جمال خاشقجی کا قتل: پس پردہ حقائق

ڈاکٹرعمیرانس

جمال خاشقجی ایک خوش قسمت سرزمین کا بلکہ سر زمین مقدس کا باشندہ تھا، اسکی بدقسمتی کی داستان لکھتے ہوئے ہر صاحب دل کو ایک آزمائش کا سامنا کرنا ہوگا، اسکی مظلومیت کو جتنا بیان کیا جائیگا، اتنا ہی زیادہ ارض مقدس کا تقدس پارہ پارہ ہوگا. سعودی نظام کے غیر سعودی مجاہدین کے لیے سخت آزمائش یہ ہےکہ اب خود سعودی حکومت نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ انکا شہری انکی سفارتی عمارت میں تفتیش میں ہاتھا پائی کے دوران حادثاتی طور پر مقتول ہوا، اس حادثاتی موت کو چھپانے کے لیے سعودی عرب سے پندرہ اہلکار آئے، اسکی لاش کو نہ معلوم مقام پر ٹھکانے لگا دیا گیا، پہلے دن سے ساری دنیا سے جھوٹ بولا گیا، پھر اس جھوٹ کو چھپانے کے لیے  جمال خاشقجي کے غائب ہونے کے پیچھے قطر، الجزیرہ، اخوان اور ترکی کی مشترکہ سازش کا بھوت استعمال ہوا۔ اس جھوٹ کو نہ بولنے والے سعودی شہریوں کو غدار یا دہشت گرد سمجھا گیا، یہاں تک کہ خود جمال خاشقجي کی شخصیت کو مشکوک بنانے والے پرانے معاملے پرچار میں لائے گئے، انکی ہونے والی بیوی کو بدکردار قرار دینے کی قحطانی مہم چلائی گئی، دور جدید کا المیہ یہ ہےکہ اسکا حافظہ انتہائی قاتلانہ ہے۔ آج جبکہ جمال کی موت کا اعتراف کیا جا چکا ہے تو سعودی سرکاری اور غیر سرکاری میڈیا کی ساری ٹویٹس، مضامین، بیانات، سب سائبر اسپیس میں گردش کر رہے ہیں، یہ سب یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ جمال خاشقجي کا قتل حادثاتی نہیں بلکہ ایک باقاعدہ منصوبہ بند قتل ہے جسکا حکم مملکت کے سب سے اعلی مناصب سے جاری ہوا تھا۔

البتہ جو درست ہے وہ یہ ہےکہ اس وقت مملکت سعودی عربیہ شاہ سلمان کے ہاتھوں سے پوری طرح سے باہر نکل چکی ہے، جو کچھ ہوا اسکی زمہ داری شاہ سلمان پر عائد کرنا زیادتی ہوگی۔ شاہ سلمان کا پرانا ریکارڈ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ آل سعود کے چنندہ بصیرت مند حکمرانوں میں سے ہیں۔

لیکن انکی غلطی یا انکی مجبوری کی غلطی یہ ہے کہ انہونے مملکت کے تمام تجربہ کار اصحاب حل و عقد کے مقابلے اپنے ناتجربہ کار اس بیٹے کو ترجیح دے دی جو آج پوری طرح سے امریکی صدر کے داماد کوشنر کی مشاورت پر منحصر ہیں، انہیں اپنے ہی بھائیوں کے مقابلے اب امریکی لابیوں کا سہارا ہے، مسئلہ فلسطین ہو یا مسئلہ شام، سعودی عرب کی موجودہ پالیسیاں اپنے ہی مرحوم بادشاہوں کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جس مملکت کو شاہ فہد اور شاہ عبدالعزیز نے اپنی فراست سے عالم اسلام کا دل بنایا تھا ایک بگڑے شہزادے نے اسے امارت جیسی معمولی سی مملکت کا تابعدار بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ یمن اور لیبیا میں امارات کی انسانیت سوز بمباری کے بل سعودی حکومت کے نام پر بنائے جا رہے ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایران اس وقت علاقائی سیاست کا سب سے خطرناک کھلاڑی ہے، شاہ فہد اور شاہ عبد العزیز نے جس حکمت سے ایران کو الگ تھلگ کیا تھا شاہ سلمان کے بیٹے نے علاقائی سیادت ایران کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کردی ہے، لیبیا سے سعودی کردار ختم ہو چکا ہے، عمان اور کویت میں سعودی عرب کے موجودہ فیصلوں پر سخت تشویش کا ماحول ہے، اور یہ سبھی اس احساس میں ہیں کہ امارات نے سعودی پالیسیوں کو یرغمال بنا لیا ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ قطر کے خلاف سعودی اماراتی بائیکاٹ کو علاقے کے سبھی ممالک نے ردِّ کردیا ہے، یہاں تک کہ اردن جیسا ملک ایران کے حق میں نرم ہوگیا ہے، جس قطر کو اور مصر کے اخوانی صدر کو ایران سے نرم گوشہِ رکھنے کی سخت سزا دی گئی ہے اسی ایران سے بلین ڈالرز کی تجارت، سفارتی تعلقات، تجارتی تعلقات پروان چڑھانے پر یونائیٹڈ عرب امارات کو کو سزا نہیں!

 جس ترکی نے سعودی فوج کی ٹریننگ اور جدید کاری کے لیے شاہ سلمان سے پہلی بار اعلی سطحی معاہدے کیے تھے محمد بن سلمان نے ان معاہدوں کو طاق پر رکھ کر علاقے میں ترکی کے خلاف محاذ آرائی کا کنٹریکٹ لیے لیا ہے۔ تیونس اور مراکش، الجزائر اور سوڈان جیسے ممالک بھی اب سعودی قیادت کے اخلاقی اور انسانی رسوخ سے باہر نکل گئے ہیں۔ فوجی قوت کے اعتبار سے آج سعودی عربیہ سب سے کمزور پوزیشن پر ہے۔ وہ کسی بھی ملک سے جنگ کا متحمل نہیں ہے۔

جمال خاشقجي کا قتل صاف طور پر اس بات کی دلیل ہے کہ سعودی شہزادے بنیادی طور پر ایک مصنوعی خوف کے obsession میں رکھے گئے ہیں، دشمن اور دوست کی کمزروی اور طاقت کو حقیقت پسندی سے جانچنے کی انکی صلاحیت ختم کر دی گئی ہے، جس اخوان نے سعودی حکمرانوں کو ناصری مصر کے خلاف اور سوویت یونین کے خلاف ساتھ دیا اسے یک قلم دشمن اور دہشت گرد سمجھنے کی غلطی کسی دماغی خلجان کا ہی نتیجہ ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب کی موجودہ پالیسیاں ایک اندھیرے کوئیں کی طرف بڑھ رہی ہیں جو سعودی عرب کو کمزور کرنے کی سازش ہے۔ موجودہ پالیسیاں کا سب۔سے زیادہ نفع امریکہ، اسرائیل اور ایران کو حاصل ہو رہا ہے۔ یہ یقین رکھا جائے کہ ایران کو امریکہ سے اور اسرائیل سے بہتر تعلقات بنانے کی تمام وجھیں موجود ہیں۔ جس دن ایران چاہیگا اس دن۔وہ امریکہ سے تعلقات بنا کر سعودی عرب کی علاقائی برتری کا خاتمہ کر دیگا۔

سعودی عرب اپنے خیر خواہوں سے دور اور اپنے بد خواہوں کی گود میں بیٹھنے جا رہا ہے جسکا نتیجہ صرف یہ ہےکہ سعودی عرب کو اپنی فرضی علاقائی برتری کے لیے امریکہ اور اسرائیل کو بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ اگر سعودی عرب اپنی علاقائی سیادت اور اخلاقی برتری کا پرانا دور واپس لانا چاہتا ہے تو اسے:

1. دوست اور دشمن سمجھنے کے لیے اپنے آنکھ کان کا استعمال کرنا ہوگا، تمام اسرائیلی اور امیرکی مشاورت سے باہر نکلنا ہوگا۔ امارات اور امریکی دامادوں کو سعودی تخت سے دور رکھنا ہی مملکت کے حق میں بہتر ہوگا، خطے کے سبھی ممالک کے درمیان متوازن رشتے ہی سعودی سلامتی کی ضمانت ہے۔ ایران، ترکی، عراق، پاکستان سمیت سبھی ممالک کی ضرورت ہے اور سبھی سے۔بہتر رشتوں کا ماڈل تلاش کرنا ہوگا۔

2. سعودی عرب اسلامی تشخص اور اسلامی قیادت کے بغیر ایک بے وزن مملکت ہے۔ سعودی عرب کا اسلامی تشخص کسی مسلک، مذہب، کسی مخصوص فقہ کا۔نہیں ہے بلکہ امت کے تمام مسالک، مذاھب اور فقہی مدارس کا ہے، سعودی عرب کو صرف وہابیت یا صرف مسلک اہل حدیث کا نمائندہ بنانا امریکی مفادات کے لیے بیحد مفید ہے۔

3. سعودی مملکت ایک فوجی قوت بننے کے جنون سے باہر نکلنا۔چاہیے کیونکہ سعودی مملکت کی اصل طاقت اسکا سوفٹ پاور ہے جسکی وجہ سے وہ عالم اسلام کے سارے ممالک کہ منظور نظر رہیگا، عالم اسلام کو متحد رکھنے اور اسکی ہمہ جھت ترقی کے منصوبے کاربند کرنا اسکی ترجیح ہونی چاہیے، اس لیے علاقے میں اپنی فوجی مداخلت خاص طور پر یمن کی جنگی مہم کو جلد از جلد ختم کرکے وہاں مصالحت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

4. ایک غیر مذہبی اور سیکولر ایران سعودی عرب کے لیے زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ اسکی مذہبی فکر کو اسلامی جذبات کو صحیح سمت میں لانا ممکن ہے لیکن ایک فارسی قوم پرست اور سیکولر ایران سے مقابلہ کرنا سعودی مملکت کی قوت سے باہر ہے۔

5. دینی جماعتوں اور مذہبی رہنماوں کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنا اور انہیں سیاسی فیصلوں کہ غلام بنانا نہ صرف اسلام پر ظلم ہے بلکہ سعودی معاشرے کی حقیقی ترقی کے لیے رکاوٹ ہے، مذہبی جماعتوں اور شخصیت کا تمام خوف اور لالچ سے محفوظ ہونا اسلام کی ترقی کے لیے معاون ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔