جمعیۃ العلماء ہند: ایک تعارف

سلیمان سعود رشیدی

بات اس وقت کی ہے جب سارےعالم میں نفرت کا جولہا، گرم تھا کیونکہ  ۱۹۱۹  اور ۱۹۲۰ میں کے ایک طرف  عالمی حالات استعمار کا شکار تھیں، تو وہی دوسری طرف ہندوستان  ناگفتہ بہ حالا ت سے جوج رہا تھا جس کا سب سے زیادہ نقصان مسلمان اور بالخصوص علما اٹھا رہے تھے ، ایسے میں  اپنی شخصی پہچان بنائے رکھنا نیز ہندوستان کو انگریزکے جنگل سے نجات دلانا از حد ضروری تھا، اسی تگ ودو میں ملک کے نامور اور چوٹی کے علما سر جوڑ بیٹھے، جس میں مولانا ثنااللہ امرتسری نے ایک علما کی تنظیم کے قیام کی تجویز دی، جسکا خواب مولانا محمود حسن صاحب نے دیکھا تھا،جسکی حمایت ۲۵، بڑے علما نے کی، اسی خواب کو شرمندہ تعبیر۱۹، نومبر ۱۹۱۹ "جمیعت العلما ہند”نامی تنظیم کے قیام سے کیاگیا، جسکا پہلا اجلاس ڈسمبر ۱۹۱۹ کو ثنا اللہ امرتسری کی کوشش سے امرتسر میں منعقد ہوا جسکی صدارت عبد الباری فرنگی محلی نے انجام دی، اسی اجلا س میں انتظامیہ تشکیل دی گئ،جسکا باقاعدہ پہلااجلاس نومبر ۱۹۲۰ دہلی میں منعقد ہوا جس میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن صدر ہوئے، مفتی کفایت اللہ صاحب نائب صدر اور مولانا احمد سعید صاحب ناظم بنائے گئے، اور اس وقت اس عظیم تنظیم کی باگ دوڑ حضرت مولانا ارشد مدنی کے یاتھ ہے،یہ  وہ واحد تنظیم ہےجو  روز اول تا امروز اپنے مقاصد پر کاربند رہی، متحدہ ہندوستان کی سب سے بڑی اور قدیم تنظیم جسنے اپنے قیام سے لیکر ۱۹۴۷ تک ملک کی آزادی کے لیے کانگریس کے شانہ بشانہ ہندومسلم مشترکہ جد وجہد اور قربانیوں سے ملک کو آزاد کرایا، آزادی کے بعدسیاسی پکڈنڈیوں سےاپنے کو الگ کرکے کلیہ طور پہ مذہبی شناخت کے ساتھ،تعلیمی تبلیغی، تصنیفی، رفاہی خدمات سے اپنے کو خالص کرلیا،

اغراض ومقاصد :

۱)اسلام، شعائر اسلام اور مسلمانوں کے ماثر ومعابد کی حفاظت

۲)مسلمانوں کےمذہبی، تعلیمی،تمدنی، اور شہری حقوق کی تحقیق و تحصیل۔

۳) مسلمانوں کےمذہبی، تعلیمی،معاشرتی اصلاح

۴)ایسے اداروں کا قیام جو مسلمانوں کی تعلیمی، تہذیبی، سماجی،اقتصادی اور معاشرتی  زندگی کی ترقی واستحکام کا ذریعہ ہوں۔

۵)اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انڈین یونین کے مختلف فرقوں کے درمیان میل جول پیدا کرنے کے ساتھ اسے مضبوط کرنے کی جدوجہد کرنا۔

۶)علوم عربیہ اور اسلامیہ کا احیا  اور زمانہ کے مقتضیات کے مطابق نظام تعلیم کا اجرا

۷) تعلیم اسلامی کی تشر واشاعت اور اسلامی اوقاف کی تنظیم وحفاظت۔

 جمیعت نے اپنےاغراض ومقاصد تک پہچنے کے لیے کئی شعبہ قائم کیے۔

مرکزدعوت اسلامی

جمیعت مسلم سگریٹیٹ

شعبہ نشرواشاعت

دارالمطالعہ

فقہی رہنمائی کے لیے "مباحث فقہیہ”

دینی تعلیم بورڈ

شعبہ ریلف

جمیعت نے کیا کیا ؟

ان شعبوں کے تحت جمیعت نے جدید  وتکنیکل اسکولس کا قیام، مساجد ومدارس پر زور  تاکہ تعلیم عام ہو، مسلم پرسنل لا کا  دفاع، شہری پنچایتوں کا قیام اور ضرورت مندوں کی امداد، گھریلودستکاری کافروغ، نیز علی گڑھ مسلم اقلیت کا مسئلہ ہو یا پھر بابری مسجد کا مسئلہ ہو، نیز دہشت گردی کا مسئلہ ہو ان سب کے خلاف آواز اٹھائ، اسکے علاوہ ایک اہم اور سب سے بڑا کارنامہ ملک کے نامور وکلا کی مدد سے۳۰۰ سو کڑوڑ کے قطیر رقم خرچ کرکے اب تک  ۹ ہزار بے قصور مسلم نوجوان جو قید وبند کی زندگی گذار رہے تھے انھیں آزادی کی نعمت فراہم کی،اسی کے ساتھ ۷۰ لاکھ افراد کو آسام کی شہریت دلوائ، ملک کی آ زادی سے لیکر اب تک جمیعت نے مسلمانوں کے تمام مسائل کے حل کے لیےسنجیدہ رہی کیونکہ بٹوارہ کے بعد ہندی مسلم طبقہ کے لیے سب سے اہم مسئلہ اپنی مذہبی شناخت کی بقا تھا،اس وقت کے حالات کو دیکھ کر مولانا آزاد نے فرمایا تھا” اگر مسلمانوں کی دین کی حفاظت کرلی جائے تو ہم نے ملک میں بڑا کام کیا "جسکے لیے جمیعت نے نہ صرف مسلمانوں کو مذہبی تعلیم سے جوڑے رکھے بلکہ دنیوی تعلیم کی طرف بھی خصوصی توجہ مبذول کرائ جسکے لیے دنیوی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے جمیعہ اسکالر شپ کے نام سے تعلیمی وضائف کا اجرا عمل میں لیا، اور اسی کے ساتھ آفت سماویہ اور بے گھر عوام کو ۲۱ کڑوڑ کی لاگت سے مکانا ت تعمیر کراےکے راحت دی،ان سب میں  بلا تفریق مذہب امدادی ورفاہی کام انجام دیے، ہزاروں علماء کرام کی سرپرستی میں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہندوستانی مسلمانوں کی اس تنظیم کے ایک کروڑ سے زیادہ ممبران اگر قوم وملت کی خدمت کے جذبہ سے آراستہ ہوکر میدان عمل میں اتر آئیں تو آج بھی مسلم اور ملک مخالف طاقتیں گھٹنے ٹیک دیں گی ان شاء اللہ۔

  جیساکہ یہ با ت واضح ہے کہ یہ ادارہ اپنے قیام ہی کے روز سے اپنے اصول کی حفاظت کے لیے لڑا اور اسکے رہنما تحریک آزادی اور ترک مولات میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ اسکی پرزور حمایت کی، برطانوی اعزازات اور عہدوں کا بیکاٹ کیا  نیز ۱۹۲۲ کے ہندو مسلم فرقہ وارانہ فسادات کے بعد ہندو مسلم کے اتحاد پر زور دیا، اسی دوران ماہتما گاندھی کے "نمک ستم گرم” میں پرزور شرکت کی، آزادی کی تحریک میں شمولیت کے ساتھ، ساتھ کانگریس کے قدم بقدم رہے اسکے رہنما متحد قومیت کے قائل، ہندوستان کے بٹوارہ کے خلاف تھےلیکن سوئے قسمتی کہ ملک تقسیم ہوگیا، اور فسادات کا ایک لمبا سلسلہ چل پڑا، اگر ان فسادات کے خلاف کسی نےآواز بلند کی تو وہ جمعیت تھی۔

  ۲۰۱۴ میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلسل ملک مسائل کا شکار ہے، ہر صبح ایک نیے مسئلہ کے ساتھ نمودار ہورہی ہے، جوکہ ایک سونچھی سمجھی سازش ہے، تاکہ مسلم قوم ان مسائل میں الجھ کر اپنے حقوق کو بھول جائیں کبھی سوریا نمسکار تو کبھی لو جہاد،تو کبھی گھر واپسی تو کبھی مسلم اقلیتی اداروں سے حقوق چھینے کی سازش تو کبھی امن کے گہوراہ مدارس اسلامیہ پر شکوک وشبہات کے بادل منڈلائے تو کبھی مسلم نوجواں کو ممنوع تنظٰموں سے جوڑکر انکی گرفتاری، سب سے بڑھ کر مسلمانوں کے پرسنلا میں مداخلت،جمیعت العلما ہند نے تحفظ شریعت و دفا ع دستور ہند کے لیے دستخطی مہم کو کامیاب بنانے میں مثالی کوشش کی  مگر ان سب کے باوجود جمیعت العلما ہند نے پوری حکمت وبصیرت کے ساتھ اسکے دفاع میں کھڑی رہی کیونکہ وقت کا تقاضہ یہی ہے، چناچہ ہم بھی مسلکی اختلاف سے ہٹ کر اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کے لیے ایک پلٹ فارم پر جمع ہوں۔

  آج ضرورت ہے کہ ہم دین اختلافی مسائل پر اپنی قیمتی صلاحتیں لگانے کے بجائے امت مسلمہ کی قیادت کرکے انہیں صحیح سمت میں لے کر چلیں۔ ان کی دینی تعلیم وتربیت کے ساتھ ان کے سماجی مسائل کو حل کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ انہیں عصری علوم سے آراستہ کیا جائے۔ اگر کسی مسلم نوجوان یا عالم دین یا اسلامی مرکز یا دینی درسگاہ کو نشانہ بنایا جائے تو اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر پوری قوت کے ساتھ مسلم اور ملک مخالف طاقتوں سے مقابلہ کیا جائے۔ اسی میں ملک کی بقاء کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کی عافیت ہے۔

اسی  اتحاد کے بقا کے لیے گاوں گاوں شہر شہر پھر پھر کر ہندو مسلم یکجہتی اجلاس وکانفریس منعقد کروارہے ہیں، جسکی ایک کڑی آج شہر حیدرآباد میں ہاکی گروانڈمیں منعقد ہونے والا پروگرام ہے  جسے کامیاب بنانا اور اس اجلاس سے ایک پیغام دینا ہم سب کا فریضہ ہے۔

جمیعت العلما کے اس طویل عرصہ کی خدمات کو ایک مختصر مضمون میں جمع کرنا ناممکن ہے، میں نے بس اپنے آشایانہ کے لیے جو چبھے دل کو وہی تنکے لیے۔

  آخر مین اللہ سے دعا ہے کہ اللہ امت کے اس سرمایہ کی ہر ذاویہ سے حفاظفت فرمایئں، اور اس ہونے اجلاس کو عافیت سے کامیاب کرے

تبصرے بند ہیں۔