کرب تعیین ِ ملامت

ادریس آزاد

کم سے کم پوچھ تولیتے

میری خیریت کا

میں جو اِس حال میں ہوں

قتل ہوا جاتا ہوں

لمحہ لمحہ کوئی ڈستاہوا زہریلا سانپ

سانس کے ساتھ اُترتا ہے مرے سینے میں

آنکھ سے آگ نکلتی ہے

جلاتی ہوئی آگ

وقت کو،

لمحۂ موجود کو کھاتی ہوئی آگ

خاک کا ڈھیر بناتی ہوئی آگ

اِک دھڑکتا ہوا انگارہ

یہاں پہلو میں

آہن ِ ذات کو پگھلائے چلا جاتا ہے

کیا بنے گا مرا؟

کیا تیرو تبر؟

کم سے کم پوچھ تو لیتے

کہ ابھی زندہ ہوں؟

یہ تسلسل سے گزرتے ہوئے

دن رات

جو ہر پل

کسی سازش میں لگے رہتے ہیں

چپکے چپکے سے

یہ اِک دوسرے کے صبح و شام

جس طرح کان میں کچھ کہتے ہیں

اِن کے کردار پہ شک ہے مجھ کو

مجھ کو لگتاہے کوئی خفیہ ہاتھ

مجھ کو لگتاہے کہ اِن کی ۔ ۔ ۔

آسماں پُشت پہ ہے

آسماں بھول گیا ہے شاید

فیصلہ اِس کے مقدر کا زمیں سے ہوگا

میں تو بس تم سے مخاطب ہوں

کہ کم سے کم

پوچھ تو لیتے کہانی کیاہے؟

اپنی حالت پہ پریشان ہوں میں

سچ بتانا ذرا مشکل سا ہے

یوں سمجھ لو

کہ نہ راندہ ہوں

نہ مقبول ہوں میں

بھوکے بچے کی ہتھیلی پہ دھرا پھول ہوں میں

تبصرے بند ہیں۔