم نامہ ارسال کیا ہے کہ وہ پندرہ اگست یومِ آزادی کے دن اپنے ادارے میں مندرجہ ذیل کاموں کی انجام دہی لازمی طور پر کریں :

 1-اپنے ادارے میں پرچم کشائی کریں ۔

 2-راشٹرگان کو گائیں ۔

 3-ثقافتی پروگرام منعقد کریں ۔

 4-تمام پروگراموں کی ویڈیو گرافی کرائیں اور محکمۂ تعلیم کو اس کی کاپی فراہم کریں ۔

 ابھی تک دیگر سرکاری، غیر سرکاری،اسکولوں ، کالجوں ،وزارت کے شعبہ جات،انجینیر نگ،میڈیکل کالج،سڑک اورفٹ پاتھ دکان داروں یا بازار اور مال(mall) کے کارندوں کو ایسی کوئی نوٹس نہیں بھیجی گئی ہے۔ممکن ہے، سرکار آنے والے وقت میں ا س نوٹس کو مندر ،مسجد،گرودوارااور چرچ وغیرہ کے اہل کاروں تک بھی پہنچائے تا کہ ہر شخص مذکورہ کاموں کوسرکاری حکم نامے کے زیرِ اثر انجام دیں ۔اس کا مقصد شاید یہ ہے کہ حکومت تمام لوگوں کو وطن پرستی کادرس دینا چاہتی ہے اور اس میں کسی طرح کو تاہی کو پسند نہیں کرتی۔

  عظیم آباد میں پیدا ہوئے او ر لکھنؤ کی خاک میں پیوست اردو کے ایک طرحدار غزل گو یگانہ چنگیزی کا ایک مطلع یاد آتا ہے:

 سب ترے سوا کافر ؛آخر اس کا مطلب کیا؟

سر پھرا دے انساں کا؛ ایسا خبطِ مذہب کیا؟

  ملک کا نام’ ہندستان‘ ہے اور بسنے والی قوم کا نام’ ہندو‘؛ایسے میں اس کے علاوہ تمام اقوام وطن مخالف ،وطن دشمن،غدّار اور لٹیرے۔اس لیے دیگر اقوام کو اپنی وطن دوستی کے لیے ثبوت فراہم کرنا لازمی ہے،آپ کی وطنیت کی مشتبہہ صورتِ حال پر فیصلہ ہر وہ شخص کر سکتا ہے جس کا تعلق ’ہندو‘ قوم سے ہے۔اس کے لیے جج ، وکیل ،قانون ،آئین کی ضرورت نہیں ۔ جمہوری نظام کے تحت دنیا کے شاید ہی کسی گوشے میں اقلیت آبادیوں کے ساتھ ایسے مسائل پیدا ہوتے ہوں گے مگر اب تو ہندستان مستقل طور پر اسی راستے پر چل پڑا ہے۔

 آزادی کی لڑائی کے دوران انگریزاور ان کی ہاں میں ہاں ملانے والے بعض ہندستانی مورخین نے ’’نیشنلسٹ مسلمان‘‘کی اصطلاح وضع کی تھی جو حقیقت میں کانگریس پارٹی کے طرفداروں کے لیے بنائی گئی تھی۔کانگریس نے مسلم لیگ سے الگ رہنے اور اس کی طرفداری کرنے والوں کو ’قومی مسلمان‘کہا تھااور اس اصطلاح کو زبان زد کرنے میں کامیابی پائی تھی۔یہاں بھی جو افراد کانگریس سے الگ تھے،وہ فطری طور پر ’غیر نیشنلسٹ‘قرار پائیں گے۔مطلب یہ ہوا کہ کانگریس کے ساتھ رہو تووفادارِوطن اور اگر دوسری طرف گئے تو غدّارِ وطن۔تاریخ کی کتابوں کے اوراق اس کی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں ۔یہاں بھی ہندو قوم کو وفاداری کا کوئی ثبوت نہیں دینا ہے کیوں کہ وہ وفادارِوطن اور قوم پرست پیدا ہوتے ہیں ۔ان کا خون وطن پرستی کے جذبے سے سر شار ہے۔دوسروں کے سرخ خون میں یہ بات ازخود نہیں آتی ۔

  کانگریس نے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ’راشٹروادی ‘اور’ غیر راشٹروادی‘مسلمانوں کی پہچان کی تھی۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اُس زمانے میں ہندوؤں میں ایک ایسا بڑا طبقہ بھی موجود تھاجو کانگریس کے ساتھ نہیں تھا۔مگر کبھی ’راشٹروادی ہندو‘کی اصطلاح نہیں گڑھی گئی۔اس کا یہ بھی مطلب ہوا کہ کانگریس نے سیاسی فائدے کے ساتھ ساتھ سماجی اور مذہبی تقسیم کی بنیادیں اُسی زمانے میں پہچان لی تھیں ۔مہاتما گاندھی اکثرکانگریس میں موجود’ ہندووادی‘طبقے کی مذمت کرتے رہتے تھے۔مگر آزادی کے بعد جواہر لال نہرو جنھیں سب سے سیکولر اورریڈیکل رہنما سمجھا جاتا تھا،انھی کی وزارت ِعظمیٰ کے دوران آزادی کے بعد انھی سیاسی /  غیر سیاسی بنیادوں پر مذہبی تقسیم اور منافرت کے بیج بوئے گئے۔

 ہم اکثر بھول جاتے ہیں کہ آزادی کی جنگ کے فیصلہ کُن دور میں اور آزادی کے بعد ایک طویل مدّت تک آر۔ایس ۔ایس ۔یا ہندو مہاسبھا کی ایسی کچھ توسیع نہیں تھی کہ ہندستانی مسلمانوں کے خلاف وہ کوئی ملک گیر مہم چلا لیں اور انھیں مکمل طور پراس میں کامیابی مل سکے۔ایسے تمام منافرت کے کا م کانگریس نے خود ہی کیے۔آلِ احمد سرور نے آزادی کے بعد اترپردیش میں گووند بلبھ پنت کے دور کو یادکرتے ہوئے لکھا ہے کہ فرقہ پرست جماعتوں کا انھیں اس طرح سے تعاون حاصل تھا کہ ان کے خلاف نہرو بھی کچھ نہیں کر سکتے تھے۔یعنی دہلی میں سیکولر حکومت ہونے کے باوجودلکھنؤ میں فرقہ وارانہ ذہنیت کا بول بالا تھا۔اسی زمانے سے اترپردیش کی سیاسی زمین میں فرقہ واریت اور مسلم دشمنی کے بیج پنپ رہے ہیں اور اب ان کی فصلیں لہلہا رہی ہیں ۔بابری مسجد کے سلسلے کے بھی سارے کھیل تماشے اتر پردیش میں ہوئے اور کانگریس کی براہِ راست نگرانی میں ہوئے۔آج بھی بی جے پی کے جو فرقہ پرست عناصر اتر پردیش میں ادھر ادھر نظر آتے ہیں ،ان میں سے اکثر کی پچھلی پیڑھی کانگریس کی اسی فرقہ پرست ذہنیت کی عکاس ہے اور اسے ناگپور یا گجرات کے افراد نے بس پولش اور وارنش چڑھایا ہے۔

 بھارتیہ جنتا پارٹی کی جارح قومیت یا ہندو واد بے شک کانگریس کی پہلی اور دوسری نسل کی پیدا کردہ وہ خصوصیت ہے جسے موقع ملتے ہی ہر حکومت اپنے فائدے کے لیے آزماتی ہے۔لوگوں کو کٹّر غیر فرقہ پرست بائیں محاذکی مغربی بنگال کی حکومت کی کارکردگی یا دہونی چاہیے جہاں اقلیت آبادی کو تعلیم اور ترقی سے کچھ اس طرح الگ تھلگ رکھا گیاجہاں سے وہ طبقہ کبھی آگے بڑھ ہی نہیں سکتا۔مطلب یہ کہ ہندستان میں حکومت کرنے کا ایک فرقہ پرستانہ طور وضع کیا گیا جے آج نریندر مودی کی قیادت میں زیادہ موثر،پرو فیشنل اور جارح انداز میں انجام دیا جارہاہے۔

  ابھی ابھی جناب حامد انصاری نے ایک سوال کے جواب میں مسلمانوں کے بیچ عدم تحفظ کی صورت ِحال کا اظہار کیا تووزیراعظم سے لے کر ایک عام ہندو تک کو سخت ناگوار معلوم ہوا۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سابق نائب صدر بڑے نپے تُلے اور اپنے ڈپلومیٹک انداز میں گفتگو کر رہے تھے اور انھوں نے ابھی تک ’قوم پرستانہ‘انداز کے بجائے ڈپلو میٹک انداز سے ہی زندگی گزار رہی ہے مگر ملک کی موجودہ صورتِ حال کے بارے میں ایک تشویشناک جملہ پوری حکومت کو گراں گزری۔

مگر ٹھیک اس کی مخالف صورتِ حال پر غور کیجیے۔ہندو مہا سبھا اور آر۔ایس ۔ایس ہندستان کی جنگِ آزادی کے فیصلہ کُن دور میں الگ رہے۔1942ء کی تحریک میں جیل سے معافی مانگ کر سابق وزیرِ اعظم اتل بہاری باجپئی باہر نکل جائیں تو وہ قوم پرست ہی کہے جائیں گے کیوں کہ ان کا مذہب ہندو ہے ۔ایمرجنسی کے زمانے میں کانگریس مخالف تحریک میں بھی آر ۔ایس ۔ایس ۔کے افراد کی بڑی تعداد الگ تھلگ رہی۔مگر پھل پانے کے لیے سب سے پہلے وہ موجود تھے اور1977 کی مرکز ی اور صوبائی حکومتوں میں ان کی شرکت نے ان کی آئندہ کی حکمتِ عملی ظاہر کر دی ۔وہ چوں کہ پیدائشی دیش بھکت ہیں ،اس لیے انھیں اپنی ہزار غدّار یوں کے باوجود وطن پرستی کا تمغہ ملا ہوا ہے۔

 بھارتیہ جنتا پارٹی نے نہایت منظم طریقے سے کانگریس کے فرقہ وارانہ کاموں کو اپنے ہاتھوں میں لیا۔آزادی کے بعد سے ہی ’جشنِ آزادی‘اور ’جشنِ جمہوریت‘کی تقریبات اسکول اور کالجوں میں بڑے اہتمام سے منایا جاتا تھااور خاص طور سے شہیدانِ آزادی کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کی روایت تھی۔اسکول کے بچّے شوق اور خاص طور سے ترنگے کے رنگوں کے حُسن سے متاثر ہو کر ہاتھ میں ترنگا لے کراسکول جاتے اور واپس ہوتے تھے۔اسے غیر ضروری طور پر وطن سے محبت اور ’راشٹر واد ‘ سے اُس زمانے میں نے میں نہیں جوڑا جاتا تھا۔مگر جس کے گھر میں ترنگا نہیں پھہرایا جاتا تھا،اسے کانگریسی بھی وطن دشمن یا غدّارِ وطن نہیں سمجھتے تھے اور نہ ایسے الزامات عاید کرتے تھے۔

 آر۔ایس۔ایس نے ہمارے دونوں قومی تہواروں کو نمایش کا ذریعہ بنا کر اغوا کیا۔پہلے اپنے اسکولوں بالخصوص سرسوتی ششو مندر ،ڈی۔اے۔وی۔ میں جارح وطن پرستی کے مظاہرِ کیے گیے اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش شروع ہوئی کہ ان قومی تہواروں میں دکھاوے کے انداز کو اگر آپ نے روا نہیں رکھا تو آپ وطن پرست نہیں ۔اس کی کسی نے مخالفت بھی نہیں کی۔کیوں کہ ہمیں یاد نہیں رہا کہ15 اگست 1947ء کی آزادی کی تقریب میں مہاتما گاندھی شریک نہیں ہوئے اور اس سے بڑے کام یعنی نواکھالی میں فساددگان کے بیچ ان کے زخموں پر مرہم لگاتے رہے۔کیا مہاتماگاندھی غدّار تھے یا وطن پرست تھے؟

1960ء کے دور میں بہار کے سب سے پرانے کالج پٹنہ کالج میں جشنِ آزادی کے تقریب کے بعد طلبہ کے درمیان لڑائی ہو گئی اور بانس میں بندھا ترنگاگر گیا اور مار پیٹ میں پھٹ گیا۔پولس نے گولی چلا دی اور ایک طالبِ علم کی موت ہوگئی۔جے پرکاش نرائن نے حکومت اور پولس انتظامیہ کے خلاف مورچہ لیا اور جے۔پی۔نے اپنی تقریر میں یہ کہا کہ ترنگا جھنڈا کپڑے کے ایک ٹکرے سے زیادہ نہیں اور ایک نوجوان کی جان بہر طور اس سے زیادہ قیمتی ہے۔

آج کون ہے جو اس بے باکی سے نقلی وطن دوستی اور نام نہاد رشٹر واد کو بے نقاب کرے؟عقل وہوش کے ناخن ناجانے کیوں ہند پاک سرحد اور قومی تہواروں کے نام نہادرانہ وطنیت کے معاملے میں بے آسرا ہو جاتے ہیں ۔اب تو عدالتوں کا بھی ’قوم پرستانہ‘رجحان اجاگر ہو جاتاہے۔ایسے میں آنے والے وقتوں میں ہمیں یہ انتظام کرنا چاہیے کہ یوگی یاکسی دوسرے صوبے کے وزیرِ اعلا کی طرف سے یہ اعلان ہو کہ قومی تہواروں کے روز گیروا  وستر دھارن کرکے آنا ہوگا۔بین الاقوامی یوگ دِوس کا زور بھی بڑھے گااور پہلے سے ہی نعرہ موجود ہے :بھارت میں رہنا ہے تو وندے ماترم کہنا ہوگا۔اِسے صرف اسلام دشمنی نہیں سمجھیے۔حقیقت میں ’ہندواستھان‘کے یہ سب عناصرِ ترکیبی ہیں ۔

کانگریس اپنی نقلی ،ناسمجھ اور ادھ کچری قیادت کی وجہ سے سیاسی حاشیے تک پہنچ ہی چکی ہے۔حزب اختلاف میں چند دانش مند افراد موجود ہیں جنھیں آر۔ایس ۔ایس  کے آئندہ نشانات کو سمجھ کر لائحہء عمل تیار کرنا چاہیے۔صرف سرکار گرا دینے سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی جڑوں تک پہنچ چکی گہری پالیسیاں نہیں ختم ہونے والیں ؛ان سے عقلی مجادلہ کرنا ہوگا۔اس کے بغیر ہندستان قبیلائی عہد میں پہنچ جائے گا ۔اس کے تازہ آثار گورکھ پور مین 70 سے زاید بچّوں کا صرف آکسیجن گیس کی کمی کے سبب موت میں دیکھا جا سکتا ہے۔پرانے آثار کے طور پر گجرات کے نریندر مودی اور امت شاہ کے فساد میں ملوث ہونے میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔بہت غور وفکر، کشادہ دلی اور عدم تعجیل سے آج حکمتِ عملی قائم کرنے کی کوشش کرنی ہوگی ورنہ خدا خیر کرے!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔