جشن ریختہ : اردو کا پروگرام مگر اردو جیسا نہیں

 گذشتہ دو برسوں سے بڑھ کر اس بار 17؍ سے 19؍فروری کے درمیان دہلی میں جشن ریختہ منایا گیا۔ تین دن کے جشن میں رجسٹریشن کے اعداد و شمار اس بات کو پایۂ ثبوت تک پہنچاتے ہیں کہ سوا لاکھ سے زیادہ لوگ تین دنوں کے جشن میں شریک ہوئے۔ ایک ساتھ چار مخصوص مقامات پر 11؍بجے دن سے 11-10 ؍ رات تک ہزاروں کی تعداد میں شرکا کی موجودگی قائم رہی۔ کتابوں کی دکانوں سے لے کر نئے نئے ذائقوں کی بزم سجائے ڈھابوں میں بھی کبھی لوگوں کی کمی نہیں دیکھی گئی۔ نہایت سنجیدہ اور خالص ادبی موضوعات پر علمائے ادب اور دانشوروں کو دیکھنے، سننے اور بات چیت یا تبادلۂ خیالات کرنے والوں کی تعداد ہمیشہ مقررہ جگہوں سے زیادہ رہی۔ دیوانِ عام کو ریختہ نے خوب بڑا بنایا مگر ہر پروگرام میں لوگ ہزاروں کی تعداد میں زمین پر بیٹھے رہے اور ہر طرف سے کھڑے ہونے والے لوگوں کی تعداد بھی ہزاروں میں رہی۔

ریختہ کا جشنِ اردو ملک بھر کے مختلف طبقوں کے افراد کو جمع کرلینے میں حیرت انگیز طور پر کامیاب رہا۔ نئی نسل کے لڑکے لڑکیوں کی بھیڑ اگر ایک تہائی مان لیں تو ایک تہائی اُن ادھیڑ اور بزرگوں کی بھی بھیڑ تھی جو عمر کی ساٹھ یا اس سے بھی زیادہ بہاریں دیکھ چکے ہیں ۔ مختلف مضامین سے وابستہ ایسے افراد جنھیں ادب اور زندگی سے ایک علمی وابستگی ہے انھیں دیکھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا تھا کہ اس نسل نے اردو سے اپنی جذباتی وابستگی کو بہرطور قائم رکھا ہے۔ 70 اور 80 برس سے بڑھ کر اپنی عمر کی آخری منزلوں میں پہنچے ہوئے افراد بھی 10 ×فی صدی سے کم نہیں ہوں گے جنھیں وقت کی فراغت تو ہوگی مگر اپنی صحت اور ہزار معزوریوں کے باوجود سات سات اور آٹھ گھنٹے اپنے عہد کے ممتاز لکھنے والوں کو سنتے ہوئے دیکھنا اس بات کا بین ثبوت تھا کہ زبان اور ادب کے گہرے مسئلوں سے ان کی دلچسپی ایک ذرا کم نہیں ہوئی۔ مختصر وقفے کی وجہ سے ہال سے باہر نکلنے میں جگہ ملنے کی دشواری تھی، اس لیے ایسے بزرگ جلدی جلدی اپنے ذاتی ٹفن سے کھانا نکال کر کھا لیتے اور تازہ دم ہوکر اگلے مذاکرے میں ہمہ تن مصروف ہوجاتے۔

عام طور سے جشن کہنے سے ہی اہتمام اور احتشام کے جلوے سمجھ میں آنے لگتے ہیں ۔ اس کو پیمانہ بنائیں تو جشن ریختہ جیسا جشن اردو والے اب تک شاید ہی برپا کرسکے ہیں ۔ کسی ایک اجلاس میں بھی لوگ اُوب جائیں اور سننے والے اکتاتے ہوئے بولنے والے کی رخصت کا انتظار کریں ، ایسا شاید ہی کوئی لمحہ اس جشن میں کسی نے دیکھا ہوگا۔ افتتاحی اجلاس میں ہر جگہ اسٹارڈم اور غیر ضروری طور پر جوش و جذبہ متعین رہتا ہے۔ لمبی چوڑی تقریروں سے اکثر سے می نار یا محفل میں مزا کرکرا ہوتا ہے مگر ریختہ کے جشن کی افتتاحی مجلس میں ہرگز کچھ نہ ہوا۔ گلزار اور استاد امجد علی خاں کی موجودگی اسٹیج پر اپنے آپ میں بہت بڑی بات تھی مگر دونوں نے پانچ پانچ منٹ سے زیادہ وقت نہیں لیا۔ ان کی بڑائی اس طرح اُجاگر ہوئی کہ ریختہ فونڈیشن کے بانی جناب سنجیو سراف کو جب اسٹیج پر بلایا گیا تو انھیں ان بزرگوں نے مرکزی کرسی پر بٹھایا اور اپنے عزیز کی طرح قلب میں جگہ دی۔ سنجیو سراف نے بھی مختصر جملوں میں مہمانوں کا استقبال کیا اور اردو سے اپنی محبت اور عشق کی تفصیل بتاتے ہوئے رخصت ہوگئے اور امجد علی خاں کے ہونہار عالمی شہرت یافتہ بچوں ایان علی بنگش اور امان علی بنگش کے لیے اسٹیج خالی کردیا۔ دونوں بھائیوں نے کبھی گایا اور کبھی صرف بجایا مگر پونے دو گھنٹے تک کسی کو محفل سے اُٹھنے نہ دیا۔ تقریر کی جگہ پر ریختہ نے سُر کی چھایا میں ایک ایسا خوش گوار ماحول پیش کیا جس سے لوگوں کو پتا چل جائے کہ اردو کی مٹھاس کا ایک نیا ذائقہ اگلے دو دنوں تک لوگوں کو کس طرح اور کس معیار سے حاصل ہونا ہے۔

 جشن ریختہ کا افتتاحی اجلاس مختصر مگر بارآور ثابت ہوا۔ استاد امجد علی خاں نے خود کو بے زبان صنف کا کارندہ بتاتے ہوئے جس زبان کا استعمال کیا ، وہ بے حد پُرکشش تھی۔ اسی قدر سجی اور دھلی ہوئی تھی جیسے ان کی موسیقی اور شخصیت ہے۔ گلزار نے اپنی تقریر کا مرکزی نکتہ اردو رسم الخط کو بنایا اور اس بات پر زور دیا کہ اردو کی محفلوں میں محض شامل ہوجانے سے اردو سے آپ کا عشق قائم نہیں رہ سکتا، اس زبان کے رسم الحظ کی حفاظت اسی وقت ممکن ہے جب زیادہ سے زیادہ لوگ اردو کو اس کے رسم الخط کے ساتھ سیکھیں ۔ فلمی گلزار کی اس بات کو مشاعرے کی صدارت کرتے ہوئے اردو کے معمر شاعر گلزار دہلوی نے مزید استحکام کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کیا۔ نہایت جذباتی انداز میں گفتگو کی کہ ہماری مادری زبان کو اس کے رسم الخط کے ساتھ سیکھ کر کس اندازسے اپنی تہذیب و ثقافت کو سنبھال پائیں گے۔ ریختہ فائونڈیشن کے موسس سنجیو سراف نے اپنی استقبالیہ تقریر میں یہ بھی بتایا تھا کہ پانچ سات برس پہلے انھوں نے باضابطہ طور پر اردو رسم الخط کیوں سیکھی۔ اس اعتبار سے یہ پروگرام ایک بے حد بامعنی اور اردو کے لیے نہایت اہم سوال یعنی اردو رسم الخط کی تشہیر اور سیکھنے کی وکالت کرنے کے لیے وقف رہا۔ ریختہ فائونڈیشن نے اس موقعے سے اردو سیکھنے کے لیے ویب سائٹ لانچ کیا جس کا بہت خوب صورت نام ’’آموزش‘‘ رکھا گیا تھا۔ اس کی جو ابتدائی جھلکیاں پیش ہوئیں ، اس سے اس کی افادیت مسلم ہے۔ ایسا محسوس ہوا، وہ ویب سائٹ اردو کے فروغ کے لیے نئے تقاضوں کے ساتھ سامنے آیا ہے۔

 ایک زمانے میں ہماچل پردیش کے پہاڑی سلسلوں کو دیکھتے ہوئے مبہوت ہوکر میں نے ایک نظم کہی تھی جس میں یہ مصرع موجود تھا: ہر طرف کے پہاڑ کو دیکھنے کے لیے ہزار آنکھیں چاہیے‘‘۔ جشن ریختہ میں بار بار اس کا احساس ہوا کہ آخر ایک وقت میں چار جگہوں پر آدمی کیسے رہ پائے گا۔ پروگرام کے موضوعات، اس مضمون کے ماہرین اور اپنی دلچسپیوں کے حساب سے بھی بار بار یہی لگتا رہا کہ ہر جگہ ہمیں شامل ہونا چاہیے مگر اپنی مجبوریاں سمجھ میں آئیں ، اس لیے پروگرام چارٹ پر پہلے سے نشان قائم کرکے مستعد رہنا ہوتا تھا کہ اپنے بہترین پروگرام سے محروم نہ ہوجائیں ۔ اس انتخاب میں کئی ایسے پروگرام چھوٹ گئے جن کا قلق رہا اور صبر کیا کہ زندگی میں پھر کبھی ایسی صحبت شاید میسر آجائے۔

 شاعری، موسیقی، قلم، ادب اور دانش وری کے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے ریختہ کے پروگرام کے تمام خاکے متعین ہوئے تھے۔ سرسری طور پر کوئی نکتہ داں یہ اعتراض کرے گا کہ یہاں قبول پسند رویّے زیادہ حاوی رہے۔ گلزار کی شمولیت اور کچھ دوسرے افراد کی موجودگی کو اس بات سے مزید استحکام حاصل ہوا۔ یہ جشن ریختہ کا محض ایک پہلو ہے۔ دوسرے دن کے پروگرام میں عرفان حبیب کو سننے کے لیے آڈیٹوریم میں ایسی بھیڑ تھی جس کا بغیر عینی شاہد ہوئے کوئی آسانی سے اندازہ نہیں کرسکتا۔ پروگرام شروع ہونے سے آدھا گھنٹہ پہلے جو داخل ہوگیا، اس کے بعد کوئی آنہیں سکتا تھا۔ گیلری کی سیڑھیاں لوگوں سے بھر گئیں ۔ ڈائس کے سامنے فرش پر بھی لوگ بیٹھ گئے، اب بھیڑ کہاں جائے، آخر میں اسٹیج پر مقرر کی کرسیوں کے دائیں بائیں جتنی جگہ تھی ، اس میں لوگ بیٹھ گئے۔ میری نگاہ اسی طرح فرش پر بیٹھے لوگوں پر پڑی۔ کہیں پروفیسر منیجر پانڈے نظر آئے تو کہیں پروفیسر انیس الرحمان، اسٹیج کے دائیں بائیں فرش پر بیٹھے حضرات کی تعداد سو سے زائد تھی جنھیں باہر سے ہی لوٹ جانا پڑا، ان کی کون جانے۔ عرفان حبیب سے مختصر سوال ایک دو جملے میں شروع ہوا اور وہ تفصیل سے اپنے جوابات دیتے رہے۔ اردو کی ابتدا حکومتوں سے اس کے تعلق، دلی کی زبان اور اردو کی تعمیر و تشکیل جیسے موضوعات پر عرفان حبیب بولتے چلے جارہے تھے۔ غالب کی زبان میں کہیں تو سماں یہی تھا: ’وہ کہیں اور سنا کرے کوئی‘۔ نہایت پُرمغز اور تحقیقی اعتبار سے مستند شواہد کی بنیاد پر ان کی گفتگو جاری رہی۔ وہ حوالہ جات لکھ کر لائے تھے اور تجزیے کے درمیان اس کی تفصیل بتاتے چلے گئے۔ کون سا ایسا پہلو تھا جس پر کوئی نئی بات سامنے نہ آئی ہو۔ میں نے آج تک کسی اردو کے ماہر لسانیات اور ادبی مورخ سے ویسی کارآمد اور محققانہ گفتگو نہ سنی اور نہ نظر آئی۔ ایک لفظ نہ زیادہ اور نہ ایک لفظ کم۔ پھر غالبؔ یاد آئے ،سخن ور کس طرح سہرا کہتے ہیں ، کوئی آکر دیکھ جائے اور غالبؔ کا تازیانہ بھی یاد آیا کہ کوئی اس سے بڑھ کر سہرا یعنی تقریر کرکے دکھائے۔ ڈیڑھ گھنٹے کا یہ سیشن مغز کے اعتبار سے برسوں کی تعلیم و تدریس یا درجنوں قومی اور بین الاقوامی سے می ناروں سے بڑھ کر تھا۔ اس بار کے جشنِ ریختہ میں ہمیں محسوس ہوا کہ واقعتاً ہمارے علم میں اضافہ ہوا۔

 جشنِ ریختہ میں مشاعرے کا معیار البتہ کم تر تھا۔ کچھ ایسے شعرا بھی نظر آئے جو نہ شامل ہوتے تو مشاعرے کا وقار بڑھتا۔نہ وہ ادب کے لیے اہم تھے اور نہ ہی عوام کے لیے، ریختہ کو اس پر نگاہ رکھنی چاہیے۔ ریختہ کے محدود پیمانے میں اضافہ ضروری ہے۔ امیر خسرو کے سلسلے سے اردو کے سربرآوردہ نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ کی تقریر بارآخر کار آمدنہیں سمجھی گئی کیوں کہ انھوں نے اپنی پرانی تحریر جو بار بار مجلسوں میں پیش کرچکے ہیں وہاں پھر سے پڑھ کر سنایا۔ امیر خسرو کی پہیلیوں ، مکرنیوں ، کہہ مکرنیوں کی مثالیں تقریباً ایک گھنٹے تک سناتے رہ گئے۔ ان پر اپنے تاثرات اور زبان کے ارتقا میں اس سرمایے کی اہمیت پر وہ پندرہ منٹ بھی نہیں بول پائے۔سوال یہ ہے کہ امیر خسرو کے مبیّنہ کلام کو گوپی چند نارنگ کی زبان میں سننے سنانے کے لیے یہ محفل آراستہ نہیں کی گئی تھی۔ وہاں ہمیں یہ جاننا تھا کہ امیر خسرو کا جادو کس طرح سرچڑھ کر بولتا ہے۔ ریختہ نے جتنے جلسے کیے ان میں پندرہ بیس منٹ سوال و جواب کے لیے وقفہ متعین تھا۔ گلزار جیسے اسٹار ہوں یا عرفان حبیب جیسے عہد ساز مورخ کسی نے عوام کو سوال پوچھنے سے محروم نہیں کیا۔ افسوس یہ کہ اردو کے سب سے بڑے نقادوں میں گنے جانے والے پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اپنی ہمہ دانی میں اس بات کا خیال نہیں رکھاکہ لوگوں کے سوال پوچھنے کا حق نہیں چھیننا چاہیے تھا۔ ریختہ کے پروگرام میں یہی ایک اجلاس تھا جس میں اردو کے ناکام سی می ناروں کی واضح جھلک نظر آئی۔ اس کا بہت افسوس ہوا۔

 جشنِ ریختہ اردو میں ایک پاپولر کلچر کی بنیاد ڈالنے کی کوشش ہے۔ اردو کے ایک پروگرام میں تین دنوں کے دوران بھیڑی ہی بھیڑ نظر آئے تو اسے ہر اعتبار سے کامیاب ہی کہا جائے گا۔ مہاراشٹر میں گذشتہ برسوں میں قومی اردو کونسل کے کتاب میلے میں پچیس تیس ہزار کی بھیڑ اور سڑکوں پر جلوس کی شکل میں موجود ہوتی ہے۔ ریختہ نے دلی کے ایک اتنے بڑے کیمپس میں پروگرام کرکے لوگوں سے کھچا کھچ بھر کر یہ ثابت کیا کہ ہماری دعوت پر ملک کے طول و عرض سے ہزاروں لوگ صرف اور صرف جشن میں شامل ہونے کے لیے اپنے صرفے پر آسکتے ہیں ، اسے خوش آیند کہنا چاہیے۔ اب نہ انجمن ترقی اردو کی عوامی مہم ہے اور نہ قومی اردو کونسل سرکاری ادارہ ہوتے ہوئے ایسی عوامی پیش رفت کرسکتا ہے۔ اپنے تجربوں سے سیکھتے ہوئے جشنِ ریختہ بتدریج بہتر ہوتا جائے گا، اس کی ہمیں توقع رکھنی چاہیے۔

تبصرے بند ہیں۔